حجِ بیتُ اللہ کا ثمر
جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔
KARACHI:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔'' (رواہ الترمذی)
حج کی فرضیت کا حکم نو ہجری میں آیا اور اگلے سال دس ہجری میں اپنی اس جہان فانی سے رخصتی سے صرف تین ماہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ''حجۃ الوداع'' کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت پوری کردی۔
اس آیت میں تکمیل دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندے کو مخلصانہ حج نصیب ہوجائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ''حج مبرور'' کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہوگیا۔
لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔
مولانا محمد منظور نعمانی صاحب معارف الحدیث میں تحریر فرماتے ہیں : حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بہ جائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی البتہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔
ارشاد نبویؐ میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے یہ فرمایا گیا کہ یہودی و نصرانی ہوکر مرنا گویا برابر ہے (معاذاللہ)۔ اس کے بعد حدیث میں سورہ آل عمران کی اس آیت کا حوالہ دیا گیا جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے کہ '' جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے حج کرنا ہی چاہیے'' سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالے کے طور پر آیت کا ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفاء کیا۔
حدیث میں مذکور وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پروا نہیں، وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیاز ہے۔ اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو ''من کفر' کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ''ان اللہ غنی عن العالمین'' کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔(معارف الحدیث جلد چہارم )
حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کافی راہ نمائی کر رہی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا سامان سفر اور سواری۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کرکے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابیؓ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی کہ : ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جاسکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانۂ سفر کے گزارنے کے لیے کافی ہو۔ فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمے ہو۔
جب کوئی شخص حج کر لے تو اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے حج کیا اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہوگا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔''
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے، خوش حالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے، اور ''حج مبرور'' کے صلے میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک کفارہ ہوجاتا ہے ان کے درمیان گناہوں کا اور حج مبرور (نیکی سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ حج کرنے) کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔''(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔''
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو، کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔'' (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ حج اور عمرے کی سعادت فرمائے اور حج مبرور نصیب فرمائے۔ آمین
(مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔'' (رواہ الترمذی)
حج کی فرضیت کا حکم نو ہجری میں آیا اور اگلے سال دس ہجری میں اپنی اس جہان فانی سے رخصتی سے صرف تین ماہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ''حجۃ الوداع'' کے نام سے مشہور ہے اور اس حجۃ الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت پوری کردی۔
اس آیت میں تکمیل دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ بھی ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندے کو مخلصانہ حج نصیب ہوجائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ''حج مبرور'' کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہوگیا۔
لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبویؐ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔
مولانا محمد منظور نعمانی صاحب معارف الحدیث میں تحریر فرماتے ہیں : حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بہ جائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی خصوصیت تھی البتہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔
ارشاد نبویؐ میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے یہ فرمایا گیا کہ یہودی و نصرانی ہوکر مرنا گویا برابر ہے (معاذاللہ)۔ اس کے بعد حدیث میں سورہ آل عمران کی اس آیت کا حوالہ دیا گیا جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے کہ '' جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے حج کرنا ہی چاہیے'' سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالے کے طور پر آیت کا ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفاء کیا۔
حدیث میں مذکور وعید آیت کے جس حصے سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پروا نہیں، وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیاز ہے۔ اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو ''من کفر' کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ''ان اللہ غنی عن العالمین'' کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔(معارف الحدیث جلد چہارم )
حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کافی راہ نمائی کر رہی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا سامان سفر اور سواری۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کرکے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابیؓ نے اس کی وضاحت چاہی تو آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی کہ : ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جاسکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانۂ سفر کے گزارنے کے لیے کافی ہو۔ فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمے ہو۔
جب کوئی شخص حج کر لے تو اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے حج کیا اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہوگا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔''
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے، خوش حالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے، اور ''حج مبرور'' کے صلے میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک کفارہ ہوجاتا ہے ان کے درمیان گناہوں کا اور حج مبرور (نیکی سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ حج کرنے) کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔''(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔''
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو، کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔'' (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ حج اور عمرے کی سعادت فرمائے اور حج مبرور نصیب فرمائے۔ آمین
(مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی)