ترقی کا آغاز کراچی سے کیجیے
جب تک حکمرانی کا انداز نہیں بدلے گا عوامی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے لوگ آگے نہیں آئیں گے
جتنے مسائل پاکستان کے شہر کراچی کے ہیں، اتنے مسائل کسی اور شہر کے نہیں۔ جب کہ کراچی واقعی منی پاکستان ہے، جہاں ہر رنگ و نسل، زبان و لسان کے لوگ آباد ہیں۔
اس شہر میں جنرل ضیاالحق کے دور میں آنے والے افغانی، جن کی تیسری نسل اسی شہر میں پیدا ہورہی ہے، اس نے اس شہر کا توازن بگاڑ دیا اور کراچی کے محکمے جو بہت بہترین کام کرتے تھے، جن میں کے ڈی اے، ٹاؤن پلاننگ، کے ایم سی، کے ای ایس سی، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، جیسے ادارے شامل تھے، کراچی صاف شفاف شہر ہوتا تھا۔ نہ پانی، نہ گیس، نہ بجلی، نہ ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس ہوتی تھی، سڑکیں خستہ حال نہ تھیں، تعلیم گاہیں، صحت کے مراکز بھی اطمینان بخش تھے، مگر جب 5 جولائی 1977ء کو ایک جمہوری اور مقبول حکومت کا تختہ الٹا گیا، جس میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کار ٹر اور سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر کا ہاتھ تھا، جس کا مقصد پاکستان کو جوہری ملک بننے سے روکنا اور اس کی دفاعی قوت کو کمزور کرنا تھا۔
اگر 5 جولائی 1977ء کو یہ تختہ نہ الٹا جاتا تو پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بہت اگے ہوتا۔ ہماری بہترین سیاسی قیادت کو ختم کیا گیا۔ جن میں ذوالفقار علی بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شامل ہیں۔ اور ان کی جماعت پی پی پی میں پھر ان جیسا قائد نہ آیا ۔اگر پی پی پی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی فکر پر عملی طور پر چلتی تو آج شہر قائد ایک مثالی شہر ہوتا، گزشتہ دس سال سے اس صوبہ میں پی پی پی کی بلا شرکت غیر ے حکمرانی ہے۔ مگر اس شہر کو وہ مقام نہ دلا سکی جو کم از کم 1980ء تک تھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ اس شہر میں سندھی اور مہاجر کی تقسیم ہے۔
ہمارا یہ صوبہ لسانی طور پر اتنا شدید تقسیم ہواکہ دن بدن بد تر ہوتا چلا گیا جیسے کوئی مقبوضہ شہر ہے۔ آئے دن کی ہڑتالوں نے اس شہر کو اتنا ابتر کردیا کہ آج ہم اسے کھنڈر کہہ سکتے ہیں۔ جب 2008ء میں پی پی پی کی حکومت آئی تھی تو امید تھی کہ یہ شہر پھر اپنی آب و تاب کے ساتھ اسی رونق سے آباد ہوگا مگر کچھ نہ ہوا۔ تمام اداروں میں سربراہان کے اختیارات سلب ہوگئے ہر معاملے میں سیاسی مداخلت نے قوت پکڑ لی۔ زمینوں پر قبضہ، چائنا کٹنگ ، بھتہ خوری، سینہ زوری کے ذریعہ شہر کو تباہ کرنے کا منصونہ بنایا گیا، ہمیں ان سے زیادہ شکایت ہے جن کے پاس حکمرانی تھی، انھوں نے نہ شہر میں ترقی کا کام کیا آج شہر میں کوئی محلہ، کوئی کوچہ ایسا نہیں جہاں ڈھیروں کوڑا کرکٹ جمع نہ ہو سڑکیں خستہ حال جا بجا گند، متعفن پانی رستا ہوا نظر آتا ہے نہ بجلی کی روانی ہے نہ گیس کی فراوانی نہ مہذب، شائستہ، باوقار ٹرانسپورٹ مہیا ہے نہ جگہ جگہ سر سبز پارک رہے نہ کھیل کے خوبصورت میدان، دنیا کے بڑے شہروں کی جن میں فٹ بال اسٹیڈیم نظر آتے ہیں۔
مرد و زن، بچے، بوڑھے سب کھیل میں دلچسپی لے رہے ہوتے ہیں، اور ایک ہمارے نوجوان ہیں جنہیں اچھے گراؤنڈ نصیب نہیں۔ آ خر اس حالت کا ذمے دار کون ہے آج بھی سب حکمران ملکر اس شہر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، بلدیاتی منتخب نمایندے ہوں یا صوبائی منتخب نمایندے سب ہی ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں اور اپنا وقت پاس کررہے ہیں، اور ان مراعات سے خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو انھیں سرکاری طور پر ملتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ شہر کراچی کیا اسی طرح بد سے بد تر ہوتا جائے گا یا اسم یں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ شاید بہتری کی امید بلکل نہیں ہے کیونکہ اس شہر سے وابستہ تمام منتخب ممبران چاہے وہ صوبائی ہوں یا بلدیاتی ان میں نہ عزم ہے نہ جو ش نہ جذبہ، ہو سکتا ہے ان میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہوں جو اس شہر کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں مگر وہ اپنی پارٹی اپنی قیادت کے دباؤ سے مجبور ہوں، اس شہر کے حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ اب کوئی انقلابی قدم اٹھانا ہوگا شکر ہے رینجرز کے ذریعہ اس شہر میں امن قائم ہوا ہے اور ابھی مزید اس امن کے لیے کام کرنا ہے۔
اس امن کا کریڈٹ پاک افواج کے سر براہ کو جاتا ہے جنرل راحیل شریف ہو ں یا موجود ہ سپہ سالار قمر باجوہ ہوں انھوں نے اس شہر میں دہشتگردی، بھتہ خوری، سینہ زوری پر بہت قابو پانا ہے۔اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کے تین بڑے ملکر اس شہر کو خصوصی طور پر بہتر بنائیں۔ان میںصدر مملکت جناب ممنون حسین جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ یہاں گورنر بھی رہے اب صدر مملکت ہیں۔دوسرے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرباجوہ اور تیسرے معزز چیف جسٹس اف پاکستان و چیف جسٹس آف ہائی کورٹ سندھ ان جسٹس صاحبان نے پاکستان میں بڑے دور رس اقدامات کیے۔بلدیاتی الیکشن کروایا اور مردم شماری کروائی۔ دہشتگردی اور بد عنوانی کے اہم کیسز پر توجہ دی۔اب عوام انھیں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
فی الحال وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ فوری طورپر ایسی حکومت بنائی جائے جو technocrates پر مشتمل ہو۔ جس میںایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو ماہر اقتصادیات و معاشیات ہوں۔اسمیں اچھے چیف ٹاؤن پلانر ہوں۔ وزارت داخلہ کا محکمہ سابق فوجی جنرل صاحبان کو دیا جائے۔ قانونی معاملات کے لیے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرد جج صاحبان ہوں۔ سی طرح وزارت تعلیم اور منصوبہ بندی کے لیے بھی ماہرین کی ٹیم بنائی جائے جو اس ملک کو اس صوبہ کو اس شہر کراچی کو ایک مثالی شہر بنائیں۔کچھ عرصہ کے لیے سیاست کو لگام دی جائے۔
سب سے پہلے تمام متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا جائزہ لیا جائے جو ان میں اچھی شہرت اور اچھی مہارت رکھتے ہوں انھیں با اختیار بنایا جائے۔خاص طور پر پولیس کے محکمہ کو سیاسی طور پر آزاد کیا جائے اس محکمہ میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے وہ بھی میرٹ پر، پھر ان کی سپاہیانہ تربیت بھی ہو تاکہ وہ جب اپنے فرائض انجام دیں تو عوام دوست ثابت ہوں۔ ہر محکمہ کہ سربراہ پر لازم ہو کہ وہ عوام کو اپنے محکمہ کے اصول و قواعد و ضوابط کو اتنا مشتہر کرے کہ ہر متعلقہ شخص یہ جان جائے کے اگر اسے اس محکمہ سے کوئی کام ہے تو اسے وہاں کیا کیا کاغذات اور شواہد پیش کرنے ہیں۔ اور ہر محکمہ میں تمام نظام کمپیوٹرائز کیا جائے جیسا کہ پولیس میںلائسنس کے لیے ایک اچھا نظام وضع ہو چکا ہے اسی طرح پاسپورٹ کے محکمہ میں بھی خاصہ بہتر کام ہو رہا ہے۔
دوسری توجہ مہنگائی پر دی جائے۔اس شہر میں ایک نائی خط بنانے کے 70 روپے سے 150 روپے وصول کرتا ہے اسی طرح ڈاکٹر صاحبان800 سے لے کر 1000 ننھے بچوں کی فیس وصول کرتے ہیں۔جب کہ یہ لوگ ٹیکس بھی نہیں دیتے، مقامی حکومت کی ذمے داری ہے کے ہر شئے کی قیمت (فیس) مقرر کریں تاکہ متواسط طبقہ پر بوجھ کم ہو، مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اشیاء پر قیمتیں لکھی ہوں جیسا کہ دواؤں پر لکھی ہوتی ہے۔اور پیداوار میں اضافہ کے لیے پیداوار کرنے والے مالکان کو سہولتیں دیں تاکہ پیداوار بڑھائی جائے اجناس ہوں یا سبزیاں، دالیں ہوں یا دودھ، پھل، اور خاص طور پر بکری کا گوشت،گائے کا گوشت، مرغی کا گوشت اس کی برآمد بند کردی جائے تاکہ پاکستان کے ۲۲ کروڑ عوام سستے داموں ان اشیا اور گوشت کو استعمال کریں۔ جب تک حکمرانی کا انداز نہیں بدلے گا عوامی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے لوگ آگے نہیں آئیں گے اسوقت تک اس ملک میں خوش حالی نہیں آسکتی۔
اس شہر میں جنرل ضیاالحق کے دور میں آنے والے افغانی، جن کی تیسری نسل اسی شہر میں پیدا ہورہی ہے، اس نے اس شہر کا توازن بگاڑ دیا اور کراچی کے محکمے جو بہت بہترین کام کرتے تھے، جن میں کے ڈی اے، ٹاؤن پلاننگ، کے ایم سی، کے ای ایس سی، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، جیسے ادارے شامل تھے، کراچی صاف شفاف شہر ہوتا تھا۔ نہ پانی، نہ گیس، نہ بجلی، نہ ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس ہوتی تھی، سڑکیں خستہ حال نہ تھیں، تعلیم گاہیں، صحت کے مراکز بھی اطمینان بخش تھے، مگر جب 5 جولائی 1977ء کو ایک جمہوری اور مقبول حکومت کا تختہ الٹا گیا، جس میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کار ٹر اور سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر کا ہاتھ تھا، جس کا مقصد پاکستان کو جوہری ملک بننے سے روکنا اور اس کی دفاعی قوت کو کمزور کرنا تھا۔
اگر 5 جولائی 1977ء کو یہ تختہ نہ الٹا جاتا تو پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بہت اگے ہوتا۔ ہماری بہترین سیاسی قیادت کو ختم کیا گیا۔ جن میں ذوالفقار علی بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو شامل ہیں۔ اور ان کی جماعت پی پی پی میں پھر ان جیسا قائد نہ آیا ۔اگر پی پی پی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی فکر پر عملی طور پر چلتی تو آج شہر قائد ایک مثالی شہر ہوتا، گزشتہ دس سال سے اس صوبہ میں پی پی پی کی بلا شرکت غیر ے حکمرانی ہے۔ مگر اس شہر کو وہ مقام نہ دلا سکی جو کم از کم 1980ء تک تھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ اس شہر میں سندھی اور مہاجر کی تقسیم ہے۔
