ایئر چیف کابھارت کو مسکت جواب
پاکستان میں نئے الیکشن کے موقعے پر پائے جانے والےغیر ضروری انتشار کو ہوا دینے کے لیے بھارت سرگرم ہوگیا تھا۔
بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے دھمکی دی کہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے وقت اور جگہ کا انتخاب بھارت کرے گا۔اسی دھمکی کو بھارتی آرمی چیف نے بھی دہرایا اور بھارتی وزیراعظم کسی سے پیچھے کیوں رہتے ، انھوں نے بھی پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی۔ان دھمکیوں کی وجہ کنٹرول لائن کی صورت حال تھی جہاں ایک عرصے کے بعد کشیدگی پیدا ہوگئی تھی، بھارت اس کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرا رہا تھا اور پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشن سے لے کر سیکریٹری خارجہ تک بھارت کو پیش کش کر رہے تھے کہ آیئے آپ کے الزامات کی تحقیق اقوام متحدہ کے مبصرین سے کروا لیتے ہیں لیکن بھارت کو تحقیقا ت سے کوئی غرض نہ تھی، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی دھمکی دے رہا تھا اور اسی ماحول میں عالمی میڈیا میں بھارت کے اس منصوبے کا انکشاف کیا گیا کہ وہ سرجیکل اسٹرائیک کر کے پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد کشمیر پر قبضہ جما لے گا۔
یہ دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں نہ تھیں کہ ان کو سنجیدگی سے نہ لیا جاتا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں نئے الیکشن کے موقعے پر پائے جانے والے غیر ضروری انتشار کو ہوا دینے کے لیے بھارت سرگرم عمل ہو گیا تھا۔پاکستان کی سیکیورٹی کی آئینی ذمے داری مسلح افواج پر عاید ہوتی ہے، پاکستانی بحریہ کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی مشقیں مکمل کر چکی تھی اور اس میں بری فوج کے کمانڈر جنرل کیانی نے بطور خاص شرکت کی تھی۔
بھارت کی نئی دھمکیوں کا شور حد سے بڑھا تو پاکستان ایئر فورس میدان میں اتری، اس نے سیفرون بنڈیٹ نامی مشقوں کا آغاز کر دیا۔ بھارتی ایئر چیف کے غرور کو توڑنے کے لیے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ بنفس نفیس آگے بڑھے ، انھوں نے دفاعی مشقوں کی کمان سنبھالی، ایف سولہ طیاروں کے ایک مشن کی کمان کرنے کے لیے وہ کسی پروٹو کول کے بغیر اپنے طیارے تک گئے، کاک پٹ میں بیٹھے، اسکریمبل کے اشارے پر، وہ بلندیوں میں محو پرواز تھے، ان کے مشن میں شامل طیارے ان کی زیر ہدایت مبینہ دشمن کے ٹھکانوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے تھے، عین اس وقت پاکستانی فضائوں میں ایک طیارہ اور بھی محو پرواز تھا، یہ تھا سیب، ایواکس، فضائی کنٹرول اور مانیٹرنگ نظام سے مکمل طور پر لیس، جاسوس طیارہ، جس میںچیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنر ل خالد شمیم وائیں سوار تھے۔
فضائی تاریخ میں یہ ایک نادر اور غیر معمولی مثال تھی کہ ایک ہی وقت میں دو فور اسٹار جنرل پاکستانی فضائوں میں موجود تھے۔اس سے دنیا کو کیا پیغام گیا، اسے رکھئے ایک طرف ، بھارت کو فوری طور پر سمجھ آ گئی کہ اس کی دھمکیاںمحض گیدڑ بھبکیاں ہیں، اس کے مقابل ایک مضبوط اعصاب کی حامل قوم ہے جس کے دفاع کا فریضہ انجام دینے والے غافل نہیں ہیں۔ اس امر کی تحقیق کے لیے وقت درکار ہے کہ بھارت کے کسی ایئر چیف کو کسی لڑاکا طیارے میں بیٹھنے کی توفیق کب ہوئی یااس نے فضائی مشقوں کی قیادت کرنے کی ذمے داری بھی کبھی نبھائی یا نہیں، لیکن یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ آج پاکستان کے سابق ایئر چیف رائو قمر، جو ان دنوںلاہور کے سی ایم ایچ میں زیر علاج ہیں( اللہ تعالی ان کو جلد صحت یاب فرمائے ، آمین ) لیکن دوران ملازمت ان کی ایک ہی تصویر اخبارات میں شایع ہوئی تھی جس میں وہ ایک لڑاکا طیارے کے کاک پٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔
پاکستانی عوام ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خاںکی جرات رندانہ کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے درجنوںمرتبہ فائٹر طیارے اڑائے۔ قیادت کے اسی بے مثال نمونے کی وجہ سے ایم ایم عالم، سیسل چوہدری،راشد منہاس، سرفراز رفیقی،عبدالحمید قادری، علائوالدین احمد اور شبیر سید نے شجاعت کے لازوال کارنامے انجام دیے۔پاکستان ایئر فورس کے ہیرو ایک کہکشاں کی مانند ہمارے قومی شاہنامے کے سنہری صفحات پر نور کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔اور پاک فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ نے جنگی مشقوں کی عملی طور پر کمان سنبھال کر دلیرانہ قیادت کی ایک اعلی مثال قائم کر دکھائی۔
سیفرون بنڈیٹ کے نام سے جنگی مشقیں 1994سے جاری ہیں، ہر تین سال بعد پاک فضائیہ، اپنی چوکسی اور مہارت کا جائزہ لیتی ہے۔اب تک پانچ مشقیں ہو چکیں اور چھٹی اس وقت جاری ہے۔ان مشقوں کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ اس میں پاک آرمی ایوی ایشن اور آرمی ایئر ڈیفنس نے بھی حصہ لیا، اس لحاظ سے ایئر فورس کو ایک مربوط اور منظم دفاعی کارروائی کو ٹیسٹ کرنے کا موقع میسر آیا۔چیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ پاکستانی قوم بنیادی طور پر امن پسند ہے لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ کسی خطرے کی صورت میں ہم بطور قوم، افواج اور خاص طور پر پاک فضائیہ ملکی آزادی اور سا لمیت کا دفاع کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیکیورٹی صورت حال ہر لحظہ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔اس لیے ہمہ وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا وقت کی ضرورت ہے۔پاک فضائیہ قومی سلامتی کا نہایت اہم اور صف اول کا ستون ہے۔یہ اپنے اعلی پیشہ ورانہ کردار کی بدولت ہمیشہ قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے۔مشن کی پرواز کے بعد اس مشق میں حصہ لینے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل وائیں نے کہا کہ ماہر ہوا بازوں کے ساتھ کام کرنے اور سیفرون بنڈیٹ میں عملی طور پر شرکت سے مجھے پاک فضائیہ کے اعلیٰ تربیتی معیار سے حقیقی طور پر روشناس ہونے کا موقع ملا۔یہ دیکھ کر نہایت خوشی محسوس ہوئی کہ پاک فضائیہ اپنی صلاحیتوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں قدم رکھ رہی ہے۔
پاک فضائیہ کے ایک سینیئر افسر گروپ کیپٹن عبدالمعید خاں نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ سیفرون بینڈیٹ نامی مشق چھ مراحل میں مکمل ہوتی ہے، ہر مرحلہ تیس سے چالیس دنوں پر محیط ہوتا ہے، حالیہ مشق کا آغاز 22اکتوبر 2012 کو ہوا اور یہ 27 اپریل 2013 کو اختتام پذیر ہوگی۔ہر مرحلے کی ایک جائزہ رپورٹ مرتب ہوتی ہے اور آخر میں ایک مجموعی جائزہ سامنے آتا ہے جس سے پاک فضائیہ اور ملک کے دیگر فضائی دفاع کے نظام کو مئوثر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ سیفرون بینڈیٹ کے لفظ کا مطلب کیا ہے، کسی بھی ڈکشنری میں بینڈیٹ کے معنی تلاش کرنا مشکل نہیں ، ڈکیت، قزاق اور اسی قبیل کے مجرم۔ مگر یہ سیفرون کیا ہوا۔ذہن پر بہت زور دینے پر اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق ایک رنگ سے ہے، یہ رنگ بندیا کی شکل میں نظر آتا ہے، مانگ میںبکھیرا جاتا ہے اور پگڑیوں میں نمایاں ہوتا ہے دوپٹوں میں لہراتا ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ اس مخصوص رنگ میں رنگے ہوئے ڈکیتوں کا قلع قمع کرنا اس مشق کا اصل ٹارگٹ ہے۔پاکستان کو ہمیشہ انھی ڈکیتوں کا سامنا رہا ہے، ہماری تمام جنگیں انھی ڈکیتوں کے خلاف ہوئیں۔
حالت امن میں بھی انھیں ڈکیتوں نے ہمیں پریشان کیے رکھا، کہنے کو تو یہ دہشت گرد تھے جنہوں نے کراچی کے فضائی اڈے پر حملہ کر کے اورین طیارے کو تباہ کیا اور کامرہ میں سیب اواکس کو نشانہ بنایا لیکن یہ دونوں طیارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ نہیں لیتے ، نہ ان کے خلاف موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ، ان کا نقصان صرف ایک دشمن کو ہو سکتا ہے اور وہی ان کی تباہی کے در پے ہے، طالبان تو خوہ مخواہ ان کو نشانہ بنانے کا کریڈیٹ لیتے ہیں۔ سیفرون بینڈیٹ کی دفاعی مشقیں ہمارے اصلی اور حقیقی دشمن کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہم اس دشمن کو پورا پورااحساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم اس کا تر نوالہ نہیں بن سکتی۔سیفرون بینڈیٹ کی مشق کی بریفنگ دینے والے افسر کے یہ الفاظ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ مستقبل کی کوئی بھی جنگ بہت مختصر اور تباہ کن ہو سکتی ہے لیکن پاک فضائیہ کی چوکسی ،قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے، میں اس میںا نشا اللہ کا اضافہ کرتا ہوں۔اور اپنے سورمائوں اور جاں نثاروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔
یہ دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں نہ تھیں کہ ان کو سنجیدگی سے نہ لیا جاتا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں نئے الیکشن کے موقعے پر پائے جانے والے غیر ضروری انتشار کو ہوا دینے کے لیے بھارت سرگرم عمل ہو گیا تھا۔پاکستان کی سیکیورٹی کی آئینی ذمے داری مسلح افواج پر عاید ہوتی ہے، پاکستانی بحریہ کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی مشقیں مکمل کر چکی تھی اور اس میں بری فوج کے کمانڈر جنرل کیانی نے بطور خاص شرکت کی تھی۔
