بلوچستان حکومت کی بحالی میں تاخیر کیوں

14 مارچ کو بلوچستان میں لگایا جانے والا گورنر راج خودبخود ختم ہوجائیگا۔

ببلوچستان اسمبلی کے اکثر ارکان صوبے میں گورنر راج کے مخالف ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان حکومت کی بحالی کا چرچاعام ہے۔

اس حوالے سے مختلف خبریں بھی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہورہی ہیں اور قائد ایوان کی تبدیلی کی صورتحال میں مختلف نام بھی شائع ہورہے ہیں۔کبھی کہا جاتاہے کہ 72 گھنٹوں میں صوبائی حکومت بحال ہوجائے گی کبھی کہا جا رہا ہے کہ48گھنٹوں میں بحال ہوجائے گی۔ لیکن72 اور 48گھنٹے ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ کئی وزارت اعلیٰ کے امیدوار اسلام آباد میں دھرنادیئے بیٹھے ہیں۔ مشاورت اور فیصلوں کے حوالے سے بھی خبریں آرہی ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کو اس سلسلے میں قائل کرلیاگیاہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری جلد ہی اس حوالے سے فیصلہ کرنے والے ہیں۔

بلوچستان سے گورنر راج کا خاتمہ ہوجائے گا جبکہ دوسری جانب گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی بڑے مطمئن انداز میں کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ معزول وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ انہوں نے کوئی استعفیٰ کسی اتحادی جماعت کو نہیں دیا۔ اب پھر خبر آئی کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں2008ء کے عام انتخابات کے بعد صوبائی مخلوط حکومت15اپریل2008ء کو تشکیل پائی تھی اس لئے جہاں قومی اسمبلی سمیت دیگر تین صوبوں میں 14مارچ کو حکومتیں ختم ہورہی ہیں وہاں بلوچستان کی حکومت کی معیاد15اپریل2013ء کو پوری ہوگی۔گورنر راج صوبے میں آئین کی دفعہ234 کے تحت 13 جنوری 2013ء میں2ماہ کے لئے نافذ ہوا۔


اسی طرح اس کی معیاد14 مارچ کو ختم ہوگی آئین کی دفعہ234 کے تحت گورنر راج کے نفاذ کی منظوری قومی اسمبلی سے لینا ضروری نہیں یہ کم سے کم دوماہ کیلئے لگایاجاسکتاہے۔دو ماہ کے بعد یہ خودبخود ختم ہوجائیگا۔اگر آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت صوبے میں گورنر راج نافذ کیاجاتا تو پھر اس کے لئے ضروری تھا کہ10دن کے اندر اندر قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جاتی۔اگر دس دن میں منظوری نہ ملتی تو 11ویں دن یہ خودبخود ختم ہوجاتا۔ان حلقوں کے مطابق قومی اسمبلی میں پی پی پی کی حکومت کو اس کی منظوری کیلئے اکثریت حاصل نہیں، کیونکہ(ن) لیگ کے علاوہ اس کی اتحادی جماعت جے یو آئی(ف) بھی اس کی مخالفت کررہی ہے اس لئے حکومت کواس صورتحال میں شکست کا سامنا ہوسکتاہے۔

پی پی پی کی حکومت نے اس حوالے سے جو قرارداد قومی اسمبلی میں لانی تھی وہ عین وقت پر التواء میں ڈال دی ہے اور خاموشی اختیارکرلی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق یوں لگتا ہے کہ حکومت صوبے میں دوماہ کیلئے گورنر راج کو نافذ رکھنا چاہتی ہے؟۔ان حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد نگران سیٹ اپ میں پی پی پی کی حکومت کو صوبے میں مشکلات نظرآرہی ہیں۔اس لئے ممکن ہے کہ مارچ2013 کے دوسرے ہفتے میں بلوچستان میں گورنر راج کو ختم کر دیا جائے جس کے بعد بلوچستان اسمبلی میں نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب عمل میں لایاجائے تاکہ صوبے میں نگران سیٹ اپ کیلئے نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف مشاورت کرسکیں، اورنیا نگران سیٹ اپ تشکیل دیں۔

بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت (ق) لیگ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ وہ صوبائی اسمبلی کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ اب یہ اس کا حق بنتاہے کہ حکومت کی بحالی کی صورت میں وزارت اعلیٰ اسے دی جائے۔ اگر اسے وزارت اعلیٰ نہیں دی جاتی تو پھر وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گی۔ (ق) لیگ کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں آئندہ آنے والے نگران سیٹ اپ میں وہ اپنا کلیدی کرداراداکرے اگر اسے وزارت اعلیٰ مل جاتی ہے تو وہ ان ہوجائے گی نہیں تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر نیا قائد حزب اختلاف اپنا بناکر بھی ''ان'' ہوجائے گی۔

دوسری جانب جمعیت علماء السلام(ف) کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ نگران سیٹ اپ کی تشکیل میں''ان'' ہوجائے۔ سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی پی پی چاہتی ہے کہ وزارت اعلیٰ اس کے پاس تھی یہ اس کے پاس ہی رہے۔ (ق) لیگ اور پی پی پی اس وقت مرکز میں اتحادی ہیں اس لئے ان دونوں کی یہ کوشش رہے گی کہ وزارت اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف ان دونوں کو مل جائے، لیکن اس تمام کھیل میں جے یو آئی(ف) کے کھلاڑی بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ وہ اس سیاسی کچھڑی کو کبھی بھی اتنی آسانی سے پکنے کے لئے نہیں چھوڑیں گے۔
Load Next Story