ہمارا یہ صوبہ لسانی طور پر اتنا شدید تقسیم ہواکہ دن بدن بد تر ہوتا چلا گیا جیسے کوئی مقبوضہ شہر ہے۔ آئے دن کی ہڑتالوں نے اس شہر کو اتنا ابتر کردیا کہ آج ہم اسے کھنڈر کہہ سکتے ہیں۔ جب 2008ء میں پی پی پی کی حکومت آئی تھی تو امید تھی کہ یہ شہر پھر اپنی آب و تاب کے ساتھ اسی رونق سے آباد ہوگا مگر کچھ نہ ہوا۔ تمام اداروں میں سربراہان کے اختیارات سلب ہوگئے ہر معاملے میں سیاسی مداخلت نے قوت پکڑ لی۔ زمینوں پر قبضہ، چائنا کٹنگ ، بھتہ خوری، سینہ زوری کے ذریعہ شہر کو تباہ کرنے کا منصونہ بنایا گیا، ہمیں ان سے زیادہ شکایت ہے جن کے پاس حکمرانی تھی، انھوں نے نہ شہر میں ترقی کا کام کیا آج شہر میں کوئی محلہ، کوئی کوچہ ایسا نہیں جہاں ڈھیروں کوڑا کرکٹ جمع نہ ہو سڑکیں خستہ حال جا بجا گند، متعفن پانی رستا ہوا نظر آتا ہے نہ بجلی کی روانی ہے نہ گیس کی فراوانی نہ مہذب، شائستہ، باوقار ٹرانسپورٹ مہیا ہے نہ جگہ جگہ سر سبز پارک رہے نہ کھیل کے خوبصورت میدان، دنیا کے بڑے شہروں کی جن میں فٹ بال اسٹیڈیم نظر آتے ہیں۔
مرد و زن، بچے، بوڑھے سب کھیل میں دلچسپی لے رہے ہوتے ہیں، اور ایک ہمارے نوجوان ہیں جنہیں اچھے گراؤنڈ نصیب نہیں۔ آ خر اس حالت کا ذمے دار کون ہے آج بھی سب حکمران ملکر اس شہر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں، بلدیاتی منتخب نمایندے ہوں یا صوبائی منتخب نمایندے سب ہی ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں اور اپنا وقت پاس کررہے ہیں، اور ان مراعات سے خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو انھیں سرکاری طور پر ملتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ شہر کراچی کیا اسی طرح بد سے بد تر ہوتا جائے گا یا اسم یں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ شاید بہتری کی امید بلکل نہیں ہے کیونکہ اس شہر سے وابستہ تمام منتخب ممبران چاہے وہ صوبائی ہوں یا بلدیاتی ان میں نہ عزم ہے نہ جو ش نہ جذبہ، ہو سکتا ہے ان میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہوں جو اس شہر کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں مگر وہ اپنی پارٹی اپنی قیادت کے دباؤ سے مجبور ہوں، اس شہر کے حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ اب کوئی انقلابی قدم اٹھانا ہوگا شکر ہے رینجرز کے ذریعہ اس شہر میں امن قائم ہوا ہے اور ابھی مزید اس امن کے لیے کام کرنا ہے۔
