منفرد وزیراعظم

میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے اور تینوں بار اہم ترین اداروں کے ذریعے اقتدار سے محروم کیے گئے


Muhammad Saeed Arain August 11, 2017

سابق ہوجانے والے وزیر اعظم نواز شریف ملک کی واحد سیاسی شخصیت ہیں جنھیں تین بار ملک پر حکومت کرنے کا موقعہ ملا جو ان کا منفرد ریکارڈ ہے کہ وہ تین بار وزیر اعظم رہنے کے باوجود اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کرسکے۔

البتہ انھیں اس بار گزشتہ دو حکومتوں کے برعکس چار سال سے زائد اقتدار میں رہنے کا موقعہ ملا اور انھیں پوری امید تھی کہ وہ اس بار نہ صرف پانچ سالہ مدت پوری کرلیں گے بلکہ 2018 میں چوتھی بار بھی وزیر اعظم منتخب ہوجائیں گے، مگر ان کا خواب سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے نے چکنا چور کردیا اور فیصلہ ان کی توقعات کے بالکل برعکس اور انتہائی سخت صادر ہوا جس پر ان کے حامیوں کو شدید دکھ ہوا تو ان کے وزرا اور اہم حلیف مولانا فضل الرحمن بھی حیران ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کا پاناما لیکس میں نام تھا نہ ان پر کرپشن ثابت ہوئی ۔ انھیں نااہلی کی سزا صادق و امین ثابت نہ ہونے پر ملی کہ جو رقم اقامہ کے حصول کے لیے ملتی تھی وہ انھیں کبھی ملی نہ کبھی انھوں نے لی مگر یہ غلطی ان کا سنگین جرم بنادی گئی کہ جہاں انھوں نے اپنے کروڑوں کے اثاثے نہیں چھپائے وہاں انھوں نے چند لاکھ کے اثاثے کیوں چھپائے جو رقم وہ لینے کے حقدار تھے۔

میاں نواز شریف کی نااہلی پر ان کے پارٹی رہنما اورحامی فخریہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ ان پر پاناما لیکس کے معاملے میں کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور معمولی بات پر نااہل بھی کردیے گئے جس کی کوئی امید نہیں تھی۔ نواز شریف کی نااہلی سے سپریم کورٹ نے یہ ضرور ثابت کردیا جو الزام پیپلز پارٹی لگاتی رہی کہ عدلیہ کا لاڑکانہ اور لاہور کے وزیر اعظم کے لیے الگ الگ معیار ہے مگر اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سپریم کورٹ نے لاڑکانہ، ملتان اور لاہور سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم میں امتیاز برتا ہے۔

سپریم کورٹ کے بھٹو صاحب کی پھانسی کے فیصلے کو پیپلز پارٹی عدالتی قتل کہتی ہے تو مسلم لیگ (ن) اور دیگر بھی اس فیصلے کو متنازعہ قرار دیتے رہے۔ سابق وزیراعظم بھٹو اور سابق وزیر اعظم گیلانی کو بھی سپریم کورٹ سے اتنے سخت ریمارکس نہیں ملے جتنے لاہورکے نواز شریف کو ملے۔ سینئر ججوں نے انھیں گاڈ فادر تک قرار دے دیا اور اپنے الفاظ واپس نہیں لیے جن پر سپریم کورٹ کے سینئر وکلا تک اعتراض کرچکے ہیں اس لیے لاہور کا وزیر اعظم لاڑکانہ اور ملتان سے منفرد قرار پایا اور انتہائی سخت سزا کا حقدار قرار دیا گیا ہے جس کی توقع نہ تھی۔

میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے اور تینوں بار اہم ترین اداروں کے ذریعے اقتدار سے محروم کیے گئے جو دنیا میں یقینی طور پر ایک ریکارڈ ہے جو کبھی توڑا نہیں جاسکے گا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں اپنے انھی صدور کے ہاتھوں برطرف ہوئیں جنھیں انھوں نے خود منتخب کرایا تھا۔

بے نظیر کو پہلے صدر غلام اسحاق نے پھر پی پی ہی کے منتخب صدر فاروق لغاری نے برطرف کیا اور محترمہ تیسری بار وزیر اعظم نہ بن سکیں جب کہ نواز شریف پہلے اپنے ہی منتخب کرائے گئے صدر غلام اسحاق کے ہاتھوں برطرف ہوئے مگر موجودہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے سسر جسٹس نسیم شاہ نے بحال کردیا تھا مگر بعد میں صدر غلام اسحاق کے خلاف چلے اور پھر جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر اور وزیر اعظم دونوں ہی کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا اور صدر سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کرنے والے نواز شریف دوبارہ منتخب نہ ہوسکے تھے اور بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں جن کے خلاف نواز شریف نے تحریک بھی چلائی تھی۔

