ہم سب کو انتظار ہے
پاکستان میں جمہوری تبدیلی کا وہ آئینی عمل ضرور وقوع پذیر ہوگا جس کا نہ جانے کب سے ہم سب کو انتظار ہے۔
16 مارچ 2013 کو پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی میعاد پوری کرنے والی ہے جس کے بعد ایک نگراں حکومت کے زیر انتظام عام انتخابات کا انعقاد ہوگا اور عوام اگلے پانچ برسوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کریں گے۔ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دیں گی۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوجائے گا۔
مہذب دنیا میں یہ عمل حیران کن نہیں ہوتا۔ وہاں جمہوری عمل کا تسلسل قائم رہتا ہے اور اقتدار پرامن طور پر عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلی بار ہونے والا ہے ۔ اس مرحلے پربہت سے لوگ وسوسوں میں مبتلا ہیں۔ انھیں یقین نہیں آرہا کہ وہ بات جو ہمیشہ ایک خواب تھی اب کیسے حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے۔
جو لوگ اس حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں ان کے پاس ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہ بھی ہیں۔ اس تناظر میںیہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی لمحہ کوئی واقعہ یا مظہررونما ہوسکتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی منطق یا دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 1999 میں جب سرد جنگ ختم ہوچکی تھی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں قائم فوجی آمریتوں کا خاتمہ ہورہا تھا تو ایسے میں کون تصور کرسکتا تھا کہ پاکستان میں فوج کا سربراہ، ایک ایسی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پر غاصبانہ قبضہ کرلے گا جسے پارلیمنٹ میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل تھی۔
اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ بعض حلقے اور سیاسی کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوگیا تو یہ پاکستان میں ایک انہونا واقعہ ہوگا۔ اس کے بعد نہ صرف فوجی مداخلت کا راستہ بند ہوجائے گا بلکہ نئی آنے والی حکومت اقتدار میں غیر جمہوری عناصر کی شرکت کو اگر ختم نہیں تو بہت زیاد ہ محدود ضرور کردے گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں وہ صورتحال یکسر بدل جائے گی جس کے تحت 1958کے بعد سے 2008تک فوجی آمر من مانے معاہدوں کے بعد اقتدار محدود طور پر کسی سویلین حکومت کو منتقل کیاکرتے تھے۔ فوجی آمریت کے نہ ہونے کی صورت میں 58 ٹو بی کی طاقت رکھنے والا ایک بیوروکریٹ صدر اسٹبلشمنٹ کی نمایندگی کرتا تھا اور وہ منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار نئی شرائط پر دوسری حکومت کے حوالے کردیا کرتا تھا۔ یہ دلائل اپنی جگہ وزن ضرور رکھتے ہیں تاہم، صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس امر کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ گزشتہ 14 برسوں میں ملک کے اندر اوربین الاقوامی سطح پر بہت کچھ بدلا ہے۔ ماضی میں،براہ راست فوجی مداخلت کے لیے بعض عوامل کا ہونا ناگزیرہواکرتا تھا جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری تھا کہ جس بڑی سیاسی جماعت کی حکومت کا تختہ الٹا جائے یا اسے تبدیل کیا جائے تو اس کی حریف اور ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت اس عمل کی حمایت کرنے پر تیار ہو۔ آج ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کسی بھی طرح کی غیر جمہوری اور غیر آئینی تبدیلی کی سخت مخالفت ہے۔ اس نے ایک نہیں متعدد مواقعوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرنے اور جمہوری عمل کے تسلسل کو ٹوٹنے سے بچایا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنوں اور غیروں سے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سنے ہیں۔آج بھی سیاسی ''مک مکا'' کی بات کرکے اسے تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کی تعداد کم نہیں ہے۔
غیر آئینی مداخلت کے لیے ایک تابعدار اور وفادار عدلیہ کا موجود ہونابھی انتہائی ضروری ہے۔ آئین سے ماورا تبدیلی لانے والوں کی یہ اولین ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کو اعلیٰ ترین عدلیہ کی جانب سے فوراًجواز فراہم کردیا جائے تاکہ ان کا یہ فعل قانونی شکل اختیار کرلے۔ اس وقت پاکستان کی عدالت عظمیٰ سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ فوجی آمریت کے خلاف اپنے جرأت مندانہ فیصلوں اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے اپنے کھلے اور واضح مؤقف سے انحراف کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کرے گی۔ ایسا ہونا ایک بدترین قومی سانحہ ہوگا جس کی امید کوئی نہیں کرتا۔ عدالت عظمیٰ نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے طاقت ور ترین لوگوں کی گرفت کی ہے جس سے لوگوں کے مایوس دلوں میں امید کی کرن روشن ہوئی ہے۔ یہ کرن اگر بجھ گئی تو پاکستان ایک مرتبہ پھر اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔
جمہوری عمل کے تسلسل کو ختم کرنے اور اقتدار پر شب خون مارنے کے لیے ماضی میں جو بھی مہم جوئی ہوتی رہی ہے اسے امریکا کی کھلی یا خاموش تائید ضرور حاصل ہوا کرتی تھی۔ اس تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اور صدر بارک اوباما کی موجودہ حکومت جو افغانستان سے محدود انخلاء کی خواہش مند ہے وہ پاکستان میں کسی ایسی مہم جوئی کی حمایت نہیں کرے گی جس سے ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہوجائے۔ غیرآئینی مداخلت کے ضمن میں، امریکی حکومت کی کھلی یا خاموش حمایت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی حمایت کے بعد مہم جوئی کرنے والوں کو مغرب کی تائید مل جاتی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے بھی ان کے لیے کسی پریشانی کا سبب نہیں بنتے ۔ ماضی کے برعکس پاکستان میں جمہوریت کا استحکام آج امریکا کی ضرورت بن چکا ہے۔ افغانستان کی صورتحال سے قطع نظر معیشت کو کساد بازاری سے نکالنے کے لیے بھی امریکا کوایک ایسے پرامن خطے کی شدید ضرورت ہے جہاں اربوں کی تعداد میں صارفین اور سرمایہ کاری کے لامحدود مواقعے موجود ہوں۔ جنوبی ایشیا ایک ایسا ہی خطہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام صرف امریکا اور یورپ ہی نہیں بلکہ پورے مغربی ایشیا اور روس حتیٰ کہ چین تک کی پائیدار معاشی ترقی کے لیے ایک ناگزیز ضرورت بن چکا ہے۔ امن کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں عوام کی منتخب جمہوری حکومتیں مستحکم ہوں تاکہ کشیدگی میں کمی آئے اور کسی بھی جانب سے ہونے والی مہم جوئی کے امکانات کم سے کم ہوسکیں۔
ماضی میں جب بھی غیر آئینی مہم جوئی کی گئی اس وقت ملک کی معیشت نسبتاً بہتر حالت میں ہوتی تھی۔ آج صورتحال مختلف ہے۔پاکستان ان دنوں سنگین معاشی بحران کے دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت کی شرح نمو خطے میں سب سے کم ہے، اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری میں زیادہ سرگرمی نظر نہیں آتی۔ بجٹ اور بیرونی تجارت کا خسارہ بہت بڑھ گیا ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ توانائی کا شدید بحران بھی موجود ہے۔ موجودہ سنگین معاشی حالات میں اگر کوئی غیر آئینی اقدام کیا جاتا ہے تو وہ ایسا کرنے والوں کے لیے بڑا مہنگا سودا ثابت ہوگا۔
ایسے اور بھی کئی عوامل ہیں جو کسی بھی طرح کے غیر آئینی اقدام کے لیے ہرگز سازگار نہیں ہیں۔ ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ کو پاکستان کے اندر لانے کا ذمے دار کوئی سیاسی رہنما نہیں بلکہ ایک فوجی آمر تھا۔ اس جنگ میں پاکستان کی معیشت، معاشرے، عوام اور افواج کوانتہائی غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اب تک ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ شہری اور فوجی اس جنگ کا نوالہ بن چکے ہیں۔ ملک کے اندر ہر طرح کے انتہا پسند لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ حساس ترین مقامات کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بلوچستان ایک ایسا آتش فشاں ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ان حالات میں جو بھی قوت آئین اور قانون سے رو گردانی اور مہم جوئی کا خطرناک ترین اقدا م کرے گی وہ ملک کی سلامتی کو دائو پر لگادے گی جس کے بعد کسی کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
وقت اور حالات نے شاید ہم سب کو اپنے اپنے دائروں اور حدود کے اندر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں میں مہم جوئی پر آمادہ بعض عناصر ضرور موجودہوں گے لیکن وہ غالباً فیصلہ کن طاقت کے مالک نہیں ہیں ورنہ جمہوری نظام کی بساط کب کی الٹ چکی ہوتی۔ ہم سب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ پاکستان جمہوریت کا ثمر تھا اور اس کا وجود بھی جمہوریت کا ہی مرہون منت ہے۔1971 میں عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا اور جمہوریت سے روگردانی کی گئی جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا۔ کیا اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی اس نکتے پر بحث کی کوئی ضرورت ہے کہ پاکستان کی بقاء جمہوریت میں مضمر ہے؟
جو جمہوریت کی بساط الٹے گا یا اس کے تسلسل میں رکاوٹ ڈالے گا وہ پاکستان کی سلامتی کو دائو پر لگائے گا۔ جو ایسا کرے گا وہ سب کچھ ہوگا لیکن محب وطن ہر گز نہیں ہوگا۔امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان میں جمہوری تبدیلی کا وہ آئینی عمل ضرور وقوع پذیر ہوگا جس کا نہ جانے کب سے ہم سب کو انتظار ہے۔