ممالک دل کی طرح ٹوٹ جائیں گے
کسی کو معلوم تھا کہ سویت روس کے انہدام کے لیے کسی گورباچوف کی ضرورت پڑیگی؟
KARACHI:
جوں جوں 21 ویں صدی کے سال گزر رہے ہیں، عالمی سطح پر نامی گرامی ممالک کے ٹوٹ جانے کی دلچسپ مگر فکر انگیز باتیں میڈیا میں مشتہر ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسی ایک رپورٹ کا زور رہا کہ ''امریکا میں اسرائیل کی حمایت ختم ہوتی جا رہی ہے اور آیندہ 10 برس میں اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا، امریکا میں اسرائیلی ساکھ شدید متاثر ہو رہی ہے اور امریکی یہودی لابی اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے زیادہ عرصے تک متفق نہیں رہ سکے گی، 2022 تک اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، اگر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو اربوں ڈالرز کی امداد جاری رہی اور وہ اپنی فوج کے ذریعے اسرائیلی دشمنوں کا خاتمہ جاری رکھتا ہے تو اسرائیل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے'' (سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا اعترافی بیان، ایرانی ٹی وی کی رپورٹ، تہران، آن لائن، 2 دسمبر 2012)
سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار کیون پارٹ نے پریس ٹی وی کی ویب سائٹ پر لکھے گئے ایک مضمون میں ہنری کسنجر کے اس خدشے کو درست قرار دیا اور کہا کہ امریکا کی یہودی لابی کا زیادہ دیر تک متفق رہنا ممکن نہیں اور زیادہ تر امریکی یہ سمجھ چکے ہیں کہ امریکا اسرائیلی جنگ میں اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے، امریکا میں یہ تاثر عام ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے نائن الیون کا حملہ کرایا، اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے امریکا اپنے فوجی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بے شمار قربانیاں دے رہا ہے۔
ادھر سوویت یونین کے آخری سربراہ گورباچوف نے کہا ہے کہ امریکا تباہی کے دہانے پر ہے اگر امریکا کی منافقانہ پالیسیاں نہ بدلیں تو اس کا حشر بھی سوویت یونین جیسا ہو گا۔ میخائیل گوربا چوف نے مشرق وسطیٰ اور کالے پانیوں کے مستقبل کے بارے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان پر جارحیت اور قبضہ سوویت یونین کی سب سے بڑی غلطی تھی، جس کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا، امریکا بھی وہی غلطی دہرا رہا ہے اور سوویت یونین کی طرح امریکا کی بھی تباہی زیادہ دور نہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ قومی قرضے حکومتی خسارے کے باعث 160 کھرب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں، جس کے بعد ہر امریکی شہری 50 ہزار ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے، ایک ٹی وی کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کی بیان پر ری پبلکن جماعت کے سینیٹر روب پورٹ مین نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واجبات نہ صرف ہماری موجودہ بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے ایک بوجھ بن جائیں گے۔ اقتصادی ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اقتصادی ترقی رک جائے گی اور مستقبل میں لاکھوں ملازمین روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بے تحاشہ قرضے کا مطلب یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ قرضے کی حد موجودہ 160 کھرب ڈالر سے بڑھانے کے حوالے سے قانون کی منظوری دیں گے جس سے امریکا کا قومی قرضہ مزید بڑھ جائے گا۔ جب کہ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ 30 کی دہائی کی بڑی کساد بازاری کے بعد چار سال قبل سامنے آنے والے بدترین معاشی بحران سے ملک نکل آیا اور بہتری کی طرف پیشرفت ہو رہی ہے۔ ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں انھوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 2009 کے آغاز میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اب کم ترین سطح پر ہے۔
