عام انتخابات ہی خیر کا راستہ ہے
پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ عوام کی بھرپور شرکت کے ساتھ شفاف انتخابات کے ذریعے نئی حکومت بنانے پر تیار کیا جائے۔
اپنے تئیں آئین اور قانون کے بہت بڑے ماہر بنے ایک غیر ملکی پروفیسر کو سپریم کورٹ نے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ 20 ویں ترمیم کے ذریعے طے کیے گئے قواعد کے مطابق قائم ہوئے الیکشن کمیشن کی ساخت پر اعتراض اٹھانے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ خیال عدالت عظمیٰ کا یہ بھی بڑا ٹھوس تھا کہ کینیڈا میں کئی سال گزارتے ہوئے ملکہ الزبتھ اور اس کے ورثا سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد موصوف یقیناً کسی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دسمبر2012ء میں یہاں نمودار ہوئے۔ یہاں پہنچنے کے دو مہینے بعد ان کا الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے عدالت پہنچ جانا بھی بہت مشکوک عمل محسوس ہوتا ہے۔
کینیڈا سے آئے قادری کے غبارے سے ہوا نکل جانے کے بعد میں چھچھوروں کی طرح سینہ پھلا کر ''میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا'' نوعیت کی بڑھکیں نہیں لگانا چاہتا۔ مجھے تو دکھ اس بات کا ہو رہا ہے کہ اس شخص کی آمد کے فوراً بعد جو سوالات ہمارے ہمہ وقت مستعد بنے میڈیا اور اس کے میرے جیسے سرخی پائوڈر لگا کر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک سیاپا فروش اینکروں کو اٹھانا چاہیے تھے، وہ بالآخر ہماری عدالت عظمیٰ میں بیٹھے منصفوں نے ہی اٹھائے۔ ہم میں سے اکثر لوگ تو محض ریٹنگ کی خاطر اس کے آستانے پر حاضریاں دے کر ہاتھ باندھ کر سر نیہوڑائے اس سے فدویانہ سوالات کرتے رہے۔ ایسی چاپلوسی کرنے والوں میں وہ ''انقلابی'' بھی شامل تھے جو صبح شام ہماری منتخب حکومتوں کے لتے لیتے رہتے ہیں اور پوری رعونت سے پھیپھڑوں کا زور لگا کر عوام کے ووٹوں سے منتخب ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو بلا استثنیٰ ''چور' لٹیرے اور جعلی ڈگریوں والے'' ثابت کیا کرتے ہیں۔
پورے سچ کی تلاش میں ہم جو اپنی جانوں کو جھوکم میں ڈالنے کے ڈرامے رچاتے رہتے ہیں، ان سرکاری دستاویزات کا ذکر تک نہ کر سکے جن کے مطابق کینیڈا سے آئے اس قادری نے فروغ دین کے نام پر ایک ادارہ رجسٹر کروایا تھا۔اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اپنے ہی بیٹوں وغیرہ کو ڈال کر اس ادارے کو ''قادری اینڈ سنز'' بنا دیا گیا اور خود کو اس ادارے کا کلی طورپر با اختیار اور تاحیات سربراہ۔ دین کی ترویج کے نام پر اس شخص نے جو اربوں روپے اکٹھے کیے وہ بلٹ پروف گاڑیوں کی درآمد پر خرچ ہوئے اور بالآخر ایک ایسی تحریک کے ہوشربا مالی وسائل جس کے مقاصد سراسر دنیاوی اقتدار کے کھیل میں طاقت ور حصہ دار بننے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھے۔
کینیڈا سے آئے قادری کی میڈیا کے ذریعے ہوشربا پذیرائی میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کے کردار کے اعتراف کے بعد میں اس بات کا حقدار ہوں کہ اپنے سیاستدانوں سے بھی کچھ سوالات کیے جائیں۔ لاہور میں بیٹھے ہمارے خادم اعلیٰ ''اچھی حکومت'' کی زندہ علامت بننے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ جن صاحب نے دسمبر2012 میں فروغ دین کے نام پر اکٹھا کیے چندے سے جو شو لگایا وہ لاہور میں رچایا گیا تھا۔ ''قادری اینڈ سنز'' بن جانے والا ادارہ اسی شہر میں رجسٹر ہوا تھا۔ کیوں وہاں بیٹھی حکومت کے افسروں کو جرات نہ ہوئی کہ معلوم کریں کہ کتنا پیسہ کہاں سے کس نام پر اکٹھا کرکے کہاں اور کس مقصد کے لیے لگایا جا رہا ہے؟ چونکہ موصوف نے اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا، اس لیے ساری کوششیں اس بات پر مرکوز کر دی گئیں کہ موصوف خیر خیریت سے براستہ جی ٹی روڈ پاکستان کے دارالحکومت پہنچ جائیں اور پھر ''زر بابا جانے اور ان کا رحمن ملک''۔ رحمن ملک نے آگے بڑھ کر موصوف کا راہ روکنا چاہا تو چوہدری برادران آڑے آ گئے۔
آیندہ انتخابات کے قریب آتے ہوئے وہ جان چکے تھے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی پارٹی کا اتحاد مارکیٹ میں اپنی جگہ نہیں بنا پا رہا۔ ''سونامی'' کا زور بھی ٹوٹ سا گیا ہے۔ بے بسی کے اس عالم میں کینیڈا سے آیا قادری انھیں غیبی امداد کی طرح نظر آیا۔ وہ اس کے ضامن بن گئے اور دھرنا تین دن تک پھیل گیا۔ اس کے پھیلائو کے بعد لال مسجد کی داستانیں سنا کر کینیڈا کے قادری کو اس کے کنٹینر میں حاضری دے کر محفوظ راستہ دیا گیا۔ اس سے ایک ایسے تحریری معاہدے پردستخط بھی کیے گئے جو ریاستیں اپنے سے طاقتور قوتوں سے شکست کھا کر ماننے کو مجبور ہوا کرتی ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے ہماری مرکزی حکومت اوراس کے نواز شریف کے خوف سے ذہنی طور پر مفلوج ہوئے اتحادیوں نے ہر گز یاد نہ رکھا کہ فخرو بھائی کی سربراہی میں بنایا جانے والا الیکشن کمیشن آئین میں20 ترمیم کرنے کے بعد قائم ہوا ہے۔ اس کی تشکیل میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں برابر کی حصہ دار تھیں۔
کھاریاں کے ضمنی انتخابات میں ''جاٹ گوجر اتحاد'' کی حقیقت بے نقاب ہو جانے کے بعد ان کا سارا غصہ اور گلہ بھی الیکشن کمیشن کی جانب ہو گیا۔ خود تو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی۔ کینیڈا سے آئے قادری کو پنجابی محاورے والی ''اکھ مار دی'' اور وہ اپنے ماہر قانون ہونے کے تکبر کے ساتھ الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے ذریعے منہدم کرنے کے مشن پر چل نکلا۔ وہ تو ناکام رہا۔ مگر اس کی ناکامی نے ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں کے کلی تاثر کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی ہونے میں بہت دیر لگے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں۔ پاکستان کی بقا اور بہتری اسی میں ہے کہ عوام کو بھرپور شرکت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ صاف اور شفاف انتخابات کے ذریعے ایک نئی حکومت بنانے پر تیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ خیر کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