زنداں سے اسیروں کا پیغام

نئے الیکشن ہوئے کام شروع ہوا لیکن بدقسمتی سے کچھ ہی عرصے میں دونوں میں پھر لگ گئی


راؤ سیف الزماں August 10, 2017

لوگو یہ آج کی داستان نہیں، یہ آج کی کہانی نہیں، بہت پرانی ہے،ایک سال کہا گیا ملک کوکرپٹ سول لوگ لوٹ رہے ہیں حالات نازک ہیں اب اس کو سبق سکھانا پڑے گا اور سبق بھی ایسا کہ اس کے بعد کے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں، ہم نے کہا آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟کہا گیا اس بار پھانسی ہوگی ہم نے کہا یہ ظلم ہے اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا اگر وہ مسلمان ممالک کو اکٹھا کررہا ہے تو برا کیا ہے، اگر وہ ملک کو ایٹمی قوت بنانا چاہتا ہے تو اس سے ملک مضبوط ہوگا پھر مسئلہ کیا ہے؟ کہا گیا تم ہمیں غلط صحیح سمجھاؤ گے؟

اوئے ذرا اس کی فیملی کی معلومات لو اور دوچارکوادھر اُدھرکردو۔کیا کرتے کردیا جو وہ چاہتے تھے کردیا۔ ہمیں پھرگالیاں پڑیں بددعائیں ملیں،ایک دفعہ پیسے تقسیم کردیے حکم ہوا وہ اُس کو ہرا دے لیکن کام پورا نہ ہوسکا ادھورا رہ گیا، بعد میں بات کھلنے پرکسی نے کیس کردیا، شامت پھر ہماری آرڈر ملا یہ کیس نہیں سننا کوئی تفصیل باہر نہ آئے کیس لٹکا دو چلنے دو، ہم نے پوچھا کب تک چلنے دیں،ایک دن تو فیصلہ دینا پڑے گا،حکم ملا فیصلہ کرنا ہی نہیں، بتادیا ہے، اُونچا سنتے ہیں کیا؟ ہم نے کیا جیسا کہا گیا تھا۔پھر اسی سے لگ گئی جسے لائے تھے برطرف کروادیا ہم سے کہا گیا اوپرکا آرڈر ہے آپ کے پاس کیس آئے گا لیکن اس بار ہم بھی خود کشی پر تل گئے ہم نے نہیں مانا اور نا مان کر بہت بھگتا۔

سچ تو یہ ہے کہ رل گئے،سوچتے ہیں غلطی کی کیونکہ انھوں نے خود ہی ایکشن لے کر اس کوگھر بھیج دیا۔ہماری طلبی ہوئی اور حکم نہ ماننے کی وجہ دریافت کی گئی، ہم پہلے ہی اُن کی طاقت کا مشاہدہ کرچکے تھے اور ڈرے سہمے بیٹھے تھے چپ رہے خیال تھا کہ ایکشن ہوگا لیکن خلاف ِ توقع بخشش ہوگئی لیکن آیندہ کے لیے سخت ہدایات کے ساتھ کہ دوبارہ کوئی رعایت نہیں، دوسرا تمہیں ہماری طاقت کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا اور اس کے ساتھ یہ قانون بھی تخلیق کردیا گیا کہ اب تم آئین کا نہیں ہمارا حلف اٹھاؤگے۔لیکن افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ ان کے اس مطالبے میں کچھ معروف دینی لوگ بھی ان کے ساتھ تھے اور انھوں نے یہ سیاہ قانون بنوانے میں باقاعدہ ساتھ دیا پھر وہی ہوا ہمارا حلف بدل دیا گیا اب ہم نیا،تبدیل شدہ حلف اٹھانے لگے جو آئین سے متعلق نہیں تھا۔