امریکا کی کوشش ہو گی کہ وہ 2030 میں دنیا کی واحد سپر پاور رہنے کے بجائے برابری والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہو۔ 2030 تک بہت سے ایسے ممالک اور ریاستیں زوال پذیر ہوں گی جہاں نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے اور جہاں ہتھیاروں کی موجودگی اور لسانی تصادم کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان میں متعدد افریقی ممالک بھی شامل ہیں جب کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں بھی نوجوانوں کی اکثریت ہے اور دنیا کے زیادہ تر انھی ممالک میں تنازعات کو ہوا ملی ہے جہاں اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سست معاشی ترقی کی وجہ سے ایسے علاقوں میں تنازعات بڑھنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات امریکی انٹیلی جنس کونسل کے ماہرین نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہی۔ این این آئی کے مطابق امریکا کی آیندہ 20 سال کے ممکنہ عالمی منظر نامے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک پاکستان کو مزید سیاسی و معاشی مسائل کا سامنا ہو گا۔ رپورٹ میں پاکستان کو ناکامی کے خدشے سے دوچار ریاستوں میں 12 واں نمبر دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور صومالیہ میں کمزور حکمرانی مسائل میں اضافہ کرے گی۔
ادھر برطانوی جریدے ''اکانومسٹ'' نے رپورٹ دی ہے کہ آیندہ برسوں میں کئی ممالک ٹوٹ جائیں گے، برطانیہ، اسپین، قبرص، بیلجیئم، چیک ری پبلک، فن لینڈ، جرمنی، نیدر لینڈز، پولینڈ، پرتگال اور سوئیڈن تقسیم ہو جائیں گے جب کہ نئے ممالک اسکاٹ لینڈ، کیٹا کونیا، باسک، ترکش ری پبلک آف جنوبی قبرص، فلینڈرز، ماراویا، ایلنڈ، سامی، باواریا، فریسیا، اپرسی لسیا، میڈہرا، وی ایزورس اور اسکانیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کئی علیحدگی پسند تحریکیں اپنے عروج پر ہیں، یورپ کے کئی ممالک تقسیم کے مراحل میں ہیں، برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ، اسپین سے کیٹاکونیا اور باسک، قبرص سے ترکش ری پبلک آف جنوبی قبرص، بیلجیئم سے فلینڈرز، چیک ری پبلک سے ماراویا، فن لینڈ سے ایلنڈ اور سامی، جرمنی سے باواریا، نیدر لینڈ سے فریسیا، پولینڈ سے اپرسی لسیا، پرتگال سے میڈیر اور دی ایزورس جب کہ سوئیڈن سے سامی اور اسکانیا نئے ممالک معرض وجود میں آجائیں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ کی تقسیم اور اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر 2014 سے قبل ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جس میں اسکاٹ لینڈ کے عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ملک چاہتے ہیں۔
مذکورہ بالا تجزیے اور رپورٹس میں کشمیریوں کی آزادی کا کوئی ذکر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ آزاد و مقبوضہ کشمیر کے لیے کوئی ایسا فارمولا ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ جس سے پاکستان اور بھارت خوش ضرور ہوں گے لیکن اس میں عام کشمیریوں کی رائے شامل نہیں ہو گی، ابھی تک پاکستان و بھارت کے مابین مذاکرات میں یہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کل تک کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ تھا اب اس کے بغیر پاکستان نے بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ملک قرار دیا ہے جب کہ بھارت اپنے پرانے بیان بلکہ ہٹ دھرمی پر قائم ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کشمیری رہنما اپنے اندرونی اختلافات سے بالاتر ہوکر کس فارمولے کے تحت اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو کر بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کر بھی لیں گے یا آنے والی نسلیں بھی آزادی کے نام پر بھارت کے ہاتھوں یونہی جام شہادت نوش کرتی رہیں گی۔ کشمیریوں کے دل نہیں ٹوٹنے چاہئیں، جن ملکوں کو اپنی استعماری اور سامراجی پالیسیوں کے سبب ٹوٹنا ہی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ کسی کو معلوم تھا کہ سویت روس کے انہدام کے لیے کسی گورباچوف کی ضرورت پڑیگی۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
