ملک کا سیاسی منظر نامہ
سابق وزیراعظم نوازشریف کے قافلے میں شامل گاڑی کی ٹکر سے 12 سالہ بچہ کی ہلاکت درد انگیز ثابت ہوئی
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے چار روزہ ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ملکی سیاست، اس کے ماضی اور عدالتی فیصلہ کے تناظر میں اظہار خیال کیا ہے اور اسلام آباد سے جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور لاہور سمیت مختلف شہروں اور چوراہوں پر پر جوش اور زبردست استقبال دیکھنے میں آیا۔
سیاسی مبصرین اسے نواز شریف اور ن لیگ کی استقامت، بقا اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کا جارحانہ اور دور رس اثرات و نتائج پر مبنی اقدام قرار دے رہے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں'' کی حکمت عملی سے قریب تر ہے، تاہم اب دیکھنا یہ ہے اس ریلی سے پیدا ہونے والی ممکنہ جوابی صورتحال کا ن لیگ کس طرح سامنا کریگی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کا سابق وزیراعظم کی تقاریر پر کیا رد عمل سامنے آتا ہے، پی پی اور پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے ریلی کے مضمرات کے حوالہ سے اپنے اندیشوں اور ملکی سیاسی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
بادی النظر میں دو سیناریو ابھرتے ہوئے سماجی اور مین اسٹریم سیاسی دھارے کی توجہ کا مرکز بنتے محسوس ہو رہے ہیں، جس کے ایک طرف سابق وزیراعظم نواز شریف کی جذبات سے لبریز تقریریں ہیں جس میں انھوں نے (عدلیہ کا نام لیے بغیر) کہا کہ قوم آپ کے فیصلے کو نہیں مانتی، سارے پاکستان کی یہی آواز ہے، ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس نہیں ہو سکتی، اصل فیصلہ اور حق حاکمیت عوام کا ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
ریلی کے گھٹتے بڑھتے شرکا، ن لیگی کارکنوں کے جوش و خروش اور سینئر قیادت کی شمولیت اور عدم شمولیت پر شبہات و قیاس آرائیاں بھی میڈیا مبصرین اور اینکرز کے تبصروں کا حصہ بنیں، علاوہ ازیں ایک سابق وزیراعظم کی بے بسی، ان سے ہونے والے سلوک اور نااہلیت کی بنیاد بننے والے اقامہ اور غیر وصول شدہ تنخواہ کی گونج سے ہم آہنگ برہمی بھی دیکھی گئی، جس کی بنیاد پر غالباً ایک موقف انتخابات میں ووٹرز کی اہمیت اور ووٹ کی بے حرمتی کا بھی سنائی دیا ہے جب کہ ریلی کے دوران وقوع پذیر ہونے والی ''عوامی عدالتوں'' کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے متفقہ فیصلہ کا تقابل اسی عوامی عدالت کے فیصلہ سے کیا گیا ہے۔
اب لازم ہے کہ نواز شریف کو جواب کا انتظار بھی کرنا چاہیے، کیونکہ اس تقابل کی قانونی، آئینی اور عدالتی حیثیت تو وہی ادارے بتائیں گے جو معروضی صورتحال سے الگ نہیں، اور ریلی کے جواز پر اپنا مدعا بھی دے سکتے ہیں، لیکن جو چیز قومی اعصاب کو جھنجوڑ رہی ہے اس کا احساس سیاست دانوں کو بلا تاخیر ہونا چاہیے۔ قوم ایک بڑی اعصابی اور سیاسی آزمائش سے گزر رہی ہے جس کا ہر دن عام پاکستانی کے لیے ''کل کیا ہوگا'' کے سلگتے سوال سے جڑا ہوا ہے۔
ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا، مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو انتخابی میدان میں اتار دیا ہے، میڈیا کے مطابق آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد سے ہو گا، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں کی کثیر تعداد کے ہمراہ الیکشن کمیشن آفس میں بیگم کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔
ریلی میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے قافلے میں شامل گاڑی کی ٹکر سے 12 سالہ بچہ کی ہلاکت درد انگیز ثابت ہوئی، تاہم سابق وزیراعظم نے متوفی بچہ کے گھر جانے کا اعلان اور ان کے لواحقین کے لیے ہر ممکن امداد کا وعدہ بھی کیا ہے۔ نواز شریف کو غمزدہ خاندان سے ضرور ملنا چاہیے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ماحول جمہوری اور قانونی حدود سے ماورا نہ جائے، ملک کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ریلی کے دوران شہروں کے مختلف مقامات پر تقاریر سے پیدا شدہ سیاسی ماحول کو کشیدگی اور تناؤ سے بچانے کی تدابیر تقاضائے وقت ہے، اگرچہ ریلی کی وجہ سے سیاسی کشمکش میں شدت کے آثار سے ماحول خاصا گرم ہے، اخباری بیانات کا تانتا بندھا ہوا ہے، اپوزیشن رہنما اپنا رد عمل دے رہے ہیں، تاہم یہ حیران کن مگر خوش آئند اور جمہوریت و ملکی مفاد میں بڑی پیشرفت ہو گی اگر سیاسی قیادتوں نے سنجیدگی سے صورتحال کو ڈرامائی موڑ دیکر امکانی ٹکراؤ اور اداروں کے حوالہ سے سڑکوں پر ہونے والی بحث کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے پہلے ہی روک لیا تو اسے بریک تھرو کہا جائے گا۔
ڈیڈ لاک یا تصادم سے اجتناب سیاسی جیت ہو گی اور ہر محب وطن شہری اس کا خیر مقدم کریگا۔ نواز شریف اور ن لیگی قیادت کے ایک حصہ نے بظاہر اپنی سیاسی کشتیاں جلانے کا تاثر ابھارا ہے تاہم یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اس کے مضمرات اور نتائج ملکی سیاست اور جمہوری عمل پر کیا مرتب ہونگے، بہر حال تمام سیاسی قیادتوں کو اس کا حقیقی ادراک ہے یا شاید کسی معجزہ کا انتظار جس کے نتیجہ میں ملکی سیاست میں تدبر اور تحمل کی کوئی ایسی صائب لہر ابھرے کہ سیاسی جماعتوں میں نتیجہ خیز مکالمہ کی راہ استوار ہو جائے۔
سیاسی مبصرین اسے نواز شریف اور ن لیگ کی استقامت، بقا اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کا جارحانہ اور دور رس اثرات و نتائج پر مبنی اقدام قرار دے رہے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں'' کی حکمت عملی سے قریب تر ہے، تاہم اب دیکھنا یہ ہے اس ریلی سے پیدا ہونے والی ممکنہ جوابی صورتحال کا ن لیگ کس طرح سامنا کریگی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ریاستی اداروں کا سابق وزیراعظم کی تقاریر پر کیا رد عمل سامنے آتا ہے، پی پی اور پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے ریلی کے مضمرات کے حوالہ سے اپنے اندیشوں اور ملکی سیاسی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
بادی النظر میں دو سیناریو ابھرتے ہوئے سماجی اور مین اسٹریم سیاسی دھارے کی توجہ کا مرکز بنتے محسوس ہو رہے ہیں، جس کے ایک طرف سابق وزیراعظم نواز شریف کی جذبات سے لبریز تقریریں ہیں جس میں انھوں نے (عدلیہ کا نام لیے بغیر) کہا کہ قوم آپ کے فیصلے کو نہیں مانتی، سارے پاکستان کی یہی آواز ہے، ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس نہیں ہو سکتی، اصل فیصلہ اور حق حاکمیت عوام کا ہے، اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔
ریلی کے گھٹتے بڑھتے شرکا، ن لیگی کارکنوں کے جوش و خروش اور سینئر قیادت کی شمولیت اور عدم شمولیت پر شبہات و قیاس آرائیاں بھی میڈیا مبصرین اور اینکرز کے تبصروں کا حصہ بنیں، علاوہ ازیں ایک سابق وزیراعظم کی بے بسی، ان سے ہونے والے سلوک اور نااہلیت کی بنیاد بننے والے اقامہ اور غیر وصول شدہ تنخواہ کی گونج سے ہم آہنگ برہمی بھی دیکھی گئی، جس کی بنیاد پر غالباً ایک موقف انتخابات میں ووٹرز کی اہمیت اور ووٹ کی بے حرمتی کا بھی سنائی دیا ہے جب کہ ریلی کے دوران وقوع پذیر ہونے والی ''عوامی عدالتوں'' کے حوالہ سے عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے متفقہ فیصلہ کا تقابل اسی عوامی عدالت کے فیصلہ سے کیا گیا ہے۔
اب لازم ہے کہ نواز شریف کو جواب کا انتظار بھی کرنا چاہیے، کیونکہ اس تقابل کی قانونی، آئینی اور عدالتی حیثیت تو وہی ادارے بتائیں گے جو معروضی صورتحال سے الگ نہیں، اور ریلی کے جواز پر اپنا مدعا بھی دے سکتے ہیں، لیکن جو چیز قومی اعصاب کو جھنجوڑ رہی ہے اس کا احساس سیاست دانوں کو بلا تاخیر ہونا چاہیے۔ قوم ایک بڑی اعصابی اور سیاسی آزمائش سے گزر رہی ہے جس کا ہر دن عام پاکستانی کے لیے ''کل کیا ہوگا'' کے سلگتے سوال سے جڑا ہوا ہے۔
ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی قومی اسمبلی کی نشست این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا، مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو انتخابی میدان میں اتار دیا ہے، میڈیا کے مطابق آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد سے ہو گا، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں کی کثیر تعداد کے ہمراہ الیکشن کمیشن آفس میں بیگم کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے۔
ریلی میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے قافلے میں شامل گاڑی کی ٹکر سے 12 سالہ بچہ کی ہلاکت درد انگیز ثابت ہوئی، تاہم سابق وزیراعظم نے متوفی بچہ کے گھر جانے کا اعلان اور ان کے لواحقین کے لیے ہر ممکن امداد کا وعدہ بھی کیا ہے۔ نواز شریف کو غمزدہ خاندان سے ضرور ملنا چاہیے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ماحول جمہوری اور قانونی حدود سے ماورا نہ جائے، ملک کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ریلی کے دوران شہروں کے مختلف مقامات پر تقاریر سے پیدا شدہ سیاسی ماحول کو کشیدگی اور تناؤ سے بچانے کی تدابیر تقاضائے وقت ہے، اگرچہ ریلی کی وجہ سے سیاسی کشمکش میں شدت کے آثار سے ماحول خاصا گرم ہے، اخباری بیانات کا تانتا بندھا ہوا ہے، اپوزیشن رہنما اپنا رد عمل دے رہے ہیں، تاہم یہ حیران کن مگر خوش آئند اور جمہوریت و ملکی مفاد میں بڑی پیشرفت ہو گی اگر سیاسی قیادتوں نے سنجیدگی سے صورتحال کو ڈرامائی موڑ دیکر امکانی ٹکراؤ اور اداروں کے حوالہ سے سڑکوں پر ہونے والی بحث کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے پہلے ہی روک لیا تو اسے بریک تھرو کہا جائے گا۔
ڈیڈ لاک یا تصادم سے اجتناب سیاسی جیت ہو گی اور ہر محب وطن شہری اس کا خیر مقدم کریگا۔ نواز شریف اور ن لیگی قیادت کے ایک حصہ نے بظاہر اپنی سیاسی کشتیاں جلانے کا تاثر ابھارا ہے تاہم یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اس کے مضمرات اور نتائج ملکی سیاست اور جمہوری عمل پر کیا مرتب ہونگے، بہر حال تمام سیاسی قیادتوں کو اس کا حقیقی ادراک ہے یا شاید کسی معجزہ کا انتظار جس کے نتیجہ میں ملکی سیاست میں تدبر اور تحمل کی کوئی ایسی صائب لہر ابھرے کہ سیاسی جماعتوں میں نتیجہ خیز مکالمہ کی راہ استوار ہو جائے۔