حکومت بدل چکی تھی حالات کو بہتر ہوجانا چاہیے تھا لیکن نہ ہوسکے اور نئی حکومت سے بھی دل بھرگیا اس بار انھیں انھی کے صاحب سے برطرف کروایا گیا جن سے ناراض تھے ان سے بن گئی وہ پھر آگئے، لیکن کچھ سالوں بعد رخصت ہوئے اور اس بار ملک بدر بھی، درمیان میں طے ہوا کہ معاملات مکمل طور پر اپنے پاس رکھے جائیں، لہٰذا دس ایک سال کے لیے وہ تشریف لے آئے اور خوب حکومت کی امریکا بھی خوش ہوا لیکن اچھی کارکردگی پرکوئی انعام نہ دیا، بیچ میں انھیں ہم پر پھر شک ہوگیا لہٰذا ہمارے بڑے کو بلا بھیجا کہا استعفٰی دے دو،اس نے انکار کردیا نجانے کیا سوچ کر حالانکہ ہم باقیوں نے منع بھی کیا، سمجھایا بھی کہ کوئی فائدہ نہ ہوگا لیکن انھوں نے بڑی جذباتی تقریریں کیں،آزادی اظہار کے مفہوم بیان کیے۔

جس کا ہم پر بھی اثر ہوگیا،ہم بھی ساتھ ہولیے،ان کے انکارکرتے ہی بھیا مانو بھونچا ل آگیا۔اب تو جو پھوں پھاں ہوئی، گالیاں، دھمکیاں، آخر ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہم سب نظر بند، جہاں جائیں ڈنڈے پڑیں،اب ملک کے لوگوں کو بھی جوش آیا، سول سوسائٹی جوکبھی گھر سے نہ نکلتی تھی وہ بھی سڑکوں پہ آگئی اور وہ بھی جسے دس سالوں کے لیے ملک بدرکیا تھا ملک میں آچکا تھا لائے بھی یہی لوگ تھے سمجھ میں نہیں آتا پہلے انھیں حکومت سے نکالتے ہیں، جیلوں میں ڈالتے ہیں، ہم سے کرپٹ قراردلواتے ہیں پھر خود ہی انھیں واپس لاتے ہیں جیسے اس بار بھی سول لوگوں کو لانے کے لیے ایک باقاعدہ قانون بنایا گیا جسے NRO کانام دیا،اس قانون کی بھی کیا بات بتائیں۔

جس کے تحت جس شخص نے اربوں کی کرپشن کی ہو اسے معافی تھی،جب کہ لاکھوں، ہزاروں والا پکڑا جائے گا، سیاستدانوں پر انھی کے بنوائے ہوئے کیسز چل رہے تھے لہٰذا پہلے انھیں این آر او کے ذریعے معاف کروایا گیا پھر ان سے ڈیل کی گئی کہ ہمارے دس سال پورے ہوئے اب آپ کی باری لیکن صدر ہم ہونگے،خارجہ،دفاع ہم چلائیں گے اوکے، وہ مان گئے اب وہ ملک بدر والے بھی ملک میں آگئے اور ہمارے بڑے کو ہٹائے جانے کے خلاف چلنے والی تحریک کے میں پیش پیش تھے، ابھی معاملہ نمٹا نہیں تھا کہ اسمبلی نے صدرکے مواخذے کا اعلان کردیا اور صدر نے پہلے استعفٰی دیا پھر بیرونِ ملک چلے گئے۔

خیر بات ہماری ہورہی ہے آگے چلیے پھر ایک کیس آتا ہے میموگیٹ کا کہ جی جو سفیر حکومت نے امریکا بھیجا، اس نے ان کے کچھ راز لیک کردیے کہ یہ ملک میں دہشتگردوں کی باقاعدہ تربیت کرواتے ہیں اور ان سے من پسند کام لیتے ہیں۔اب پھر ہماری شامت شروع،آرڈر آیا حکومت کو اس معاملے میں کھینچ دو،گواہی میں ہم بھی آئیں گے اپوزیشن لیڈر ملک بدر والا بھی آئے گا ہم کیا کرتے ہوگئے شروع،کیس چلا لیکن شاید کہیں بات بن گئی اور حکومت کی جان چھوٹ گئی کچھ دن اورگزرے ان کی پھر حکومت سے بگڑگئی،اب ہم سے کہا گیا وزیرِاعظم کو نا اہل کردو۔ہم نے کہا کیسے؟ انھوں نے بتایا توہینِ عدالت کردو اگرکوئی دوسرا راستہ نا ہو تو،ہم نے ایسا ہی کیا لیکن ان کے اس کام میں خود سیاستدان بھی حصہ بنے جو حکومت میں اس وقت نہیں تھے۔

