طاہر القادری کی وفاداری منقسم ہے آئینی ادارے پر حملہ نظرانداز نہیں کرسکتے سپریم کورٹ
2011 میں معلوم ہوا،طاہرالقادری،الیکشن کمیشن کی 2012 میں تشکیل ہوئی،عدالت، سماعت آج پھر ہوگی
ڈاکٹر طاہر القادری منگل کو بھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے حق دعوٰی ثابت نہیں کر سکے۔
عدالت نے انھیں آج مزید تیاری کرکے دلائل دینے کی ہدایت کی ہے جبکہ دوران سماعت عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ محض پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آنے سے کوئی پاکستانی نہیں بنتا، پاکستانی وہ ہے جو دنیا کے کسی خطے، کونے یہاں تک کہ نارتھ پول پر بھی پاکستانی کے طور پر کھڑا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا پاکستان کوئی لاوارث ملک نہیں،وہ آدمی جس کا 90 ممالک میں حلقہ اثر ہو اور ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو تب ان معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے دائر پٹیشن کی سماعت کے موقع پر درخواست گزار طاہر القادری نے دہری شہریت کے بارے مفصل جواب جمع کیا اور عدالت کو بتایا کہ وہ ہمیشہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آتے ہیں ،ان کی دہری شہریت پٹیشن دائر کرنے میں رکاوٹ نہیں ،آئین وقانون انھیں عدالت سے رجوع کرنے کا حق دیتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ ایک شخص بیک وقت دو پاسپورٹ نہیں رکھ سکتا، طاہر القادری کا جواب تھا کہ کینیڈا سمیت سولہ ممالک میں دو ممالک کے پاسپورٹ رکھنے کی اجازت ہے، درخواست گزار نے کہا کہ وہ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں جانے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ سفری مشکلات سے بچ جاتے ہیں، خلیجی جنگ کے بعد پاکستانی پاسپورٹ پر سفر بہت مشکل ہو گیا ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا یہ کہے کہ کنیڈین پاسپورٹ پر ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہاآپ شیخ الاسلام ہیں دنیا بھر میں تبلیغ کرتے ہو لیکن یہ محض ویزے کا معاملہ نہیں، آپ 2004میں ملک چھوڑ کر گئے اور اب دسمبر میں واپس آکر مارچ کیا پھر دھرنا دیا اور اب ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو گئے ہو، دیکھنا ہو گا کہ ایک شخص جس نے ملکہ الزبتھ دوئم، ان کے جانشینوں اور وارثوں کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہو وہ اس ملک کے آئینی اداروں کے خلاف یہ سب کچھ کرنے کا مجاز بھی ہے یا نہیں؟ آئین میں کوئی ابہام نہیں آرٹیکل پانچ کے تحت ملک سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے لیکن اگر وفاداری کسی اور ملک کے ساتھ ہو تو پھر جائزہ لینا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ایک بار پھر مخاطب کیا اور کہا ہو سکتا ہے آپ کا موقف صحیح ہو لیکن جو شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا وہ پاکستان کی سیاست میں کیسے حصہ لے سکتا ہے، طاہر القادری نے کہا کہ آئین اور قانون ان پر قدغن نہیں لگا تا جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر ایک عام آدمی کا معاملہ ہو تب شاید یہ موقف درست ہو لیکن وہ آدمی جن کے 90 ممالک میں حلقہ اثر ہے اور ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو تب ان معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس گلزار نے کہا دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد آرٹیکل پانچ کے تحت اس ملک کے ساتھ وفاداری متنازعہ ہے اس تضاد کی موجودگی میں پٹیشن کی پزیرائی کے لیے عدالت کا اطمینان ضروری ہے، ایک شخص جو پاکستان سے باہر کنیڈین ہے انھیں پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔
طاہر القادری نے کہا وہ اول و آخر پاکستانی ہے اور کنیڈین شہریت سے ان کی پاکستا نی شناخت ختم نہیں ہوتی، ووٹ کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ اس عدالت نے میمو کیس میں ایک کینیڈین پاکستانی شہری کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کیا اور انھیں فریق بنایا ،درخواست گزار نے اپنے دفاع میں شہلا ضیاء،ملک اسد، مبشر حسن اور شاہد اورکزئی کیس کا حوالہ بھی دیا۔ چیف جسٹس نے کہا جو سوالات اٹھائے گئے ہیں اس کا جواب دیے بغیر سماعت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کچھ حقوق شہریوں کے اور کچھ افراد کے ہوتے ہیں آرٹیکل چار کا اطلاق تو غیر ملکیوں پر بھی ہو تا ہے لیکن درخواست گزار کو اپنا حق ثابت کر نا ہوتا ہے۔
طاہر القادری نے موقف اپنایا کہ ان کا کیس کو وارنٹو کا ہے اور کوئی بھی شخص کو وارنٹو میں عدالت کا دائرہ اختیار فعال کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اگر یہ دلیل ہے تو پھر کیس نہیں بنتا کیونکہ اس عدالت کے پاس کووارنٹو کا اختیار نہیں اس کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا، تاہم درخواست گزار نے موقف بدلا اور کہا کہ ان کا کیس مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کا ہے ۔ چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا آپ کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کی اطلاع کب ملی؟جس پر انھوں نے جواب دیا کہ اس بارے انھیں دو ہزار گیارہ میں معلوم ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا لیکن الیکشن کمیشن کی تشکیل تو دو ہزار بارہ میں بیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہوئی اور ترمیم سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں کی گئی،اس کے بعد کمیشن نے انتخابی فہرستیں تیار کیں،آئندہ عام انتخابات کو آزاد ،شفاف اور منصٓفانہ بنانے کے لیے بہت اقدامات کیے، ضمنی الیکشن منعقد کرائے،کسی سیاسی جماعت ،سیاستدان کو کمیشن پر اعتراض بھی نہیں،جب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تو آپ کو اچانک کیسے اعتراض لاحق ہو گیا۔ طاہر القادر ی نے کہا کہ عدالت نے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود فیصلہ دیا اور ایک سو آٹھ جج فارغ کر دیئے۔
چیف جسٹس نے کہا وہ درخواست کالے کوٹ والے لے کر آئے تھے اور ان میں سے کوئی غیر ملکی شہریت کا حامل نہیں تھا، عدالت نے اس کیس میں مارشل لاء اور اس کے اقدامات ہمیشہ کے لیے دفنا دیے اب کوئی خواہش کے باوجود مارشل لاء نہیں لگا سکتا، ان ایک سو آٹھ ججوں کی تقرری غیر آئینی چیف جسٹس نے کی تھی۔ عدالت نے درخواست گزار کو پاکستان سے باہر کسی ملک کی مثال دینے کے لیے کہا جس میں دہری شہریت کے حامل شخص نے کسی آئینی ادارے کو چیلنج کیا ہویا انھوں نے خود کبھی کینیڈا کے کسی ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہو لیکن درخواست گزار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا جب آئینی اداروں پر حملہ ہوگا تو پھر ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔
آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن نظیروں پر انحصار کر رہے ہیں ان میں انصاف تک رسائی کا معاملہ نہیں، آپ نے درخواست 184 تھری کے تحت دی جو کو وارنٹو میں نہیں آتی ،کو وارنٹو ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، آپ کو کہیں اور جانا پڑے گا، آپ قانون کے پروفیسر ہیں، بہتر جانتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 5 پاکستان سے وفاداری کا کہتا ہے، آپ آئینی ادارے پر حملہ اور سیاست کریں گے تو پھر آپ کی وفاداری پرسوالات اٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ عام آدمی نہیں، شیخ الاسلام ہیں،90 ممالک میں دینی تعلیم دینے جاتے ہیں، جب آپ باہر سفر کرتے ہیں تو بطور کینیڈین شہری کرتے ہیں، پاکستانی وہ ہوتا ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے، کونے یا نارتھ پول پر بھی بطور پاکستانی کھڑا ہو، ایک غیرملکی کو سیاسی نظام پلٹنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آپ دسمبر میں پاکستان آئے ہیں اور فروری میں الیکشن کمیشن تحلیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسے شخص کو آئینی اداروں میں مداخلت کی اجازت دیں جس کی وفاداری منقسم ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیاکہ وہ کینیڈاکب جارہے ہیں ؟ اس پرطاہرالقادری نے کہاکہ وہ ادھرہی ہیں کہیں نہیں جارہے، پاکستانی سپوت ہیں اور جب چاہیں کینیڈا کی شہریت ترک کر سکتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص اہل خانہ سے ملنے پاکستان آئے، گھومے پھرے اور واپس چلا جائے، کیا وہ شخص ملک کی سیاست یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے؟ ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے پورا ملک متاثر ہو۔
بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کہا ہے کہ ملک میں انتخابات کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو مزید مستحکم کریں، ملک کا الیکشن کمیشن کافی غور و غوص کے بعد تشکیل پایا ہے اور اس کو عدالت خراب نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انھیں تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کی تاریخ ہی معلوم نہیں ہے۔ ثنا نیوز کے مطابق جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ سیاسی دبائو بڑھانے کے لیے آئے ہیں آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لگتا ہے آپ کسی سیاسی ایجنڈے پر پاکستان آئے ہیں آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی وفاداری منقسم ہے اس لیے اداروں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے سماعت (آج) بدھ تک کیلیے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کووارنٹو رٹ ایک ایسی درخواست ہوتی ہے جس میں درخواست گزار سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کس اختیار کے تحت اپنی رٹ دائر کر رہے ہیں۔