اس امن کا کریڈٹ پاک افواج کے سر براہ کو جاتا ہے جنرل راحیل شریف ہو ں یا موجود ہ سپہ سالار قمر باجوہ ہوں انھوں نے اس شہر میں دہشتگردی، بھتہ خوری، سینہ زوری پر بہت قابو پانا ہے۔اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کے تین بڑے ملکر اس شہر کو خصوصی طور پر بہتر بنائیں۔ان میںصدر مملکت جناب ممنون حسین جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ یہاں گورنر بھی رہے اب صدر مملکت ہیں۔دوسرے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرباجوہ اور تیسرے معزز چیف جسٹس اف پاکستان و چیف جسٹس آف ہائی کورٹ سندھ ان جسٹس صاحبان نے پاکستان میں بڑے دور رس اقدامات کیے۔بلدیاتی الیکشن کروایا اور مردم شماری کروائی۔ دہشتگردی اور بد عنوانی کے اہم کیسز پر توجہ دی۔اب عوام انھیں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
فی الحال وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ فوری طورپر ایسی حکومت بنائی جائے جو technocrates پر مشتمل ہو۔ جس میںایسے لوگوں کو شامل کیا جائے جو ماہر اقتصادیات و معاشیات ہوں۔اسمیں اچھے چیف ٹاؤن پلانر ہوں۔ وزارت داخلہ کا محکمہ سابق فوجی جنرل صاحبان کو دیا جائے۔ قانونی معاملات کے لیے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرد جج صاحبان ہوں۔ سی طرح وزارت تعلیم اور منصوبہ بندی کے لیے بھی ماہرین کی ٹیم بنائی جائے جو اس ملک کو اس صوبہ کو اس شہر کراچی کو ایک مثالی شہر بنائیں۔کچھ عرصہ کے لیے سیاست کو لگام دی جائے۔
سب سے پہلے تمام متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا جائزہ لیا جائے جو ان میں اچھی شہرت اور اچھی مہارت رکھتے ہوں انھیں با اختیار بنایا جائے۔خاص طور پر پولیس کے محکمہ کو سیاسی طور پر آزاد کیا جائے اس محکمہ میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے وہ بھی میرٹ پر، پھر ان کی سپاہیانہ تربیت بھی ہو تاکہ وہ جب اپنے فرائض انجام دیں تو عوام دوست ثابت ہوں۔ ہر محکمہ کہ سربراہ پر لازم ہو کہ وہ عوام کو اپنے محکمہ کے اصول و قواعد و ضوابط کو اتنا مشتہر کرے کہ ہر متعلقہ شخص یہ جان جائے کے اگر اسے اس محکمہ سے کوئی کام ہے تو اسے وہاں کیا کیا کاغذات اور شواہد پیش کرنے ہیں۔ اور ہر محکمہ میں تمام نظام کمپیوٹرائز کیا جائے جیسا کہ پولیس میںلائسنس کے لیے ایک اچھا نظام وضع ہو چکا ہے اسی طرح پاسپورٹ کے محکمہ میں بھی خاصہ بہتر کام ہو رہا ہے۔
دوسری توجہ مہنگائی پر دی جائے۔اس شہر میں ایک نائی خط بنانے کے 70 روپے سے 150 روپے وصول کرتا ہے اسی طرح ڈاکٹر صاحبان800 سے لے کر 1000 ننھے بچوں کی فیس وصول کرتے ہیں۔جب کہ یہ لوگ ٹیکس بھی نہیں دیتے، مقامی حکومت کی ذمے داری ہے کے ہر شئے کی قیمت (فیس) مقرر کریں تاکہ متواسط طبقہ پر بوجھ کم ہو، مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اشیاء پر قیمتیں لکھی ہوں جیسا کہ دواؤں پر لکھی ہوتی ہے۔اور پیداوار میں اضافہ کے لیے پیداوار کرنے والے مالکان کو سہولتیں دیں تاکہ پیداوار بڑھائی جائے اجناس ہوں یا سبزیاں، دالیں ہوں یا دودھ، پھل، اور خاص طور پر بکری کا گوشت،گائے کا گوشت، مرغی کا گوشت اس کی برآمد بند کردی جائے تاکہ پاکستان کے ۲۲ کروڑ عوام سستے داموں ان اشیا اور گوشت کو استعمال کریں۔ جب تک حکمرانی کا انداز نہیں بدلے گا عوامی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے لوگ آگے نہیں آئیں گے اسوقت تک اس ملک میں خوش حالی نہیں آسکتی۔