ہم واقعی عجیب قوم ہیں
جو کام دنیا کے تقریباً تمام ملک دہائیوں پہلے کرچکے ہیں ہم ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ انھیں بھی کیا جائے۔
آپ چاہیں یا نہ چاہیں، صبح ہوگی اور شام ہوگی۔ ہماری تو عمر تمام ہوگی لیکن دنیا کا کارواں یونہی رواں دواں رہے گا۔ سال آئیں گے اورگزر جائیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہر سال اگست کا مہینہ اور اس کی چودہ تاریخ آتی ہے اور آکر ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ 14 اگست 2017 کا دن جب ظہور پذیر ہوکر رخصت ہوجائے گا تو پھر 14 اگست 2017 اس کائنات میں واپس پلٹ کر کبھی نہیں آئے گا۔
یہ بات بظاہر ایک سادہ حقیقت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا تو ہر سال کے دوران آنے والے ہر دن اور تاریخ کے ساتھ ہوتا ہے بھلا اسے بیان کرنے کی کیا ضرورت پڑگئی ہے؟ ضرورت اس امر کی یوں آن پڑی ہے کہ ہم لوگ بہت ''سادہ '' ہیں۔ اتنے سادہ کہ کوئی سادہ سی بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور اگر آبھی جائے تو اس وقت تک بہت بلکہ بہت زیادہ دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
گزرنے والا وقت بس گزر جاتا ہے، لاکھ جتن کرلیں وہ پلٹ کر آپ کو دیکھے گا بھی نہیں، لہٰذا عقل و فہم کا تقاضہ یہی ہے کہ وقت کی قدر کی جائے، اسے ضایع ہونے نہ دیا جائے اور جس قدر کام ممکن ہوں دستیات وقت میں کرلیے جائیں۔
ایسا نہ کر نے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟
وہی ہوتا ہے جو ہر سال 14 اگست کے دن ہوتا ہے۔
ہم ہر سال بڑے کھوکھلے انداز میں اپنا یوم آزادی مناتے ہیں۔ 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ گھروں، عمارتوں اور گاڑیوں کو قومی پرچموں سے سجایا جاتا ہے۔ ہم کراچی میں ہوں تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر جاکر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔ قوم کے رہنما بیانات جاری کرتے ہیں، جو اخبارات میں شہ سرخیوں میں شایع ہوتے ہیں۔ سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کاروبار، نجی و سرکاری دفاتر و ادارے بند رہتے ہیں۔ یہ و ہ سرگرمیاں ہیں جو ہر سال تواتر سے ہوتی ہیں۔ہم آزادی کا جشن ضرور مناتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ 70 برسوں میں ہم نے کیا کیا۔
اپنے ملک کو دولخت کیا، لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو عروج پر پہنچایا، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ کیا، آئین اور جمہوریت کی بار بار پامالی کی، قدرتی وسائل کا بے دریغ اور بے جا استعمال کیا، معاشی طاقت بننے کی بجائے ہاتھوں میں امداد کا کشکول اٹھالیا، رواداری، صبر اور تحمل کا راستہ چھوڑ کر نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہوگئے، تعلیم، صحت، سماجی انصاف اور ماحولیات کے شعبوں میں اپنے خطے کے ملکوں کے مقابلے میں کہیں پیچھے رہ گئے، جنگلات ختم کردیے، جنگلی حیات کا تقریباً خاتمہ کردیا، اپنے شہروں کو دنیا کے آلودہ ترین شہر بنادیا، صاف پانی کے ذخائر کو آلودہ کردیا، آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ کردیا۔
ہم دنیا سے الگ اور مختلف قوم ہیں، جو کام دنیا کے تقریباً تمام ملک دہائیوں پہلے کرچکے ہیں ہم ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ انھیں بھی کیا جائے۔ دنیا طے کرچکی ہے کہ سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور گزشتہ 70 برسوں سے ہم داخلی طور پر مسلسل محاذ آرائی کی کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ہم نے دنیا کے دیگر ملکوں کے برعکس آج تک اپنے بنیادی معاملات اور اصول طے ہی نہیں کیے ہیں۔ نہ جمہوری نظام کو مضبوط ہونے دیا جاتا ہے، نہ سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے اس لیے نہ مسائل سامنے آتے ہیں اور نہ ہی ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں اور نہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ ہر کام عارضی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ کل کی خبر نہیں ہوتی۔ ایسے میں قدرتی ماحول کو کس طرح اور کیونکر ترجیح حاصل ہو۔
ہم کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم نے اپنے تجربوں سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو ملک میں مزاج اور انتشار کا یہ عالم ہر گز نہ ہوتا۔ دنیا کے ملک 21 ویں صدی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ سماجی ترقی میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
غربت کا خاتمہ، روزگار، طبی سہولتوں اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو نہایت اہم تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ انسانی وسائل کو ترقی دیے بغیر معاشی ترقی کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔ سماجی مسائل کے علاوہ دنیا کو قدرتی ماحول کی تباہی، موسمیاتی تبدیلی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک ان مسائل کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں۔