جوں جوں 21 ویں صدی کے سال گزر رہے ہیں، عالمی سطح پر نامی گرامی ممالک کے ٹوٹ جانے کی دلچسپ مگر فکر انگیز باتیں میڈیا میں مشتہر ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسی ایک رپورٹ کا زور رہا کہ ''امریکا میں اسرائیل کی حمایت ختم ہوتی جا رہی ہے اور آیندہ 10 برس میں اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا، امریکا میں اسرائیلی ساکھ شدید متاثر ہو رہی ہے اور امریکی یہودی لابی اسرائیل کا دفاع کرنے کے لیے زیادہ عرصے تک متفق نہیں رہ سکے گی، 2022 تک اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، اگر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو اربوں ڈالرز کی امداد جاری رہی اور وہ اپنی فوج کے ذریعے اسرائیلی دشمنوں کا خاتمہ جاری رکھتا ہے تو اسرائیل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے'' (سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا اعترافی بیان، ایرانی ٹی وی کی رپورٹ، تہران، آن لائن، 2 دسمبر 2012)
سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار کیون پارٹ نے پریس ٹی وی کی ویب سائٹ پر لکھے گئے ایک مضمون میں ہنری کسنجر کے اس خدشے کو درست قرار دیا اور کہا کہ امریکا کی یہودی لابی کا زیادہ دیر تک متفق رہنا ممکن نہیں اور زیادہ تر امریکی یہ سمجھ چکے ہیں کہ امریکا اسرائیلی جنگ میں اپنے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے، امریکا میں یہ تاثر عام ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں نے نائن الیون کا حملہ کرایا، اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے امریکا اپنے فوجی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بے شمار قربانیاں دے رہا ہے۔
ادھر سوویت یونین کے آخری سربراہ گورباچوف نے کہا ہے کہ امریکا تباہی کے دہانے پر ہے اگر امریکا کی منافقانہ پالیسیاں نہ بدلیں تو اس کا حشر بھی سوویت یونین جیسا ہو گا۔ میخائیل گوربا چوف نے مشرق وسطیٰ اور کالے پانیوں کے مستقبل کے بارے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان پر جارحیت اور قبضہ سوویت یونین کی سب سے بڑی غلطی تھی، جس کی وجہ سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا، امریکا بھی وہی غلطی دہرا رہا ہے اور سوویت یونین کی طرح امریکا کی بھی تباہی زیادہ دور نہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ قومی قرضے حکومتی خسارے کے باعث 160 کھرب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں، جس کے بعد ہر امریکی شہری 50 ہزار ڈالر کا مقروض ہو گیا ہے، ایک ٹی وی کے مطابق امریکی محکمہ خزانہ کی بیان پر ری پبلکن جماعت کے سینیٹر روب پورٹ مین نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واجبات نہ صرف ہماری موجودہ بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے ایک بوجھ بن جائیں گے۔ اقتصادی ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اقتصادی ترقی رک جائے گی اور مستقبل میں لاکھوں ملازمین روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بے تحاشہ قرضے کا مطلب یہ ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ قرضے کی حد موجودہ 160 کھرب ڈالر سے بڑھانے کے حوالے سے قانون کی منظوری دیں گے جس سے امریکا کا قومی قرضہ مزید بڑھ جائے گا۔ جب کہ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ 30 کی دہائی کی بڑی کساد بازاری کے بعد چار سال قبل سامنے آنے والے بدترین معاشی بحران سے ملک نکل آیا اور بہتری کی طرف پیشرفت ہو رہی ہے۔ ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں انھوں نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 2009 کے آغاز میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اب کم ترین سطح پر ہے۔
