پاکستان کے 70 سنہری حقائق تیرہویں قسط

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

پاکستان کے حوالے سے ایسی مثبت باتیں جن کے بارے میں شاید آپ پہلے نہیں جانتے ہوں۔

ایکسپریس اردو بلاگز کی جانب سے اپنے قارئین کے لیے یوم آزادی کے موقع پر خصوصی سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس میں 14 اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پاکستان اور پاکستانیوں کے سنہری حقائق / اعزازات پیش کیے جائیں گے۔




پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پہلی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دوسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (تیسری قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چوتھی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (پانچویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (چھٹی قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (ساتویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (آٹھویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (نویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (دسویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (گیارہویں قسط)

پاکستان کے بارے میں 70 سنہری حقائق (بارہویں قسط)


دودھ کی پیداوار میں نمایاں عالمی مقام


دنیا میں 200 سے زائد ممالک ہیں لیکن کچھ ہی ایسے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ 2017ء میں جاری ہونے والی فہرست کے مطابق پاکستان کا کمال یہ ہے کہ دودھ کی پیداوار کے حوالے سے یہ دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ فہرست کے مطابق 2016 کے دوران پاکستان میں دودھ کی مجموعی پیداوار 4 کروڑ 20 لاکھ ٹن رہی تھی۔ لیکن اب اِسے آپ پاکستان کی بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ اِس قدر پیداوار کے باوجود یہاں کی عوام کو نہ تو خالص دودھ ملتا ہے اور نہ ہی اِس سے بنی ہوئی دوسری چیزیں، بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں نامناسب ماحول کی وجہ سے یہ عظیم نعمت سب سے زیادہ ضائع ہوجاتی ہے۔

اِس فہرست میں پاکستان سے آگے صرف چین، امریکہ اور بھارت ہیں، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تینوں ممالک وسائل اور آبادی کے اعتبار سے بہت آگے ہیں اور اِس صورتحال میں پاکستان کا یہ مقام حاصل کرنا یقیناً ایک اہم بات ہے۔




پاکستان کی عالمی جغرافیائی اہمیت


پاکستان قدرتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو سیاسی، اقتصادی، تزویری (strategically) اور جغرافیائی اعتبار سے اننتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ اور پچھلے 40 سال سے عالمی طاقتوں کی سرگرمیوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اگر محل وقوع کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی سمندری حدود خلیج فارس کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ سمندری بندرگاہوں سے محروم وسط ایشیائی ریاستوں کو بحیرہ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرکے بین الاقوامی منڈی تک رسائی کےلیے راہداری فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحد مشترک ہے۔ کراچی اِس کی بڑی بندرگاہ ہے اور دنیا بھر کے بحری جہازوں میں ایندھن بھرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے۔ اس کے علاوہ گوادر کی بندرگاہ بھی تیزی سے ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے۔

پاکستان کو وسط ایشیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان ممالک تک کم سے کم فاصلہ طے کرتے ہوئے رسائی صرف پاکستان کے راستے ہی سے ہوسکتی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہیں؛ اور اسی لیے یہ عالمی سیاسی چالوں کی نئی بساط بھی ہیں۔ پاکستان جغرافیائی محل وقوع سے مشرق وسطیٰ کے اُن ممالک کے قریب بھی ہے جو قدرتی وسائل سے بھرپور ہیں۔ یہ بیلٹ ایران سے شروع ہوتی ہوئی بحیرہ عرب کے جنوب سے سعودی عرب تک جاپہنچتی ہے جو عالمی منڈی میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اگر سرمایہ کاری کی جائے تو ہماری تجارتی مارکیٹ ہمارے ہمسایہ ملکوں کی اشیاء کی برآمدات کے لیے عالمی منڈی کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے، جس سے فائدہ ہمارے ملک کو بھی پہنچے گا۔

گہرے پانیوں کی بندر گاہ گوادر نہ صرف چین بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے بہت کشش رکھتی ہے۔ ایران بھی گیس اور تیل دیگر ممالک کو برآمد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اِس صورت حال میں پاکستان کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے۔ چین کی خصوصی دلچسپی کا محور منصوبہ ''پاک چین اقتصادی راہداری'' بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کی موجودہ جغرافیائی اہمیت کو دوچند کردے گا۔




 

انتظار حسین، اردو تصنیف پر بُکر پرائز کیلئے نامزد ہونے والے پہلے پاکستانی


انتظار حسین نہ صرف پاکستان بلکہ اردو ادب کے وہ پہلے ادیب ہیں جنہیں بُکر پرائز (Booker Prize) کیلئے نامزد کیا گیا۔ یہ ایوارڈ دراصل برطانیہ کے معروف مصنفین کے انعام کا ایک حصہ ہے۔ یہ انعام کسی بھی قومیت کے ایسے مصنفین کو دیا جاتا ہے، جن کا کام انگریزی زبان میں موجود ہو۔

