سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی تجاویز کی حمایت کر کے نواز شریف نے دراصل اپنا کام آسان کردیا ہے

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی تجاویز کی حمایت کر کے نواز شریف نے دراصل اپنا کام آسان کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ملکی تقدیر بدلنے کے لیے ہمیں آئین اور نظام بدلنا ہوگا، 14اگست کو آیندہ لائحہ عمل کا اعلان کرونگا، انھوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پارلیمان کو مضبوط کرنے کے حوالے سے جتنی بھی تجاویز دی ہیں مسلم لیگ (ن) ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے داتا دربار پر بڑی عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

سابق وزیراعظم نے ملک میں انقلاب لانے اور مختلف النوع مسائل کا ذکر ریلی کے دوران اور اختتامی جلسے میں جس جوش و جذبہ سے کیا وہ نامناسب نہیں تاہم ملکی سیاسی تاریخ میں حکمرانی ختم ہونے کے بعد مسائل کا پشتارہ کھولنا کوئی نئی بات نہیں، جمہوریت اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے تو حکمراں اقتدار سے الگ ہوتے ہی ایسی ہی درد ناک باتیں کرتے ہیں، عوام کا دل بہلاتے ہیں، لیکن اکثر یہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی حکمران اقتدار میں ہوتے ہیں تو انھیں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں جاری نظر آتی ہیں، وہ سمجھتے ہیں انصاف سستا اور ہر شہری کو حاصل ہے، بیروزگاری اور مہنگائی کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں، ہر طرف امن ، سکون اور راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے، رعایا خوش حال ہے، اپنے دور اقتدار میں انھیں جرائم ، دہشتگردی، بدانتظامی ،اقربا پروری ،احباب نوازی اور بے لگام کرپشن کے بڑھتے ہوئے وائرس قطعی یاد نہیں آتے۔

انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے بغیر عوام کبھی آسودہ ، مطمئن، محفوظ اور خوش حال نہیں ہوسکتے، غربت ڈیرے ڈالے رہتی ہے، لوگ نان شبینہ کو ترستے رہتے ہیں، میرٹ کا روز خون ہوتا ہے ، سفارشی کلچر بیوروکریسی میں شفافیت اور عوام دوستی کو روگ لگاتا رہتا ہے، معمولی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتے، جب کہ سرکاری ادارے اور وزارتیں عوام کی جان ومال کے تحفظ کا بنیادی فریضہ بھی کماحقہ انجام دینے کے قابل نہیں رہتی ، ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن نہیں ہوتی، ملک داخلی اور خارجی مسائل کے گرداب میں پھنس جاتا ہے، حکومت عوام کو معمولی ریلیف مہیا نہیں کرتی ، لوڈ شیڈنگ عوام کے لیے عذاب بن جاتی ہے، ملکی برآمدات کے لیے اسے ڈیتھ وارنٹ کہا جاتا ہے، ملکی معیشت کو شدید دھچکے لگتے ہیں، عوام مہنگائی کی چکی میں پستے رہتے ہیں لیکن انھیں ان کے مشیران باتدبیر نہیں بتاتے کہ عوام کتنے مضطرب ، پریشان اور مشکلات کا شکار ہیں ، تاہم اقتدار سے ہٹتے ہی ان کو دنیا گول نظر آتی ہے۔

عوام سے خطاب کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا جاتی ہے، وہ آنسو بہاتے ہیں اور قوم کو یقین دلانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ دکھی عوام کی یاد میں رو رو کے گزرتی ہیں راتیں آنکھوں میں سحر ہوجاتی ہے، ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے، یوں انھیں سارے مسائل اور عوام کے دکھ درد ایک ایک کر کے یاد آتے ہیں، حکومت سے الگ ہوتے ہی انھیں یہ بھی یاد آتا ہے کہ اس سسٹم میں وائرس ہے، یہاں سماجی انصاف ہے نہ معاشی انصاف، 30، 30 سال سے مقدمے لٹکے ہوئے ہیں ، اس لیے ملک میں انقلاب برپا کرنا ہوگا۔


تبدیلی پاکستان کے عوام کے لیے کل بھی ناگزیر تھی اور آج بھی ہر محب وطن شہری اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ سیاست دان ملکی مفاد، سلامتی،قومی یکجہتی اور معاشی ثمرات کی منصفانہ تقسیم کے لیے ایسا نظام لائیں جو قومی امنگوں کی صحیح عکاسی کرے، مگرانقلاب وہی لایا کرتے ہیں جن کے دل عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور جنہیں اقتدار کے دوران معلوم ہوتا ہے کہ عوام کن مسائل سے دوچار ہیں ، ان کے شب وروز کس طرح گزرتے ہیں۔

بہر حال سابق وزیراعظم نے ملک میں انقلاب برپا کرنے کی جو بات کی ہے، ایسے خوش آیند انقلاب کسی ترقی پذیر ملک کے لیے معاشی طور پر شجر ممنوعہ نہیں ہوا کرتے، انقلابی رہنماؤں کی عمریں اسے برپا کرنے میں گزر جاتی ہیں ، انقلاب کا پیغام صائب ہے مگر سسٹم کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن اور دیگر جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے، اداروں سے تصادم کا ہر امکان ختم کرنے اور ملک کو سیاسی انتشار، سیاسی پولرائزیشن سے بچانے کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ناگزیر ہے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی تجاویز کی حمایت کر کے نواز شریف نے دراصل اپنا کام آسان کردیا ہے اور کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ جمہوری اسپرٹ اور فیئر پلے کے ساتھ پیش رفت کی جائے۔ بھٹو نے 1973 کا آئین سخت سیاسی مخالفین کو ساتھ ملا کر قومی اسمبلی سے منظور کرایا تھا، سسٹم کی اصلاح یا آئین بدلنے کی پیش قدمی مہم جوئی سے ہٹ کر ایک مشترکہ جمہوری اشتراک عمل سے طے پا جائے تو اس سے زیادہ بڑا تحفہ قوم کو اور کیا دیا جاسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سیاست دان امتحان کی اس گھڑی میں ٹھہراؤ پیدا کرتے ہوئے عوام اور ملک کو درپیش چیلنجز سے سرخرو ہوکر نکلیں گے۔

 
Load Next Story