نواز شریف 1997 میں بھاری مینڈیٹ سے دوسری بار وزیر اعظم بنے اور اپنی مرضی کا آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو لائے مگر اپنی شاہانہ طبعیت کے باعث جنرل مشرف سے اتنے ناراض ہوئے کہ انھوں نے سری لنکا گئے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی واپسی کا انتظارکیا نہ کسی کو اعتماد میں لیا اور جنرل مشرف کو ہٹا دیا مگر پرویز مشرف کو پہلے ہی اندازہ تھا اور وہ انتظام کرکے گئے تھے جس کی وجہ سے نواز شریف کامیاب نہ ہوسکے اور الٹا انھیں جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے ہٹادیا اور جنرل پرویز مشرف سربراہ حکومت بن گئے اورکچھ عرصے بعد نواز شریف کے منتخب کرائے گئے صدر رفیق تارڑ کو ہٹا کر صدر پاکستان بن گئے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے جہاز کے مقدمے میں نواز شریف کو عمر قید کی سزا دلائی مگر سعودی مداخلت پر نواز شریف اپنے خاندان کے ساتھ معاہدے کے تحت جلاوطن ہوگئے مگر انھوں نے جنرل پرویز کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا اعتراف نہیں کیا اور چند سالوں بعد معاہدے کی خلاف ورزی کرکے برطانیہ سے لاہور آگئے مگر باہر نہ آسکے اور معاہدے کے ضامنوں نے لاہور آکر ان کا معاہدہ انھیں دکھایا اور اپنے ساتھ سعودی عرب لے گئے شاید اسی بدعہدی کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کی نظر میں نواز شریف گر گئے تھے اور اپنے تیسرے دور حکومت میں وہ دوبارہ سعودی حکمرانوں کی ناراضگی ختم نہ کرسکے اور سعودی عرب کے پھر قریب نہ آسکے۔

نواز شریف کو 2007 میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد وطن واپسی کی اجازت دے دی گئی تھی اور وہ برطانیہ میں بے نظیر بھٹو سے کی گئی سیاسی مفاہمت کے باعث 5 سال پی پی حکومت برداشت کرگئے اور 2013 میں پی پی حکومت کی اپنی غلطیوں سے تیسری بار وزیر اعظم تو بن گئے مگر آصف علی زرداری سے دور ہوتے گئے اور عمران خان ان کے لیے پیپلز پارٹی سے بڑا مسئلہ بن گئے۔ عمران خان پہلے دھاندلی کا شور مچاتے رہے پھر دھرنوں پر آگئے پھر ان کے ہاتھ پاناما لیکس آگئیں جن میں نواز شریف کا نام نہیں تھا مگر قومی اسمبلی اور جے آئی ٹی میں ان کی غلط تقاریر اور بیانات انھیں لے ڈوبے۔

سپریم کورٹ نے انھیں صادق و امین نہ ثابت ہونے پر پہلے انھیں نااہلی کی سزا دے کر برطرف کرادیا اور نیب میں ان کے خلاف ریفرنس شروع کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد نواز شریف وہ منفرد وزیر اعظم بن گئے جو پہلے اپنے ہی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئے۔ 1990 میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں معزول ہوکر اقتدار سے گئے اور تیسری بار سپریم کورٹ سے ملنے والی نااہلی کی سزا کے باعث اقتدار سے محروم تو ہوگئے مگر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں برقرار ہیں اور مسلم لیگ کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی اس لیے نواز شریف کے نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھاری اکثریت سے مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔

نواز شریف ملک کے تقریباً 9 سال وزیر اعظم رہے اور اگر وہ پیپلز پارٹی کے کہنے پر آئین سے صادق و امین کی شرط ختم کرانے پر راضی ہوجاتے تو یقینی تھا کہ وہ آئین کی شق 62-63 کے تحت سپریم کورٹ سے فوری طور پر نااہل قرار نہ پاتے۔ انھوں نے ایک اچھے مقصد کے لیے جنرل ضیا الحق کے کرائے گئے صادق و امین ہونے کے فیصلے کو ختم نہیں ہونے دیا اور حیران کن طور پر اسی کا نشانہ بن گئے۔

نواز شریف نے ہی آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلائی تھی کیونکہ صدر آصف زرداری ججوں کو بحال نہیں کر رہے تھے مگر نواز شریف نے پی پی کی حکومت سے آزاد عدلیہ کے لیے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اپنی تحریک سے معزول ججوں کو بحال کرایا تھا اور پھر اقتدار میں آکر پہلی بار چار سال تو وزیر اعظم رہے اور صادق و امین نہ ہونے کے باعث آزاد عدلیہ ہی کے ہاتھوں نا اہل قرار پائے اورسپریم کورٹ کے حکم پر نیب میں ان کے خلاف مقدمات کھل گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں