سرکاری اسکولوں کی حالت زار

پنجاب حکومت کے مطابق صوبے بھر میں 266 اسکولوں پر بااثر افراد کا قبضہ ہے

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں قائم اسکولوں کی جائزہ رپورٹ مرتب کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں قائم اسکولوں کی جائزہ رپورٹ مرتب کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں واقع سرکاری اسکولوں کی رپورٹ30دن کے اندر مرتب کریں۔عدالت نے ہدایت کی ہے کہ رپورٹ میں ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے کہ کس ضلع میں کتنے سرکاری اسکول قائم ہیں اوران میں طلبہ کوکیا سہولیات میسر ہیں،گھوسٹ اسکولوںکی تعدادکتنی ہے،گھوسٹ اسکولوں اور ان کی عمارتوں پر قبضے کی وجوہات کیا ہیں اورکون لوگ اس قبضہ کے ذمے دار ہیں ۔یہ احکامات چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران دیے۔ ملک میں قائم سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر سپریم کورٹ کے ریمارکس اور احکامات ارباب اختیار اور تعلیمی شعبے کے نگراں حکام اور ماہرین تعلیم کے لیے بلاشبہ لمحہ فکریہ ہیں۔

ان احکامات سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں تعلیم وتدریس کے نام پر تعلیمی افسر شاہی کیا گل کھلا رہی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ مستقبل کے معماروں سے کیسا دردناک مذاق جاری ہے۔ عدلیہ نے جو حقائق بیان کیے ہیں وہ ناقابل تردید ہیں، اسکول واقعی اوطاق اور مویشیوں کے باڑھے بن چکے ہیں جب کہ بلوچستان سمیت سندھ،پنجاب،اور خیبر پختونخوا میں سرکاری اسکولوں کی صرف فائلوں میں جھوٹی تعمیرو مرمت اور ان میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے اندراج اور حاضریوں کے اتنے شرمناک واقعات کا انکشاف ہوتا رہا ہے کہ کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا بیڑا غرق ہورہا ہے۔کئی بار یونیسف اور عالمی مالیاتی اداروں نے تعلیمی فنڈز اور اسکولوں کی تعمیر میں گھپلوں اور طلبہ کے ڈراپ آئوٹ اور لڑکیوں کے اسکولوں میں کم ترین شرح خواندگی پر تشویش ظاہر کی ۔


کیا ہم تعلیمی ابتری اور اسکولوں کے ناگفتہ بہ حالات میں ترقی ، علمی ایجادات اور سائنسی کمالات کے شعبے میں دوسری قوموں کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔چیف جسٹس نے سرکاری اسکولوں کا نوٹس لے کر در حقیقت انحطاط پزیر تعلیمی نظام کے ڈھول کا پول کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔چیف جسٹس کے اس انداز نظر کے بعد کہ وڈیرہ اور جاگیردار طبقہ تعلیم کے خلاف ہے ، اسکولوں پر قبضے ہیں ، ہزاروں جعلی اسکول چل رہے ہیں جن پر عوام کے اربوں روپے ضایع ہو رہے ہیں، اگر تعلیم پر بھی سیاسی اثرو رسوخ استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ قوم کے ساتھ گھنائونا مذاق اور ظلم ہے کیا ضروری نہیں کہ ارباب اختیار سرکاری اسکولوں کی کایا پلٹ کے لیے وضاحتوں یا بغلیں جھانکنے کے بجائے عدلیہ کے احکامات پر صدق دل سے فوری عمل کریں ۔

عدالت میں چیف سیکریٹری سندھ اور سندھ رورل ڈویلپمنٹ سوسائٹی کی مشترکہ رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ سندھ میں99سرکاری اسکول بند پڑے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عوام بتا رہے ہیں کہ اسکولوں میں جانورباندھے گئے ہیں، عدالت کے سامنے جھوٹی رپورٹ پیش کی گئی، چیف جسٹس نے اسپیشل سیکریٹری تعلیم سے کہا کیاآپ کو بچوں پر ترس نہیں آتا، عدالتی معاون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ حکومتوں نے سوچ رکھا ہے کہ سماجی شعبہ کو اہمیت نہیں دینی۔عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 36 گھوسٹ اسکول ہیں، شورش کے باعث تعلیمی ماحول تباہ ہوچکا ہے،لاہور کے ایک اسکول کی21 کنال اراضی میں سے 9 کینال پر قبضہ ہے ، وڈیرا شاہی عام ہے ۔ خیبرپختونخوا میں سروے جاری ہے تاہم مردان میں7اسکولوں کا قبضہ ختم کرایا گیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا محکمہ تعلیم کے افسران اپنے ہی اسکولوں کی حالت زار سے لاعلم ہیں ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا قوم کو مفلوج کرنے کے لیے ان کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بندکردیے گئے ہیں،ہم قوم کے بچوں کے ساتھ ظلم نہیں کرنے دینگے ۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ سندھ میں وڈیرہ شاہی اورجاگیردارانہ نظام ہے وہ کچھ چلنے نہیں دیتے ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا 418 میں سے 266 اسکول ابھی قبضے میں ہیں جن کو چھڑانے کی کوشش جاری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ تعلیمی شعبے کو تباہی سے بچانے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی اور عدلیہ کے احکامات پر فوری عمل کیاجائیگا۔
Load Next Story