عصر حاضر میں انتہا پسندی کا تصور آخری حصہ
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی مملکت میں ہو رہا ہے، جس کا نظریہ اور بنیاد لاالہ پر ہے
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام سلامتی اور ایمان امن سے عبارت ہے، اس کی تعلیمات امن و سلامتی، پرامن بقائے باہمی اور انسان دوستی کی یقینی ضمانت ہیں، اسلام امن وسلامتی کا سب سے بڑا علم بردار ہے، وہ معاشرے میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا شدید مخالف ہے۔اس نے قیامت تک انسانیت کو ایک اصول عطا کیا، جو اس کی امن پسندی کا یقینی ثبوت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے ہم پر (اہل ایمان پر) اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
اسلام نے بلاتفریق مذہب و ملت ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
اور اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا، (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں فساد پھیلانے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ (غیر اللہ کو) شریک کرنا ہے، پھر (بے گناہ) انسان کا قتل، پھر والدین کی نافرمانی، پھر جھوٹ بولنا ہے۔
اسلام بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ذریعے انتہا پسندانہ رویے کا ارتکاب کرنے والوں اور فساد فی الارض کے مرتکب اور انسانیت مذہب دشمن افراد کے لیے سزائیں تجویز کرتا ہے، ارشاد ربانی ہے:'' جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں، یا سولی چڑھا دیے جائیں، یا ان کے ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔''
مذہبی انتہا پسندی کا لازمی نتیجہ اور بدترین شکل فرقہ واریت اور تکفیر کی مہم ہے، جس نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اسلام اور مسلمانوں کو انتہا پسند طبقے کے طور پر متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے جیسی نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو یہ وہ مسلمان ہے، جس کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذمہ ہے تو تم اللہ کے ذمے میں خیانت نہ کرو۔
ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک کتاب کے ماننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس درجہ مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوئے کہ ایک دوسرے کو کافر کہنے اور ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہوئے، نتیجے کے طور پر فرقہ واریت، شدت پسندی اور انتہا پسندی کے باعث ہزاروں بے گناہ افراد قتل ہوئے، مساجد اور عبادت گاہیں تک محفوظ نہ رہ سکیں، معاشرے کے اہم افراد، علمائے کرام، مذہبی اسکالرز، انجینئرز، ڈاکٹرز، وکلا، ماہرین قانون اور زندگی کے دیگر اہم شعبوں سے وابستہ افراد فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے نتیجے میں قتل ہونے والے بے گناہ افراد کے اعداد و شمار کا اندازا لگانا آسان نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی مملکت میں ہو رہا ہے، جس کا نظریہ اور بنیاد لاالہ پر ہے، ایسے افراد کر رہے ہیں جن کے ہادی و پیغمبرؐ نے یہ تعلیم دی کہ سباب المسلم فسوق و قتالہ صحیح مسلمان کو گالی دینا بدترین گناہ اور اس کا قتل (اسے قتل کرنا) کفر ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں اصل ایمان ہیں ایک یہ کہ جو شخص ''لاالہ الااللہ'' کہتا ہو۔ نہ کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر کی جائے، اور نہ کسی (برے) عمل کی وجہ سے اسے دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے۔
چنانچہ اس بنیاد پر فقہ اسلامی کا یہ اصول ہے کہ
ایمار جل قال لاخیہ یا کافر، فقد باء بھا احدھما۔
جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہے، یہ قول دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور لوٹے گا۔
یہ فقہی اصول اور قاعدہ ہے کہ
لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر الا ارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذلک۔
جب کبھی ایک شخص دوسرے پر فسق یا کفر کی تہمت لگاتا ہے، تو وہ تہمت اس پر لوٹ آئے گی، اگرچہ وہ شخص جس پر تہمت لگائی گئی تھی درحقیقت کافر یا فاسق نہ ہو، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تعلیمات نبویؐ کو عام کیا جائے۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ﷺ' دین بھی' ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسلام نے تمام امت مسلمہ کو جسد واحد اور ایک برادری قرار دیا ہے۔ اخوت و اجتماعیت کا یہ رنگ اسلامی عبادات کا مظہر ہے، خصوصاً حج کے موقعے پر بلاتفریق رنگ و نسل امت مسلمہ کا ہر فرد مساوات کا عملی مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے، نماز بھی مسلمانوں کی اخوت و اجتماعیت کا مظہر ہے، قرآن کریم نے تمام اہل ایمان کو بھائی بھائی قرار دیا ہے، وحدت، یگانگت اور اخوت و اجتماعیت کا اظہار کیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
بلاشبہ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔
سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا گیا:
اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا باہم تفرقہ نہ ڈالنا (متفرق نہ ہونا) اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو، جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے، تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح خدا تمہیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا تو ایمان داروں کو باہمی رحمت و محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا، جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے (تو اس کے سبب) تمام بدن کے اعضا بیماری اور تکلیف سے متاثر ہوتے ہیں۔
رسول اکرمؐ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد جو اہم اقدام فرمایا وہ انصار و مہاجرینؓ کے درمیان رشتۂ اخوت کا قیام تھا، خود دربار نبویؐ مختلف نسلی، نسبی و ملکی پھولوں کا گلدستہ تھا، اس میں عداس نینوائیؓ، صہیب رومیؓ، ذوالکلاع حمیریؓ، ابو سفیان امویؓ، کرزفہریؓ، بلال حبشیؓ، ضماد ازدیؓ ،عدی طائیؓ، ابوذرغفاریؓ، ابو حارث مصطفیؓ، سلمان فارسیؓ، طفیل دوسیؓ، شمامہ نجدیؓ، ابو عامر اشعریؓ، سراقہ مدلجیؓ پہلو بہ پہلو بیٹھے نظر آتے تھے اور ہر فرد اپنے ملک اور قوم کی نمایندگی کرتا تھا۔
عہد حاضر میں پوری مسلم امہ کے لیے بالعموم اور اسلامیان جمہوریہ پاکستان کے لیے بالخصوص یہی درس اتحاد و یگانگت اور جذبۂ اخوت و اجتماعیت کامیابی کی ضمانت اور فلاح کی نوید ہے۔