16 کروڑ سال قدیم ’’اُڑن ممالیہ‘‘ کی دریافت
یہ ننھے منے اور ہلکے پھلکے جانور اپنے بچوں کو دودھ پلاتے تھے اور لمبی لمبی چھلانگیں بھی لگا سکتے تھے
ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے آج سے 16 کروڑ سال پہلے پائے جانے والے ایسے دودھ پلانے والے جانوروں (ممالیہ) کی باقیات دریافت کرلی ہیں جن کے بازوؤں کے ساتھ لچک دار جھلیاں تھیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ اُڑنے جیسے انداز میں طویل چھلانگ لگاسکتے تھے۔
موجودہ زمانے کے دودھ پلانے والے جانوروں میں صرف چمگادڑ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ پرندوں کی طرح باقاعدہ اُڑ سکتی ہے جبکہ ''اڑن گلہریاں'' اپنے جسم پر موجود جھلی کی بدولت لمبی چھلانگ لگاسکتی ہیں جو بظاہر اُڑان جیسی دکھائی دیتی ہے۔
اس حوالے سے قدیم زمانے کے مذکورہ ممالیہ جانور آج کی اُڑن گلہریوں سے قریب سمجھے جاسکتے ہیں البتہ یہ اپنی ساخت اور جسامت میں ان سے بہت مختلف ہیں۔
چینی ماہرین کی قیادت میں رکازیات دانوں (paleontologists) کی ایک عالمی ٹیم نے بیجنگ کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے چند رکازات (فوسلز) کا ایک بار پھر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ خاص بات یہ تھی کہ ان رکازات میں کروڑوں سال قدیم جانوروں کے نقوش بہت نمایاں تھے جنہیں تفصیل سے دیکھنے کے بعد ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ دراصل مختلف اقسام کے دو ننھے ننھے ''اُڑن ممالیہ'' تھے جو ڈائنوسار کے زمانے میں رہا کرتے تھے۔
16 کروڑ (160 ملین) سال قدیم ان دونوں معدوم ممالیوں کو بالترتیب Maiopatagium furculiferum اور Vilevolodon diplomylos کے پیچیدہ نام دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یعنی Vilevolodon کا رکاز صرف 8 سینٹی میٹر (3 انچ) طویل تھا اور اندازہ ہے کہ یہ صرف 35 سے 55 گرام وزنی تھا۔ دوسرا رکاز یعنی Maiopatagium اس سے زیادہ بڑا تھا، جس کی پوری لمبائی 23 سینٹی میٹر (9 انچ) جبکہ اس کے وزن کا اندازہ 120 سے 170 گرام تک لگایا گیا ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ شاید یہی معدوم ممالیے جدید دور میں چمگادڑوں اور اُڑن گلہریوں کے ارتقائی جدِامجد رہے ہوں لیکن اس مفروضے کی تصدیق کےلیے رکازات کے ایک تفصیلی اور منظم سلسلے کی ضرورت پڑے گی جس کے بغیر یہ صرف ایک مفروضہ ہی رہے گا۔ اس لیے فی الحال اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے کے دودھ پلانے والے جانوروں میں صرف چمگادڑ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ پرندوں کی طرح باقاعدہ اُڑ سکتی ہے جبکہ ''اڑن گلہریاں'' اپنے جسم پر موجود جھلی کی بدولت لمبی چھلانگ لگاسکتی ہیں جو بظاہر اُڑان جیسی دکھائی دیتی ہے۔
اس حوالے سے قدیم زمانے کے مذکورہ ممالیہ جانور آج کی اُڑن گلہریوں سے قریب سمجھے جاسکتے ہیں البتہ یہ اپنی ساخت اور جسامت میں ان سے بہت مختلف ہیں۔
چینی ماہرین کی قیادت میں رکازیات دانوں (paleontologists) کی ایک عالمی ٹیم نے بیجنگ کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے چند رکازات (فوسلز) کا ایک بار پھر انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ خاص بات یہ تھی کہ ان رکازات میں کروڑوں سال قدیم جانوروں کے نقوش بہت نمایاں تھے جنہیں تفصیل سے دیکھنے کے بعد ماہرین نے دریافت کیا کہ یہ دراصل مختلف اقسام کے دو ننھے ننھے ''اُڑن ممالیہ'' تھے جو ڈائنوسار کے زمانے میں رہا کرتے تھے۔
16 کروڑ (160 ملین) سال قدیم ان دونوں معدوم ممالیوں کو بالترتیب Maiopatagium furculiferum اور Vilevolodon diplomylos کے پیچیدہ نام دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یعنی Vilevolodon کا رکاز صرف 8 سینٹی میٹر (3 انچ) طویل تھا اور اندازہ ہے کہ یہ صرف 35 سے 55 گرام وزنی تھا۔ دوسرا رکاز یعنی Maiopatagium اس سے زیادہ بڑا تھا، جس کی پوری لمبائی 23 سینٹی میٹر (9 انچ) جبکہ اس کے وزن کا اندازہ 120 سے 170 گرام تک لگایا گیا ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ شاید یہی معدوم ممالیے جدید دور میں چمگادڑوں اور اُڑن گلہریوں کے ارتقائی جدِامجد رہے ہوں لیکن اس مفروضے کی تصدیق کےلیے رکازات کے ایک تفصیلی اور منظم سلسلے کی ضرورت پڑے گی جس کے بغیر یہ صرف ایک مفروضہ ہی رہے گا۔ اس لیے فی الحال اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
اس تحقیق کے نتائج ریسرچ جرنل ''نیچر'' کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