مقبول بٹ سے افضل گورو تک

کشمیر میں مسلح تشدد کا طریقہ غیر مقبول ہو رہا تھا، لیکن افضل گورو کی پھانسی تشدد کو دوبارہ مقبول بنا سکتی ہے۔

KARACHI:
29 سال پہلے کی بات ہے، بھارتی ظلم و زیادتی کا شکار کشمیری قوم کے ایک سپوت مقبول بٹ نے سوچا کہ میرا کشمیر مقتل بنا ہوا ہے، میری قوم آزادی کے ایک ایک سانس کو ترس رہی ہے۔ لہٰذا اس ظلم سے آزادی حاصل کی جانی چاہیے، اس لیے وہ بھارت کے زیر قبضہ اپنی مادر وطن کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔ بھارتی پولیس نے اسے گرفتار کر کے تہاڑ جیل میں بند کر دیا، 11 فروری 1984 کو مقبول بٹ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا اور نعش تہاڑ جیل میں ہی دفنا دی گئی۔

بھارتی حکومت کا خیال تھا کہ اس کی لاش کو جیل میں دفنانے سے معاملہ بھی دفن ہو جائے گا لیکن پھانسی کی دیر تھی کہ مقبول بٹ ایک ہیرو بن کر ابھرا، کشمیری قوم کے دل میں بس گیا، کشمیر کے نوجوان اسی کے نقش قدم پر چلنے لگے۔ کشمیر میں عسکری جدوجہد میں شدت کا آغاز مقبول بٹ کی پھانسی سے ہی ہوا۔ نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا لیا اور مقبول بٹ کی شہادت کے بعد کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد نے خوب زور پکڑا، کشمیری نوجوانوں نے بھارتی فوج کی ناک میں دم کر دیا۔ آج کشمیر میں مقبول بٹ سیاسی، مذہبی اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک متفقہ کردار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کشمیر میں سرکاری طور پر اس کی برسی منائی جاتی ہے۔ آزادی کے متوالے اس کی پھانسی کو یاد کر کے اپنی تحریک آزادی کو جلا بخشتے ہیں۔

ہفتے کی صبح بھارتی حکومت نے آزادی کی جدوجہد کرنے والے ایک اور کشمیر کے سپوت افضل گورو کو پھانسی دے دی۔ اطلاعات کے مطابق پھانسی کے وقت افضل گورو کے چہرے پر بالکل بھی پریشانی کے آثار نہ تھے، بلکہ وہ مکمل طور پر اطمینان محسوس کر رہے تھے، بھارت کی تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر جنرل وملہ مہرا کا کہنا ہے کہ پھانسی سے قبل افضل گورو نے نماز فجر ادا کی، وہ خود ہی مکمل اعتماد کے ساتھ چل کر پھانسی کے پھندے تک گئے۔ تختہ دار پر چڑھانے سے قبل ان کا طبی معائنہ کیا گیا، ان کی صحت اور بلڈ پریشر نارمل تھا۔

پھانسی کے بعد افضل گورو کی لاش بھی تہاڑ جیل میں ہی دفن کر دی گئی۔ ان پر 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کی منصوبہ سازی کا الزام تھا، جس میں پارلیمنٹ کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد مارے گئے تھے۔ دس برس سے زائد عرصہ پہلے دسمبر 2002 میں انھیں اس جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ابتدائی طور پر 20 اکتوبر 2006کو اس سزا پر عملدرآمد ہونا تھا لیکن ان کی اہلیہ کی جانب سے صدر سے رحم کی اپیل پر یہ معاملہ زیرِ التوا تھا۔ گزشتہ سال 16 نومبر کو صدر نے افضل گورو کی رحم درخواست کو وزارت داخلہ کو واپس لوٹا دیا تھا۔ اس کے بعد 23 جنوری 2013کو صدر پرناب مکھرجی نے وزارت داخلہ کو افضل گورو کی رحم کی درخواست کو خارج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔


کشمیری رہنمائوں سمیت پوری کشمیری قوم افضل گورو کو بے گناہ تصور کرتی ہے۔ اس مقدمے میں افضل گورو کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی پیش نہیں کیے جا سکے، اس نے نہ تو کوئی گولی چلائی اور نہ کوئی قتل کیا۔ بھارتی قانون دان بھی افضل گورو کی پھانسی کو عدالتی و سیاسی قتل قرار دے رہے ہیں۔ افضل گورو کے کزن محمد یاسین گورو نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ پھانسی کی سزا بھارت کی جانب سے وحشیانہ حرکت ہے اور ہمیں اس کی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ سید علی گیلانی کی سر پرستی میں قائم فورم کا ایک ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں ہوا، جس میں محمد افضل گورو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ پھانسی کے خلاف آزاد کشمیر حکومت نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ کشمیری رہنماؤ ں نے اقوام متحدہ اور عالمی تنظیموں سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی اور بھارتی جارحیت کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔

افضل گورو کی پھانسی کے بعد کشمیر کے حالات ایک بار پھر مقبول بٹ کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی مماثلت اختیار کرنے جا رہے ہیں۔ افضل گورو کی پھانسی ہر کشمیری گھر کی کہانی بن چکی ہے۔ افضل گورو کی پھانسی کے وقت کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا، افضل گورو کی پھانسی کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باجود نوجوان سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین کی پولیس سے زبردست جھڑپیں ہوئیں، اس دوران سڑکیں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ مظاہرین پر قابض فوج اور پولیس کے تشدد سے 40 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

مختلف مقامات پر بھارتی ترنگے نذرآتش کیے گئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک نے کہا ہے کہ بھارت میں اس سے پہلے بھی مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی جس سے کشمیر کے ہر گھر میں مقبول بٹ پیدا ہوا اور آزادی میں تیزی آئی۔ اب ہر گھر میں افضل گورو پیدا ہو گا۔ بھارت نے افضل گورو کو پھانسی دے کر سنگین غلطی کی ہے، جس پر اسے پچھتانا پڑے گا۔ حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس کے رہنما شیخ مصطفیٰ کمال نے ایک بیان میں کہا ہے: ''افضل گورو کو پھانسی دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوا ہے بلکہ اب یہ خطرہ ہے کہ ہزاروں افضل گورو پیدا ہو سکتے ہیں۔ کشمیریوں کو پھانسی دینے سے تحریک آزادی نہیں دب سکتی۔ اگر لاکھوں کشمیریوں کو بھی پھانسی دی جائے تو بھی ہم مسئلہ کشمیر کو حل کروا کے چھوڑیں گے۔''

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے علیحدگی پسندوں کو بھارت نواز سیاست کے خلاف ایک اہم اور تاریخی سنگ میل حاصل ہو گیا ہے۔ اس واقعے سے کشمیر میں مسلح مزاحمت دوبارہ مقبولیت حاصل کر لے گی۔ یہاں کی آزادی پسند قیادت کو ایک اور ہیرو مل گیا اور ان کی تحریک میں نئی روح پھونک دی گئی ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں اب افضل گورو کو مقبول بٹ سے بھی بڑا مقام حاصل ہو جائے گا۔ قانون کے پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت کہتے ہیں کہ ''ایسے واقعات اثر چھوڑتے ہیں اور پھر حالات نیا رْخ لیتے ہیں۔ مقبول بٹ کی پھانسی کے فوراً بعد ہی ردعمل نہیں ہوا تھا۔ اس واقعے کے چار سال بعد کشمیر میں مسلح تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ نوجوان نسل کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ بھارتی عدلیہ سے انصاف کی امید نہیں۔ یہ جذبات ہمیشہ تشدد کے نظریات کو تقویت دیتے ہیں۔ اس بارے میں وقت کا تعین مشکل ہے۔'' حساس مبصرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں مسلح تشدد کا طریقہ غیر مقبول ہو رہا تھا، لیکن افضل گورو کی پھانسی تشدد کو دوبارہ مقبول بنا سکتی ہے۔
Load Next Story