انتظار حسین کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو ادب (خاص کر افسانہ نگاری) کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔ انتظار حسین 1923ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے اور میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد پاکستان آئے تو صحافت سے وابستہ ہوئے۔ افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدوں کے تراجم انتظار حسین نے کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ وہ انگریزی میں کالم لکھتے رہے جبکہ ان کا ایک ناول اور افسانوں کے 4 مجموعے انگریزی میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ بُکر پرائز وہ بین الاقوامی انعام ہے جو ہر دو سال بعد ایسے مصنفوں کو دیا جاتا ہے جو بقیدِ حیات ہوں اور جنہوں نے انگریزی میں کتابیں تحریر کی ہوں یا پھر ان کی کتابوں کے انگریزی تراجم دستیاب ہوں۔



 

اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت اور خاتون پاکستانی سائنسداں


11 فروری 2016 کے روز دو بین الاقوامی تحقیقی منصوبوں ''لائیگو'' (LIGO) اور ''وِرگو'' (Virgo) نے مشترکہ اعلان جاری کیا کہ آخرکار کششِ ثقل کی موجیں (گریوی ٹیشنل ویوز) دریافت کرلی گئی ہیں جن کی پیش گوئی لگ بھگ 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلیٹی ویٹی) میں کی تھی؛ اور اسے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت بھی قرار دیا گیا۔ اس خبر میں ایک پاکستانی نژاد خاتون سائنسداں، ڈاکٹر نرگس ماول والا کا نام بہت نمایاں تھا کیونکہ وہ ''لائیگو'' تحقیقی منصوبے سے وابستہ کلیدی ماہرین میں شامل تھیں۔ نرگس ماول والا کا تعلق کراچی کی پارسی کمیونٹی سے ہے اور وہ او لیول اور اے لیول کرنے کے بعد امریکا چلی گئیں جہاں انہوں نے 1997 میں ''میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی'' (ایم آئی ٹی) سے پی ایچ ڈی کیا۔ اس کے بعد وہ فلکیات اور طبیعیات کے مختلف تحقیقی منصوبوں سے وابستہ رہیں جن میں ''لائیگو'' بھی شامل ہے۔ نرگس ماول والا اس وقت ایم آئی ٹی میں شعبہ طبیعیات کی شریک سربراہ اور ''کرٹس اینڈ کیتھلین ماربل پروفیسر آف ایسٹروفزکس'' بھی ہیں۔ ان کی سائنسی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 2017 میں امریکا کی ''نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' کی اعزازی رکنیت بھی دے دی گئی ہے۔



 

لڑاکا طیاروں کی کم وقت میں مرمت


1965 کی پاک بھارت جنگ میں جہاں افواجِ پاکستان نے محاذ پر شجاعت کے جوہر دکھائے وہیں پاکستانی انجینئر، ماہرین اور تکنیکی عملہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ سے وابستہ زمینی عملے نے لڑاکا طیاروں کی مرمت کرنے اور انہیں اگلے معرکے کےلیے تیار کرنے میں جس مستعدی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے؛ اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔ جب پاک فضائیہ کا کوئی لڑاکا طیارہ اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ہوائی اڈے پر اُترتا تو وہاں تعینات زمینی (تکنیکی) عملہ فوری طور پر اسے ہینگر میں لے جاتا اور ضروری مرمت، ایندھن بھرنے اور اسلحے سے لیس کرنے کے بعد صرف 9 منٹ میں اگلی فضائی کارروائی کےلیے تیار کردیتا۔ اس کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا زمینی عملہ یہ ساری کارروائی مکمل کرنے میں تقریباً 1 گھنٹہ لگادیتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ نے اپنے سے کم از کم 4 گنا بڑی بھارتی فضائیہ کو دھول چٹا دی تھی؛ اور عالمی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فتح میں جہاں پاک فضائیہ کے ماہر پائلٹوں کا کردار تھا وہیں زمینی عملے کی غیرمعمولی پھرتی کو بھی نظرانداز کیا جاسکتا کیونکہ کوئی لڑاکا جتنی دیر تک مرمت، ایندھن بھرائی اور اسلحے سے لیس ہونے کے مراحل سے گزرتا ہے، اتنی دیر کےلیے وہ میدانِ جنگ سے غیر حاضر ہوتا ہے۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلی لڑاکا طیارے بھی اپنے ہر پھیرے کے بعد صرف 7 منٹ 45 سیکنڈ بعد اگلے پھیرے کےلیے تیار کردیئے جاتے تھے؛ اور اسی وجہ سے اسرائیلی فضائیہ کا پلہ اس جنگ میں بہت بھاری رہا۔


Load Next Story