نئے الیکشن ہوئے کام شروع ہوا لیکن بدقسمتی سے کچھ ہی عرصے میں دونوں میں پھر لگ گئی یہ ہمیشہ وقت کی اپوزیشن کو اپنے ہاتھ میں یہ کہہ کر رکھتے ہیں کہ اگلی باری تمہاری ہوگی لہٰذا نئی اپوزیشن بھی ان کے ہاتھ میں تھی بلکہ اب تک ہے۔اس بارگیم پلان تبدیل ہوا کہانی ایک دھرنے سے شروع ہوئی جسے تاریخ میں دھرناؤں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،یہ دھرنا موجودہ حکومت کے خلاف تھا ۔ دھرنا خوب چلا جس میں ایک قابلِ ذکر علامہ صاحب بھی جو عرفِ عام انھی کے آدمی مانے جاتے ہیں نے خوب جوشِ خطابت کے مظاہرے کیے اور بڑے ہاتھ دکھائے، وہ دھرنا لیکن ناکام ہوا اس مرتبہ یہ کامیاب نہ ہوسکے، ہمیں کہا گیا کہ اب آپ ہاتھ بٹائیں ذرا ... ہمارے معلوم کرنے پر جو راہ ہمیں سجھائی گئی وہ ہمارے نزدیک ایک بہت بڑا ظلم تھا ہم خاموش رہے اور سوچتے رہے کہ اپنی آخرت کو جہنم سے اور کتنا بھریں؟ ملک میں کتنا بدنام ہوں؟ ہم جو اعتبارکی آخری منزل ہیں۔

یقین کی آخری سیڑھی، ہمارے پاس جو امید لے کر آتے ہیں کہ یہاں انصاف ملے گا انھیں کس قدر مایوس کریں سو ہم نے ٹھان لیا جو ٹھان لیا کہ بہت ہوگئی مزید نہیں ۔سرِدست ہم چپ رہے ۔دھرنا ون کے بعد ٹو منعقد کیا جسے لاک ڈاؤن اسلام آباد کا نام دیا گیا،یہ بھی نہ چلا بلکہ حکومت کو اب پورا شک بھی ہوگیا کہ ان سب معاملات کے پیچھے دراصل ہے کون؟ اُدھر دوسری ناکامی کے بعد طے کیا گیا اب مکمل طور پر کچھ ایسا کیا جائے کہ جان چھوٹ جائے اور آیندہ ہمیشہ کے لیے سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نا ٹوٹے کے مصداق کوئی سلسلہ ہو،قرعہ فال پھر ہمارے نام نکلا، معاملات چلے کرپشن کا الزام لگا،ہم نے جانچ پڑتال کروائی کچھ نا نکلا بہت کھنگالا نتیجہ صفر، انھیں سب بتایا جواب وہی ملا نااہل کردو۔ہم نے طے شدہ منصوبے کے تحت وہ فیصلہ تحریر کیا جسے فوری طور پر پہچان لیا گیا! یہ تاریخی فیصلہ تھا جسمیں ہم نے ماضی کا ہر پیغام اپنی قوم کو دے دیا ،مستقبل کی ہر تحریر انھیں پڑھوا دی۔

آج کون نہیں جانتا کہ اس سے اچھا فیصلہ سینئر سول جج بھی لکھ سکتا تھا،ہم تو سب سے بڑے ہیں کیا نہیں لکھ سکتے تھے لیکن کب تک؟ تاریخ ہمیں کوسے گی،لوگ ہمیں بکا ہوا قرار دیں گے کب تک لہٰذا ہم نے وہ تحریر کیا جسے زمانہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ یہ ایک ٹیلی گرافک مسیج ہے، زنداں سے اسیروں کا پیغام ہے، آ پ کے نام، قوم کے نام کہ بچاسکتے ہو خودکو تو یہی موقع ہے، ملک کو تو یہی دن ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں