پہلا قدم

اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک پر 70 سال سے اشرافیائی مافیا قبضہ جمائے بیٹھی ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

عدالتی فیصلوں خصوصاً سیاسی پس منظر رکھنے والے فیصلوں سے اختلاف ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے لیکن اس قسم کے اختلاف کا دفاع قانونی طریقے ہی سے کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو قومی ادارے بھی شکوک و شبہات سے بچے رہتے ہیں اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد بھی بحال رہتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس قانونی اور آئینی طریقہ کار کو پس پشت ڈال کر جارحانہ پروپیگنڈا کا راستہ اختیار کیا گیا۔

مسلم لیگ ن وہ واحد جماعت ہے جو تقریباً تین دہائیوں سے کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار میں ہے اور اس طویل اقتدار میں وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر شریف فیملی کے دو بھائی ہی براجمان رہے، جس سے عوام کا یہ تصور اور مضبوط ہوگیا کہ اس ملک میں چند اشرافیائی خاندانوں نے سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کا مطلب چند خاندانوں کی حکمرانی ہوکر رہ گیا ہے اور اس حوالے سے اگر کوئی ادارہ اس خاندانی نظام کے خلاف اقدام کرتاہے تو بلاشبہ اسے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہوسکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ایک خاندان کے خلاف کارروائی سے معاشرے میں کوئی بامعنی تبدیلی آجائے گی؟

اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک پر 70 سال سے اشرافیائی مافیا قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور اس مافیا میں صرف ایک خاندان شامل نہیں بلکہ درجنوں خاندان اور ان کے حواری نہ صرف اس مافیا کا حصہ ہیں بلکہ اربوں کھربوں کی لوٹ مار کررہے ہیں، جس کا انسداد کسی ایک خاندان کو ٹارگٹ کرنے سے نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کرپٹ مافیا کے خلاف بلاتخصیص سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ ملک چند لٹیرے خاندانوں کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے اور اس مافیا کو ختم کیے بغیر نہ ملک ترقی کرسکتا ہے نہ عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں، لیکن پھر وہی سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا ایک خاندان کے خلاف کارروائی سے کرپشن کی وبا ختم ہوجائے گی؟ پاناما لیکس میں ملوث خاندانوں کی تعداد 400 بتائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان چار سو خاندانوں میں سارے اربوں کی کرپشن کرنے والے ہی نہ ہوں بلکہ کروڑوں کی کرپشن کرنے والے بھی ہوں لیکن کرپشن کروڑوں کی ہو یا اربوں کی، ایک سنگین قومی جرم ہے اور اس کے خلاف سخت سے سخت اقدام کرنا قانون، آئین اور انصاف کے اداروں کی ذمے داری ہے۔

پاناما لیکس میں ملوث 400 خاندانوں کے علاوہ بینکوں سے دو کھرب کے قرضے لے کر معاف کروا لینے والی ایک بہت بڑی مافیا ہے بینکوں سے قرض لے کر معاف کرالینے والوں کی فہرستیں بھی شایع ہوچکی ہیں اور یہ کیس اعلیٰ عدلیہ میں بھی زیر سماعت رہا ہے، اس اسکینڈل میں اربوں کا قرض معاف کرانے والے نہ مزدور ہیں، نہ کسان، بلکہ یہ وہ با اثر گروہ ہیں جو اوپر تک رسائی رکھتے ہیں۔ اور ان کی رسائی اور تعلقات کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ دو کھرب سے زیادہ کی یہ کرپشن سرکاری فائلوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاریخی کرپشن میڈیا میں بھی تسلسل سے رپورٹ ہوتا رہا اور عوام بھی اس میگا کرپشن سے واقف ہیں پھر ذمے دار اداروں نے اسے فائلوں کی خوراک کیوں بنادیا۔


اس دلچسپ حقیقت کی یاد دہانی ضروری ہے کہ جب سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیق کے لیے جے آئی ٹی بنائی تو تقریباً ساری سیاسی جماعتوں نے اس کی تائید کی اور اس کی حمایت کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے خواہ وہ ہمارے حق میں ہو یا خلاف ہم اسے قبول کریںگے، ان اعلانات میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی پیش پیش تھیں، المیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جب وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ سنایا تو مسلم لیگ ن نے اپنے اعلانات اور یقین دہانیوں کے برخلاف بالواسطہ طور پر اس فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا، اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے خلاف ایک جارحانہ اور منظم تحریک شروع کردی۔

یہ مہم اس شدت سے چلائی جارہی ہے کہ عوام سخت کنفیوژن اور غلط فہمیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ میڈیا اس مہم یا تحریک کو ممکنہ حد تک غیر جانبداری سے کوریج دے رہا ہے لیکن اس صورتحال کا ایک لازمی اور فطری نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام کنفیوژ ہورہے ہیں اور یہ صورتحال اس قدر خطرناک ہے کہ ملک کے کسی ادارے پر عوام کا اعتماد باقی نہیں رہے گا۔

مسلم لیگ ن کا موقف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جانبدارانہ ہے اور یہ بات میڈیا میں بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے بلکہ اس حوالے سے باضابطہ کئی ٹیمیں بنا دی گئی ہیں جو فیصلے کے خلاف بڑی شدت سے پروپیگنڈا کررہی ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اگر ملک کے اس سب سے زیادہ ذمے دار ادارے پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا تو یہ پوری قوم و ملک کا ایسا نقصان ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں رہے گی۔

میڈیا ہی کے مطابق بیرونی ملک کے بینکوں میں پاکستانیوںکے 200 ارب روپے جمع ہیں جس کا ذکر ہر جگہ ہوتا رہا۔ 200 ارب ایک بہت بڑی رقم ہوتی ہے اگر اس کا درست استعمال ہو تو عوام کی صحت کا سنگین مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے لیکن ملک میں کوئی ایسا ذمے دار ادارہ نظر نہیں آتا جو اس قسم کی میگا کرپشن کے خلاف نوٹس لے۔

200 ارب روپوں کی میگا کرپشن کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ میڈیا میں مسلسل رپورٹ ہوتی رہتی ہے، کرپشن کے خلاف اقدامات کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن جن ملکوں کے حکمران خود کرپشن کے تاج اپنے سروں پر سجائے بیٹھے ہوں ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ میگا کرپشن کے خلاف کارروائی کریں۔

حکمران طبقات اپنے مصاحبین کی مدد کے بغیر کرپشن نہیں کرسکتے، ہمارے ملک کی اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ مصاحبین کی پلٹنیں حکمرانوں کی کرپشن کا دفاع ہر محاذ پر اس ڈھٹائی سے کرتی ہیں کہ عوام کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ان مصاحبین میں صرف گنہگار لوگ ہی شامل نہیں، نمازی پرہیزگار لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنے باکردار آباؤ اجداد کی عزت مٹی میں ملارہے ہیں۔

اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ تمام وزرا، تمام ایم این ایز، تمام ایم پی ایز سے ایک ماہ کے اندر ان کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی جائیں اور ان مدبرین کو بتادیا جائے کہ تحقیق پر اگر اثاثے غلط ثابت ہوں تو نہ صرف تمام اثاثے ضبط کرلیے جائیںگے بلکہ سخت سزائیں بھی دی جائیںگی اور یہ کام آزاد اعلیٰ عدلیہ ہی کرسکتی ہے۔
Load Next Story