بھارت کی نئی دھمکیوں کا شور حد سے بڑھا تو پاکستان ایئر فورس میدان میں اتری، اس نے سیفرون بنڈیٹ نامی مشقوں کا آغاز کر دیا۔ بھارتی ایئر چیف کے غرور کو توڑنے کے لیے پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ بنفس نفیس آگے بڑھے ، انھوں نے دفاعی مشقوں کی کمان سنبھالی، ایف سولہ طیاروں کے ایک مشن کی کمان کرنے کے لیے وہ کسی پروٹو کول کے بغیر اپنے طیارے تک گئے، کاک پٹ میں بیٹھے، اسکریمبل کے اشارے پر، وہ بلندیوں میں محو پرواز تھے، ان کے مشن میں شامل طیارے ان کی زیر ہدایت مبینہ دشمن کے ٹھکانوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے تھے، عین اس وقت پاکستانی فضائوں میں ایک طیارہ اور بھی محو پرواز تھا، یہ تھا سیب، ایواکس، فضائی کنٹرول اور مانیٹرنگ نظام سے مکمل طور پر لیس، جاسوس طیارہ، جس میںچیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنر ل خالد شمیم وائیں سوار تھے۔
فضائی تاریخ میں یہ ایک نادر اور غیر معمولی مثال تھی کہ ایک ہی وقت میں دو فور اسٹار جنرل پاکستانی فضائوں میں موجود تھے۔اس سے دنیا کو کیا پیغام گیا، اسے رکھئے ایک طرف ، بھارت کو فوری طور پر سمجھ آ گئی کہ اس کی دھمکیاںمحض گیدڑ بھبکیاں ہیں، اس کے مقابل ایک مضبوط اعصاب کی حامل قوم ہے جس کے دفاع کا فریضہ انجام دینے والے غافل نہیں ہیں۔ اس امر کی تحقیق کے لیے وقت درکار ہے کہ بھارت کے کسی ایئر چیف کو کسی لڑاکا طیارے میں بیٹھنے کی توفیق کب ہوئی یااس نے فضائی مشقوں کی قیادت کرنے کی ذمے داری بھی کبھی نبھائی یا نہیں، لیکن یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ آج پاکستان کے سابق ایئر چیف رائو قمر، جو ان دنوںلاہور کے سی ایم ایچ میں زیر علاج ہیں( اللہ تعالی ان کو جلد صحت یاب فرمائے ، آمین ) لیکن دوران ملازمت ان کی ایک ہی تصویر اخبارات میں شایع ہوئی تھی جس میں وہ ایک لڑاکا طیارے کے کاک پٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔
پاکستانی عوام ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خاںکی جرات رندانہ کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے درجنوںمرتبہ فائٹر طیارے اڑائے۔ قیادت کے اسی بے مثال نمونے کی وجہ سے ایم ایم عالم، سیسل چوہدری،راشد منہاس، سرفراز رفیقی،عبدالحمید قادری، علائوالدین احمد اور شبیر سید نے شجاعت کے لازوال کارنامے انجام دیے۔پاکستان ایئر فورس کے ہیرو ایک کہکشاں کی مانند ہمارے قومی شاہنامے کے سنہری صفحات پر نور کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔اور پاک فضائیہ کے موجودہ سربراہ ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ نے جنگی مشقوں کی عملی طور پر کمان سنبھال کر دلیرانہ قیادت کی ایک اعلی مثال قائم کر دکھائی۔
سیفرون بنڈیٹ کے نام سے جنگی مشقیں 1994سے جاری ہیں، ہر تین سال بعد پاک فضائیہ، اپنی چوکسی اور مہارت کا جائزہ لیتی ہے۔اب تک پانچ مشقیں ہو چکیں اور چھٹی اس وقت جاری ہے۔ان مشقوں کا خصوصی پہلو یہ ہے کہ اس میں پاک آرمی ایوی ایشن اور آرمی ایئر ڈیفنس نے بھی حصہ لیا، اس لحاظ سے ایئر فورس کو ایک مربوط اور منظم دفاعی کارروائی کو ٹیسٹ کرنے کا موقع میسر آیا۔چیئر مین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ پاکستانی قوم بنیادی طور پر امن پسند ہے لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ کسی خطرے کی صورت میں ہم بطور قوم، افواج اور خاص طور پر پاک فضائیہ ملکی آزادی اور سا لمیت کا دفاع کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیکیورٹی صورت حال ہر لحظہ گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔اس لیے ہمہ وقت جنگی تیاری کی حالت میں رہنا وقت کی ضرورت ہے۔