دنیا میں ایسے ملک زیادہ نہیں ہیں جو پاکستان کی طرح قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہوں۔ تاہم ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سبقت کے باوجود پاکستان غربت، مفلوک الحالی اور قرضوں میں جکڑا ہوا ایسا ملک ہے جو ہر طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ اس تمام صورتحال کے اسباب پر ہمہ وقت بحث جاری رہتی ہے جو اب تک کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
ملک کی آزادی یا تخلیق کے 70 سال بعد بھی اگر اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا کہ ہماری پسماندگی کے اسباب کیا ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہم سے کم وسائل رکھنے والے متعدد ملک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہے جو یہ ہے کہ ہم تلخ حقائق کا نہ تو قبل از وقت اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی بحران میں گھر جانے کے بعد اس سے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔ یہ رویہ اور اندازِ نظر ہماری قومی نفسیات کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ہم کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہیں۔ ہماری حکومتیں، سیاسی جماعتیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا قدرتی ماحول کی تباہی کے معاشی اور سماجی نتائج اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والے بھیانک مظاہر کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کرنے میں اپنے فرض سے مکمل طور پر غافل نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ماحولیاتی مسائل سے صرف نظر بے تعلقی اور بے اعتنائی کے قومی رویے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔
یہ بات یاد رہے کہ پاکستان مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی کی زد میں آچکا ہے۔ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔ ماحولیاتی توازن بکھرنے سے موسموں کا توازن بھی بگڑ چکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کب کیا ہوجائے۔ پاکستان 2010 سے تاحال مسلسل موسمیاتی تباہیوں کا سامنا کررہا ہے۔
فرد اور قوم دونوں حوالوں سے ہم وقت کی قدر نہ کرنے کی روش بھی رکھتے ہیں۔ کتنے کام تھے جنھیں نہ جانے کب ہوجانا چاہیے تھا۔ جن مرحلوں سے ہمارے اڑوس پڑوس کے تقریباً تمام ممالک کئی عشروں پہلے گزر چکے ہیں ہم ان مرحلوں کو شروع کرنے پر غور کررہے ہیں۔ ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔ اپنے ملک کو اپنے ہاتھوں تباہ کردیا اور اس پر ندامت بھی نہیں۔ 14 اگست کو ہمیں دھاڑیں مار مار کر رونا چاہیے لیکن ہم جشن مناتے ہیں۔ ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔
یہ بات بظاہر ایک سادہ حقیقت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا تو ہر سال کے دوران آنے والے ہر دن اور تاریخ کے ساتھ ہوتا ہے بھلا اسے بیان کرنے کی کیا ضرورت پڑگئی ہے؟ ضرورت اس امر کی یوں آن پڑی ہے کہ ہم لوگ بہت ''سادہ '' ہیں۔ اتنے سادہ کہ کوئی سادہ سی بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور اگر آبھی جائے تو اس وقت تک بہت بلکہ بہت زیادہ دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
گزرنے والا وقت بس گزر جاتا ہے، لاکھ جتن کرلیں وہ پلٹ کر آپ کو دیکھے گا بھی نہیں، لہٰذا عقل و فہم کا تقاضہ یہی ہے کہ وقت کی قدر کی جائے، اسے ضایع ہونے نہ دیا جائے اور جس قدر کام ممکن ہوں دستیات وقت میں کرلیے جائیں۔
ایسا نہ کر نے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟
وہی ہوتا ہے جو ہر سال 14 اگست کے دن ہوتا ہے۔
ہم ہر سال بڑے کھوکھلے انداز میں اپنا یوم آزادی مناتے ہیں۔ 21 توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ گھروں، عمارتوں اور گاڑیوں کو قومی پرچموں سے سجایا جاتا ہے۔ ہم کراچی میں ہوں تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر جاکر پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں۔ قوم کے رہنما بیانات جاری کرتے ہیں، جو اخبارات میں شہ سرخیوں میں شایع ہوتے ہیں۔ سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کاروبار، نجی و سرکاری دفاتر و ادارے بند رہتے ہیں۔ یہ و ہ سرگرمیاں ہیں جو ہر سال تواتر سے ہوتی ہیں۔ہم آزادی کا جشن ضرور مناتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ 70 برسوں میں ہم نے کیا کیا۔
اپنے ملک کو دولخت کیا، لاکھوں انسانوں کو ہلاک کیا، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو عروج پر پہنچایا، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ کیا، آئین اور جمہوریت کی بار بار پامالی کی، قدرتی وسائل کا بے دریغ اور بے جا استعمال کیا، معاشی طاقت بننے کی بجائے ہاتھوں میں امداد کا کشکول اٹھالیا، رواداری، صبر اور تحمل کا راستہ چھوڑ کر نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہوگئے، تعلیم، صحت، سماجی انصاف اور ماحولیات کے شعبوں میں اپنے خطے کے ملکوں کے مقابلے میں کہیں پیچھے رہ گئے، جنگلات ختم کردیے، جنگلی حیات کا تقریباً خاتمہ کردیا، اپنے شہروں کو دنیا کے آلودہ ترین شہر بنادیا، صاف پانی کے ذخائر کو آلودہ کردیا، آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ کردیا۔