عدالت نے انھیں آج مزید تیاری کرکے دلائل دینے کی ہدایت کی ہے جبکہ دوران سماعت عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ محض پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آنے سے کوئی پاکستانی نہیں بنتا، پاکستانی وہ ہے جو دنیا کے کسی خطے، کونے یہاں تک کہ نارتھ پول پر بھی پاکستانی کے طور پر کھڑا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا پاکستان کوئی لاوارث ملک نہیں،وہ آدمی جس کا 90 ممالک میں حلقہ اثر ہو اور ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو تب ان معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے دائر پٹیشن کی سماعت کے موقع پر درخواست گزار طاہر القادری نے دہری شہریت کے بارے مفصل جواب جمع کیا اور عدالت کو بتایا کہ وہ ہمیشہ پاکستانی پاسپورٹ پر یہاں آتے ہیں ،ان کی دہری شہریت پٹیشن دائر کرنے میں رکاوٹ نہیں ،آئین وقانون انھیں عدالت سے رجوع کرنے کا حق دیتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا کہ ایک شخص بیک وقت دو پاسپورٹ نہیں رکھ سکتا، طاہر القادری کا جواب تھا کہ کینیڈا سمیت سولہ ممالک میں دو ممالک کے پاسپورٹ رکھنے کی اجازت ہے، درخواست گزار نے کہا کہ وہ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں جانے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ سفری مشکلات سے بچ جاتے ہیں، خلیجی جنگ کے بعد پاکستانی پاسپورٹ پر سفر بہت مشکل ہو گیا ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا یہ کہے کہ کنیڈین پاسپورٹ پر ویزہ آسانی سے مل جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہاآپ شیخ الاسلام ہیں دنیا بھر میں تبلیغ کرتے ہو لیکن یہ محض ویزے کا معاملہ نہیں، آپ 2004میں ملک چھوڑ کر گئے اور اب دسمبر میں واپس آکر مارچ کیا پھر دھرنا دیا اور اب ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو گئے ہو، دیکھنا ہو گا کہ ایک شخص جس نے ملکہ الزبتھ دوئم، ان کے جانشینوں اور وارثوں کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہو وہ اس ملک کے آئینی اداروں کے خلاف یہ سب کچھ کرنے کا مجاز بھی ہے یا نہیں؟ آئین میں کوئی ابہام نہیں آرٹیکل پانچ کے تحت ملک سے وفاداری ہر شہری پر لازم ہے لیکن اگر وفاداری کسی اور ملک کے ساتھ ہو تو پھر جائزہ لینا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ایک بار پھر مخاطب کیا اور کہا ہو سکتا ہے آپ کا موقف صحیح ہو لیکن جو شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا وہ پاکستان کی سیاست میں کیسے حصہ لے سکتا ہے، طاہر القادری نے کہا کہ آئین اور قانون ان پر قدغن نہیں لگا تا جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر ایک عام آدمی کا معاملہ ہو تب شاید یہ موقف درست ہو لیکن وہ آدمی جن کے 90 ممالک میں حلقہ اثر ہے اور ایک آئینی ادارے پر حملہ آور ہو تب ان معاملات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس گلزار نے کہا دوسرے ملک سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد آرٹیکل پانچ کے تحت اس ملک کے ساتھ وفاداری متنازعہ ہے اس تضاد کی موجودگی میں پٹیشن کی پزیرائی کے لیے عدالت کا اطمینان ضروری ہے، ایک شخص جو پاکستان سے باہر کنیڈین ہے انھیں پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔
طاہر القادری نے کہا وہ اول و آخر پاکستانی ہے اور کنیڈین شہریت سے ان کی پاکستا نی شناخت ختم نہیں ہوتی، ووٹ کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے موقف اپنایا کہ اس عدالت نے میمو کیس میں ایک کینیڈین پاکستانی شہری کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کیا اور انھیں فریق بنایا ،درخواست گزار نے اپنے دفاع میں شہلا ضیاء،ملک اسد، مبشر حسن اور شاہد اورکزئی کیس کا حوالہ بھی دیا۔ چیف جسٹس نے کہا جو سوالات اٹھائے گئے ہیں اس کا جواب دیے بغیر سماعت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کچھ حقوق شہریوں کے اور کچھ افراد کے ہوتے ہیں آرٹیکل چار کا اطلاق تو غیر ملکیوں پر بھی ہو تا ہے لیکن درخواست گزار کو اپنا حق ثابت کر نا ہوتا ہے۔
طاہر القادری نے موقف اپنایا کہ ان کا کیس کو وارنٹو کا ہے اور کوئی بھی شخص کو وارنٹو میں عدالت کا دائرہ اختیار فعال کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اگر یہ دلیل ہے تو پھر کیس نہیں بنتا کیونکہ اس عدالت کے پاس کووارنٹو کا اختیار نہیں اس کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا، تاہم درخواست گزار نے موقف بدلا اور کہا کہ ان کا کیس مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کا ہے ۔ چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا آپ کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کی اطلاع کب ملی؟جس پر انھوں نے جواب دیا کہ اس بارے انھیں دو ہزار گیارہ میں معلوم ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا لیکن الیکشن کمیشن کی تشکیل تو دو ہزار بارہ میں بیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہوئی اور ترمیم سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں کی گئی،اس کے بعد کمیشن نے انتخابی فہرستیں تیار کیں،آئندہ عام انتخابات کو آزاد ،شفاف اور منصٓفانہ بنانے کے لیے بہت اقدامات کیے، ضمنی الیکشن منعقد کرائے،کسی سیاسی جماعت ،سیاستدان کو کمیشن پر اعتراض بھی نہیں،جب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تو آپ کو اچانک کیسے اعتراض لاحق ہو گیا۔ طاہر القادر ی نے کہا کہ عدالت نے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود فیصلہ دیا اور ایک سو آٹھ جج فارغ کر دیئے۔
چیف جسٹس نے کہا وہ درخواست کالے کوٹ والے لے کر آئے تھے اور ان میں سے کوئی غیر ملکی شہریت کا حامل نہیں تھا، عدالت نے اس کیس میں مارشل لاء اور اس کے اقدامات ہمیشہ کے لیے دفنا دیے اب کوئی خواہش کے باوجود مارشل لاء نہیں لگا سکتا، ان ایک سو آٹھ ججوں کی تقرری غیر آئینی چیف جسٹس نے کی تھی۔ عدالت نے درخواست گزار کو پاکستان سے باہر کسی ملک کی مثال دینے کے لیے کہا جس میں دہری شہریت کے حامل شخص نے کسی آئینی ادارے کو چیلنج کیا ہویا انھوں نے خود کبھی کینیڈا کے کسی ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہو لیکن درخواست گزار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا جب آئینی اداروں پر حملہ ہوگا تو پھر ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔
آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن نظیروں پر انحصار کر رہے ہیں ان میں انصاف تک رسائی کا معاملہ نہیں، آپ نے درخواست 184 تھری کے تحت دی جو کو وارنٹو میں نہیں آتی ،کو وارنٹو ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، آپ کو کہیں اور جانا پڑے گا، آپ قانون کے پروفیسر ہیں، بہتر جانتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 5 پاکستان سے وفاداری کا کہتا ہے، آپ آئینی ادارے پر حملہ اور سیاست کریں گے تو پھر آپ کی وفاداری پرسوالات اٹھیں گے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ عام آدمی نہیں، شیخ الاسلام ہیں،90 ممالک میں دینی تعلیم دینے جاتے ہیں، جب آپ باہر سفر کرتے ہیں تو بطور کینیڈین شہری کرتے ہیں، پاکستانی وہ ہوتا ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے، کونے یا نارتھ پول پر بھی بطور پاکستانی کھڑا ہو، ایک غیرملکی کو سیاسی نظام پلٹنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آپ دسمبر میں پاکستان آئے ہیں اور فروری میں الیکشن کمیشن تحلیل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسے شخص کو آئینی اداروں میں مداخلت کی اجازت دیں جس کی وفاداری منقسم ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسارکیاکہ وہ کینیڈاکب جارہے ہیں ؟ اس پرطاہرالقادری نے کہاکہ وہ ادھرہی ہیں کہیں نہیں جارہے، پاکستانی سپوت ہیں اور جب چاہیں کینیڈا کی شہریت ترک کر سکتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص اہل خانہ سے ملنے پاکستان آئے، گھومے پھرے اور واپس چلا جائے، کیا وہ شخص ملک کی سیاست یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے؟ ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس سے پورا ملک متاثر ہو۔
بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کہا ہے کہ ملک میں انتخابات کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جمہوریت کو مزید مستحکم کریں، ملک کا الیکشن کمیشن کافی غور و غوص کے بعد تشکیل پایا ہے اور اس کو عدالت خراب نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انھیں تو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کی تاریخ ہی معلوم نہیں ہے۔ ثنا نیوز کے مطابق جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ سیاسی دبائو بڑھانے کے لیے آئے ہیں آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لگتا ہے آپ کسی سیاسی ایجنڈے پر پاکستان آئے ہیں آپ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی وفاداری منقسم ہے اس لیے اداروں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے سماعت (آج) بدھ تک کیلیے ملتوی کر دی۔ واضح رہے کووارنٹو رٹ ایک ایسی درخواست ہوتی ہے جس میں درخواست گزار سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کس اختیار کے تحت اپنی رٹ دائر کر رہے ہیں۔