امریکا کی کوشش ہو گی کہ وہ 2030 میں دنیا کی واحد سپر پاور رہنے کے بجائے برابری والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہو۔ 2030 تک بہت سے ایسے ممالک اور ریاستیں زوال پذیر ہوں گی جہاں نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے اور جہاں ہتھیاروں کی موجودگی اور لسانی تصادم کے خطرات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ان میں متعدد افریقی ممالک بھی شامل ہیں جب کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں بھی نوجوانوں کی اکثریت ہے اور دنیا کے زیادہ تر انھی ممالک میں تنازعات کو ہوا ملی ہے جہاں اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سست معاشی ترقی کی وجہ سے ایسے علاقوں میں تنازعات بڑھنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات امریکی انٹیلی جنس کونسل کے ماہرین نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہی۔ این این آئی کے مطابق امریکا کی آیندہ 20 سال کے ممکنہ عالمی منظر نامے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک پاکستان کو مزید سیاسی و معاشی مسائل کا سامنا ہو گا۔ رپورٹ میں پاکستان کو ناکامی کے خدشے سے دوچار ریاستوں میں 12 واں نمبر دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور صومالیہ میں کمزور حکمرانی مسائل میں اضافہ کرے گی۔
ادھر برطانوی جریدے ''اکانومسٹ'' نے رپورٹ دی ہے کہ آیندہ برسوں میں کئی ممالک ٹوٹ جائیں گے، برطانیہ، اسپین، قبرص، بیلجیئم، چیک ری پبلک، فن لینڈ، جرمنی، نیدر لینڈز، پولینڈ، پرتگال اور سوئیڈن تقسیم ہو جائیں گے جب کہ نئے ممالک اسکاٹ لینڈ، کیٹا کونیا، باسک، ترکش ری پبلک آف جنوبی قبرص، فلینڈرز، ماراویا، ایلنڈ، سامی، باواریا، فریسیا، اپرسی لسیا، میڈہرا، وی ایزورس اور اسکانیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کئی علیحدگی پسند تحریکیں اپنے عروج پر ہیں، یورپ کے کئی ممالک تقسیم کے مراحل میں ہیں، برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ، اسپین سے کیٹاکونیا اور باسک، قبرص سے ترکش ری پبلک آف جنوبی قبرص، بیلجیئم سے فلینڈرز، چیک ری پبلک سے ماراویا، فن لینڈ سے ایلنڈ اور سامی، جرمنی سے باواریا، نیدر لینڈ سے فریسیا، پولینڈ سے اپرسی لسیا، پرتگال سے میڈیر اور دی ایزورس جب کہ سوئیڈن سے سامی اور اسکانیا نئے ممالک معرض وجود میں آجائیں گے۔ واضح رہے کہ برطانیہ کی تقسیم اور اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر 2014 سے قبل ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جس میں اسکاٹ لینڈ کے عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ملک چاہتے ہیں۔
مذکورہ بالا تجزیے اور رپورٹس میں کشمیریوں کی آزادی کا کوئی ذکر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ آزاد و مقبوضہ کشمیر کے لیے کوئی ایسا فارمولا ڈھونڈ لیا گیا ہے کہ جس سے پاکستان اور بھارت خوش ضرور ہوں گے لیکن اس میں عام کشمیریوں کی رائے شامل نہیں ہو گی، ابھی تک پاکستان و بھارت کے مابین مذاکرات میں یہی کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کل تک کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ تھا اب اس کے بغیر پاکستان نے بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ملک قرار دیا ہے جب کہ بھارت اپنے پرانے بیان بلکہ ہٹ دھرمی پر قائم ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کشمیری رہنما اپنے اندرونی اختلافات سے بالاتر ہوکر کس فارمولے کے تحت اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو کر بھارت کے تسلط سے آزادی حاصل کر بھی لیں گے یا آنے والی نسلیں بھی آزادی کے نام پر بھارت کے ہاتھوں یونہی جام شہادت نوش کرتی رہیں گی۔ کشمیریوں کے دل نہیں ٹوٹنے چاہئیں، جن ملکوں کو اپنی استعماری اور سامراجی پالیسیوں کے سبب ٹوٹنا ہی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ کسی کو معلوم تھا کہ سویت روس کے انہدام کے لیے کسی گورباچوف کی ضرورت پڑیگی۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