ہم دنیا سے الگ اور مختلف قوم ہیں، جو کام دنیا کے تقریباً تمام ملک دہائیوں پہلے کرچکے ہیں ہم ان کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ انھیں بھی کیا جائے۔ دنیا طے کرچکی ہے کہ سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور گزشتہ 70 برسوں سے ہم داخلی طور پر مسلسل محاذ آرائی کی کشمکش کی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ہم نے دنیا کے دیگر ملکوں کے برعکس آج تک اپنے بنیادی معاملات اور اصول طے ہی نہیں کیے ہیں۔ نہ جمہوری نظام کو مضبوط ہونے دیا جاتا ہے، نہ سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے اس لیے نہ مسائل سامنے آتے ہیں اور نہ ہی ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں اور نہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ ہر کام عارضی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ کل کی خبر نہیں ہوتی۔ ایسے میں قدرتی ماحول کو کس طرح اور کیونکر ترجیح حاصل ہو۔
ہم کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہم نے اپنے تجربوں سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو ملک میں مزاج اور انتشار کا یہ عالم ہر گز نہ ہوتا۔ دنیا کے ملک 21 ویں صدی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ سماجی ترقی میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
غربت کا خاتمہ، روزگار، طبی سہولتوں اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کو نہایت اہم تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ انسانی وسائل کو ترقی دیے بغیر معاشی ترقی کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے۔ سماجی مسائل کے علاوہ دنیا کو قدرتی ماحول کی تباہی، موسمیاتی تبدیلی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے زیادہ تر ممالک ان مسائل کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں۔
دنیا میں ایسے ملک زیادہ نہیں ہیں جو پاکستان کی طرح قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہوں۔ تاہم ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس سبقت کے باوجود پاکستان غربت، مفلوک الحالی اور قرضوں میں جکڑا ہوا ایسا ملک ہے جو ہر طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ اس تمام صورتحال کے اسباب پر ہمہ وقت بحث جاری رہتی ہے جو اب تک کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
ملک کی آزادی یا تخلیق کے 70 سال بعد بھی اگر اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا کہ ہماری پسماندگی کے اسباب کیا ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ہم سے کم وسائل رکھنے والے متعدد ملک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہے جو یہ ہے کہ ہم تلخ حقائق کا نہ تو قبل از وقت اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی بحران میں گھر جانے کے بعد اس سے کوئی سبق سیکھتے ہیں۔ یہ رویہ اور اندازِ نظر ہماری قومی نفسیات کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ہم کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہیں۔ ہماری حکومتیں، سیاسی جماعتیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا قدرتی ماحول کی تباہی کے معاشی اور سماجی نتائج اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والے بھیانک مظاہر کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کرنے میں اپنے فرض سے مکمل طور پر غافل نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ماحولیاتی مسائل سے صرف نظر بے تعلقی اور بے اعتنائی کے قومی رویے میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔
یہ بات یاد رہے کہ پاکستان مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی کی زد میں آچکا ہے۔ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، گلیشیرز پگھل رہے ہیں۔ ماحولیاتی توازن بکھرنے سے موسموں کا توازن بھی بگڑ چکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کب کیا ہوجائے۔ پاکستان 2010 سے تاحال مسلسل موسمیاتی تباہیوں کا سامنا کررہا ہے۔
فرد اور قوم دونوں حوالوں سے ہم وقت کی قدر نہ کرنے کی روش بھی رکھتے ہیں۔ کتنے کام تھے جنھیں نہ جانے کب ہوجانا چاہیے تھا۔ جن مرحلوں سے ہمارے اڑوس پڑوس کے تقریباً تمام ممالک کئی عشروں پہلے گزر چکے ہیں ہم ان مرحلوں کو شروع کرنے پر غور کررہے ہیں۔ ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔ اپنے ملک کو اپنے ہاتھوں تباہ کردیا اور اس پر ندامت بھی نہیں۔ 14 اگست کو ہمیں دھاڑیں مار مار کر رونا چاہیے لیکن ہم جشن مناتے ہیں۔ ہم واقعی عجیب قوم ہیں۔