سپریم کورٹ نے ڈاکٹرطاہر القادری کی درخواست خارج کردی
چیف جسٹس کی وفاداری بھی مشکوک ہے کیوں کہ انہوں نے جمہوریت کے تحت نہیں پرویز مشرف سے حلف لیا تھا،طاہر القادری
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے اپنے مختصرحکم نامے میں کہا کہ طاہر القادری اپنا موقف اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے اور وہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکتے۔
دوارن سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج فیصلہ کریں گے کہ آپ کا حق دعویٰ ہے یا نہیں جواب میں طاہرالقادری نے بتایا کہ انہوں نے 2005 میں کینیڈا کی شہریت حاصل کی، انہوں نے کہا کہ لگتا ہے میری دہری شہریت اووفاداری کا ٹرائل کیا جارہا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ انہیں درخواست دینے کا حق ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے کینیڈا کا حلف لیا ہے، سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ حلف کس کا لینا ہوتا ہے ہم سب صرف اللہ کے محکم ہیں۔
اس موقع پر طاہر القادری نےعدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی وفاداری بھی مشکوک ہے انہوں نے اس وقت جمہوریت کے تحت نہیں پرویزمشرف سے حلف لیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ ملکہ برطانیہ اور مشرف کے حلف میں کیا فرق ہے، جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ طاہر القادری کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2005 میں صدر کون تھا اور جسٹس صدر سے ہی حلف لیتا ہے ، انہوں نے کہا کہ آپ کےطرزعمل کےخلاف کارروائی ہوگی عدالت کااحترام ملحوظ رکھاجائے۔
طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ آپ جو ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں وہ انہیں سمجھتے ہیں جس پر عدالت نے طاہر القادری کو روسٹرم سے اترنے کا حکم دیا، اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیئے کہ طاہر القادری درخواست دینے کا حق رکھتے ہیں، عوامی نوعیت کا معاملہ کوئی بھی عدالت میں لاسکتا ہے۔
اس موقع پر وکیل الیکشن کمیشن منیر پراچہ نے کہا کہ طاہر القادری نے 23 دسمبر کو الیکشن 2 سال کے لئے ملتوی کرنے کا کہا، جس پر سپریم کورٹ نے 23 دسمبر 2012 کی طاہرالقادری کی تقریر کا متن اور ریکارڈنگ طلب کرلی، جواب میں طاہر القادری نے موقف اختیار کیا کہ میں نے الیکشن کے التوا کی کوئی بات نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو حوالے سے کوئی بھی سماعت کے دوران نہیں ہوئی، پہلے دن 2 منٹ کا وقت دیا گیا پھر مزید 2 دن کی سماعت ہوئی جس میں میں نے عدالت کے سامنے 6دلائل دیئے اور مجھے 2 دن میں اصل پٹیشن کا ایک لفظ بھی پڑھنے نہیں دیا گیا اور میری دہری شہریت پر سوالات کئے گئے، دہری شہرت ہونے کی وجہ سے میری اور لاکھوں افراد کی وفاداری پر حملہ کر کے اسے مشکوک بنا دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے غیر ملکی کہہ کر توہین کی گئی ہے، آج کا فیصلہ سیاسی ہے آئین مجھے حق سے محروم نہیں کرتا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے اپنے مختصرحکم نامے میں کہا کہ طاہر القادری اپنا موقف اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے اور وہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکتے۔
دوارن سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج فیصلہ کریں گے کہ آپ کا حق دعویٰ ہے یا نہیں جواب میں طاہرالقادری نے بتایا کہ انہوں نے 2005 میں کینیڈا کی شہریت حاصل کی، انہوں نے کہا کہ لگتا ہے میری دہری شہریت اووفاداری کا ٹرائل کیا جارہا ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ انہیں درخواست دینے کا حق ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے کینیڈا کا حلف لیا ہے، سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ حلف کس کا لینا ہوتا ہے ہم سب صرف اللہ کے محکم ہیں۔
اس موقع پر طاہر القادری نےعدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی وفاداری بھی مشکوک ہے انہوں نے اس وقت جمہوریت کے تحت نہیں پرویزمشرف سے حلف لیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ ملکہ برطانیہ اور مشرف کے حلف میں کیا فرق ہے، جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ طاہر القادری کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2005 میں صدر کون تھا اور جسٹس صدر سے ہی حلف لیتا ہے ، انہوں نے کہا کہ آپ کےطرزعمل کےخلاف کارروائی ہوگی عدالت کااحترام ملحوظ رکھاجائے۔
طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ آپ جو ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں وہ انہیں سمجھتے ہیں جس پر عدالت نے طاہر القادری کو روسٹرم سے اترنے کا حکم دیا، اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیئے کہ طاہر القادری درخواست دینے کا حق رکھتے ہیں، عوامی نوعیت کا معاملہ کوئی بھی عدالت میں لاسکتا ہے۔
اس موقع پر وکیل الیکشن کمیشن منیر پراچہ نے کہا کہ طاہر القادری نے 23 دسمبر کو الیکشن 2 سال کے لئے ملتوی کرنے کا کہا، جس پر سپریم کورٹ نے 23 دسمبر 2012 کی طاہرالقادری کی تقریر کا متن اور ریکارڈنگ طلب کرلی، جواب میں طاہر القادری نے موقف اختیار کیا کہ میں نے الیکشن کے التوا کی کوئی بات نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو حوالے سے کوئی بھی سماعت کے دوران نہیں ہوئی، پہلے دن 2 منٹ کا وقت دیا گیا پھر مزید 2 دن کی سماعت ہوئی جس میں میں نے عدالت کے سامنے 6دلائل دیئے اور مجھے 2 دن میں اصل پٹیشن کا ایک لفظ بھی پڑھنے نہیں دیا گیا اور میری دہری شہریت پر سوالات کئے گئے، دہری شہرت ہونے کی وجہ سے میری اور لاکھوں افراد کی وفاداری پر حملہ کر کے اسے مشکوک بنا دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے غیر ملکی کہہ کر توہین کی گئی ہے، آج کا فیصلہ سیاسی ہے آئین مجھے حق سے محروم نہیں کرتا۔