پاک فضائیہ قومی سلامتی کا نہایت اہم اور صف اول کا ستون ہے۔یہ اپنے اعلی پیشہ ورانہ کردار کی بدولت ہمیشہ قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے۔مشن کی پرواز کے بعد اس مشق میں حصہ لینے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل وائیں نے کہا کہ ماہر ہوا بازوں کے ساتھ کام کرنے اور سیفرون بنڈیٹ میں عملی طور پر شرکت سے مجھے پاک فضائیہ کے اعلیٰ تربیتی معیار سے حقیقی طور پر روشناس ہونے کا موقع ملا۔یہ دیکھ کر نہایت خوشی محسوس ہوئی کہ پاک فضائیہ اپنی صلاحیتوں اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں قدم رکھ رہی ہے۔
پاک فضائیہ کے ایک سینیئر افسر گروپ کیپٹن عبدالمعید خاں نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ سیفرون بینڈیٹ نامی مشق چھ مراحل میں مکمل ہوتی ہے، ہر مرحلہ تیس سے چالیس دنوں پر محیط ہوتا ہے، حالیہ مشق کا آغاز 22اکتوبر 2012 کو ہوا اور یہ 27 اپریل 2013 کو اختتام پذیر ہوگی۔ہر مرحلے کی ایک جائزہ رپورٹ مرتب ہوتی ہے اور آخر میں ایک مجموعی جائزہ سامنے آتا ہے جس سے پاک فضائیہ اور ملک کے دیگر فضائی دفاع کے نظام کو مئوثر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ سیفرون بینڈیٹ کے لفظ کا مطلب کیا ہے، کسی بھی ڈکشنری میں بینڈیٹ کے معنی تلاش کرنا مشکل نہیں ، ڈکیت، قزاق اور اسی قبیل کے مجرم۔ مگر یہ سیفرون کیا ہوا۔ذہن پر بہت زور دینے پر اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق ایک رنگ سے ہے، یہ رنگ بندیا کی شکل میں نظر آتا ہے، مانگ میںبکھیرا جاتا ہے اور پگڑیوں میں نمایاں ہوتا ہے دوپٹوں میں لہراتا ہے، تو مطلب یہ ہوا کہ اس مخصوص رنگ میں رنگے ہوئے ڈکیتوں کا قلع قمع کرنا اس مشق کا اصل ٹارگٹ ہے۔پاکستان کو ہمیشہ انھی ڈکیتوں کا سامنا رہا ہے، ہماری تمام جنگیں انھی ڈکیتوں کے خلاف ہوئیں۔
حالت امن میں بھی انھیں ڈکیتوں نے ہمیں پریشان کیے رکھا، کہنے کو تو یہ دہشت گرد تھے جنہوں نے کراچی کے فضائی اڈے پر حملہ کر کے اورین طیارے کو تباہ کیا اور کامرہ میں سیب اواکس کو نشانہ بنایا لیکن یہ دونوں طیارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ نہیں لیتے ، نہ ان کے خلاف موثر کردار ادا کر سکتے ہیں ، ان کا نقصان صرف ایک دشمن کو ہو سکتا ہے اور وہی ان کی تباہی کے در پے ہے، طالبان تو خوہ مخواہ ان کو نشانہ بنانے کا کریڈیٹ لیتے ہیں۔ سیفرون بینڈیٹ کی دفاعی مشقیں ہمارے اصلی اور حقیقی دشمن کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے ہم اس دشمن کو پورا پورااحساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم اس کا تر نوالہ نہیں بن سکتی۔سیفرون بینڈیٹ کی مشق کی بریفنگ دینے والے افسر کے یہ الفاظ ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ مستقبل کی کوئی بھی جنگ بہت مختصر اور تباہ کن ہو سکتی ہے لیکن پاک فضائیہ کی چوکسی ،قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے، میں اس میںا نشا اللہ کا اضافہ کرتا ہوں۔اور اپنے سورمائوں اور جاں نثاروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