سب سے زیادہ غلام لیکن پھر بھی ’’میرا بھارت مہان‘‘
سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں سب سے زیادہ لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے اور لڑکیوں سے جسم فروشی عام کروائی جاتی ہے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار بھارت وہ ملک ہے جہاں اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ غلام ہیں جن کی تعداد 18,354,700 ہے۔ زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان غلاموں میں بڑی تعداد ایسی عورتوں کی ہے جنہیں غلام بنانے کے بعد جسم فروشی کا مکروہ دھندا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بھارت میں غلامی کے حوالے سے یہ تمام باتیں آج کل عالمی میڈیا میں گردش کررہی ہیں لیکن وہاں کے نام نہاد ''آزاد میڈیا'' نے ان پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چند روز پہلے یہ خبر آئی تھی کہ جسم فروشی کرنے والی 29 سالہ خاتون نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام (ہندی زبان میں) ایک خط میں اپنی فریاد لکھ بھیجی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جب وہ صرف 17 سال کی تھی تو اسے جنسی کنیز کے طور پر ممبئی کے ایک قحبہ خانے پہنچادیا گیا جہاں اس سے 6 سال تک جسم فروشی کروائی جاتی رہی۔
''تاوی'' نامی خاتون نے (جو غالباً فرضی نام ہے) مودی سرکار سے التجا کی ہے کہ وہ عصمت فروشی کے مراکز کی جہنم میں پھنسی ہوئی سینکڑوں خواتین کو آزادی دلانے کےلیے مدد کریں۔
ایک عالمی خبر رساں ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں تاوی نے بتایا کہ اسے کچھ مدد ملی اور بالآخر وہ عصمت فروشی کی اس دلدل سے نکنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اب بھی اس جیسی بہت سی لڑکیاں یہ عذاب جھیل رہی ہیں؛ اور انہیں بھی مدد کی شدید ضرورت ہے۔
''گلوبل سلیوری انڈیکس'' کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ 4 کروڑ 60 لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سی لڑکیوں اور عورتوں سے زبردستی جسم فروشی کرائی جا رہی ہے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ جبری مشقت پر مجبور ہیں۔
عبرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ''میرا بھارت مہان'' کی مالا جپنے والی بھارتی حکومت کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں اور اس وقت تقریباً 2 کروڑ افراد بھارت میں غلاموں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں غلاموں کی 40 فیصد سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ بھارت انسانی غلامی میں سرِفہرست ہے۔
بھارت میں غلام بنائے جانے والے اکثر لوگوں کا تعلق غریب اور دیہاتی گھرانوں سے ہے۔ انہیں اچھی ملازمت یا شادی کا جھانسا دے کر پھنسایا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایسے بیشتر افراد گھریلو ملازموں، بیت الخلا کی صفائی کرنے والوں اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں مزدوروں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں البتہ ان میں شامل زیادہ تر نوجوان لڑکیوں کو جنسی غلام کے طور پر فروخت کرکے جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ بھارت خواتین کی کتنی تعداد جنسی غلاموں کی زندگی بسر کررہی ہیں لیکن ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں ان کی تعداد دو کروڑ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ ان کی نصف تعداد 18 سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کی ہے۔
دوسری جانب بھارت میں بچوں کی بڑی تعداد بھی غلام بنائی جاتی ہے؛ اور اس میں سے زیادہ تر ٹریفک سگنلوں پر بھیک مانگتے ہوئے، فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہیں صرف کھانے پینے کےلیے اتنا دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہ کر غلامی کرسکیں۔
بھارت میں غلامی کے حوالے سے یہ تمام باتیں آج کل عالمی میڈیا میں گردش کررہی ہیں لیکن وہاں کے نام نہاد ''آزاد میڈیا'' نے ان پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
چند روز پہلے یہ خبر آئی تھی کہ جسم فروشی کرنے والی 29 سالہ خاتون نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام (ہندی زبان میں) ایک خط میں اپنی فریاد لکھ بھیجی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ جب وہ صرف 17 سال کی تھی تو اسے جنسی کنیز کے طور پر ممبئی کے ایک قحبہ خانے پہنچادیا گیا جہاں اس سے 6 سال تک جسم فروشی کروائی جاتی رہی۔
''تاوی'' نامی خاتون نے (جو غالباً فرضی نام ہے) مودی سرکار سے التجا کی ہے کہ وہ عصمت فروشی کے مراکز کی جہنم میں پھنسی ہوئی سینکڑوں خواتین کو آزادی دلانے کےلیے مدد کریں۔
ایک عالمی خبر رساں ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں تاوی نے بتایا کہ اسے کچھ مدد ملی اور بالآخر وہ عصمت فروشی کی اس دلدل سے نکنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اب بھی اس جیسی بہت سی لڑکیاں یہ عذاب جھیل رہی ہیں؛ اور انہیں بھی مدد کی شدید ضرورت ہے۔
''گلوبل سلیوری انڈیکس'' کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ 4 کروڑ 60 لاکھ افراد غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سی لڑکیوں اور عورتوں سے زبردستی جسم فروشی کرائی جا رہی ہے جبکہ بڑی تعداد میں لوگ جبری مشقت پر مجبور ہیں۔
عبرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ''میرا بھارت مہان'' کی مالا جپنے والی بھارتی حکومت کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں اور اس وقت تقریباً 2 کروڑ افراد بھارت میں غلاموں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس طرح دنیا بھر میں غلاموں کی 40 فیصد سے بھی زیادہ تعداد کے ساتھ بھارت انسانی غلامی میں سرِفہرست ہے۔
بھارت میں غلام بنائے جانے والے اکثر لوگوں کا تعلق غریب اور دیہاتی گھرانوں سے ہے۔ انہیں اچھی ملازمت یا شادی کا جھانسا دے کر پھنسایا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایسے بیشتر افراد گھریلو ملازموں، بیت الخلا کی صفائی کرنے والوں اور ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں مزدوروں کی حیثیت سے کام کررہے ہیں البتہ ان میں شامل زیادہ تر نوجوان لڑکیوں کو جنسی غلام کے طور پر فروخت کرکے جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ بھارت خواتین کی کتنی تعداد جنسی غلاموں کی زندگی بسر کررہی ہیں لیکن ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں ان کی تعداد دو کروڑ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ ان کی نصف تعداد 18 سال یا اس سے بھی کم عمر لڑکیوں کی ہے۔
دوسری جانب بھارت میں بچوں کی بڑی تعداد بھی غلام بنائی جاتی ہے؛ اور اس میں سے زیادہ تر ٹریفک سگنلوں پر بھیک مانگتے ہوئے، فیکٹریوں اور کھیتوں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہیں صرف کھانے پینے کےلیے اتنا دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہ کر غلامی کرسکیں۔