فوجی اور جمہوری آمر
جنرل پرویز اور عمران خان کا خیال ہے کہ شریفوں کے بعد ن لیگ بکھر جائے گی اور انھیں نئے لوٹے مل جائیں گے
KARACHI:
سابق فوجی صدر پرویز مشرف، وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اپنی بیماری کو بھول کر سیاست میں متحرک ہوگئے ہیں اور اپنے ایک متنازعہ انٹرویو کے بعد سیاسی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔ اپنی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کے جلسوں سے ملک سے باہر بیٹھ کر ویڈیو لنک خطاب بھی کررہے ہیں اور نواز شریف کی نا اہلی پر خوش ہیں تو سابق وزیر اعظم بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ملک میں کوئی ایسی عدلیہ بھی ہے جو دو بار آئین توڑنے والے آمرکو بھی جمہوری وزیر اعظم کی طرح سزا دے سکے۔
ملک کے بعض سیاسی حلقوں میں کچھ عرصے سے افواہیں گرم تھیں کہ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک سے جمہوریت کی جگہ نیا نظام آئے گا اور سیاست دانوں کی کرپشن کے سدباب کے لیے نگراں حکومت قائم ہوگی جس کی سربراہی سابق صدر پرویز مشرف کو ملے گی جو بعض اپنی حامی سیاسی جماعتوں کی مدد سے ملک سے لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں گے اور بد عنوان سیاستدانوں سے ملک و قوم کو نجات دلائیں گے۔
نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور انھوں نے فیصلہ آتے ہی کسی مزاحمت کے بغیر اقتدار چھوڑ دیا اور چار روز میں ہی ملک کو مسلم لیگ ن ہی کا نیا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی مل گیا اور ایک بڑی نئی کابینہ بھی مل گئی۔ جس کی توسیع 2018ء تک ہونے کا فیصلہ بھی جلد ہوجائے گا اور جاری جمہوری عمل امید ہے کہ جون کے اوائل تک جاری رہے گا اور نگراں حکومت آجائے گی۔
کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی کے باوجود حکومت بھی دوبارہ قائم ہوگئی جو مسلم لیگ ن ہی کی ہے البتہ وزیراعظم اب نواز شریف نہیں اور شریف خاندان سے باہر کا شخص ہے نئی حکومت کے چار روز میں ہی قیام سے ملک بھر میں سکون رہا مگر شاید پرویز مشرف اور عمران خان کو سکون نہیں ملا اور دونوں کی سیاسی بے چینی بڑھ گئی ہے۔
پرویز مشرف کو امید تھی کہ ملک میں نئی حکومت آئے گی اور عمران خان کو توقع تھی کہ جلد عام انتخابات ہوں گے، مسلم لیگ ن ختم ہوجائے گی اور وہ 2017ء ہی میں وزیراعظم بننے کے اپنے خواب کی تعبیر پالیں گے مگر دونوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور دونوں اب سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں نیب ریفرنسز کے ذریعے شریف خاندان کا مستقبل جیلوں میں گزرتا دیکھ رہے ہیں۔
جنرل پرویز اور عمران خان کا خیال ہے کہ شریفوں کے بعد ن لیگ بکھر جائے گی اور انھیں نئے لوٹے مل جائیں گے جنرل(ر) پرویز مشرف بعد میں خود کو متحدہ مسلم لیگ کا سربراہ تصور کررہے ہیں اور عمران خان نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری کے بعد اپنا راستہ صاف دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے پی پی کے کرپٹ سیاست دانوں پر اپنے دروازے پہلے ہی کھول دیے ہیں اور مسلم لیگ ن کی بکھرنے کا دونوں ہی شدت سے انتظار کررہے ہیں۔
عدلیہ نے نواز شریف کو نا اہل تو کردیا اور جیل بھجوائے جانے کا بھی قوی امکان ہے مگر عدلیہ کسی کو بھی اقتدار نہیں دلاسکتی یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے، فوج خود کو اقتدار سے دور رکھے ہوئے ہے۔ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں فوجی آمروں کے مقابلے میں سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی مدت اقتدار اب زیادہ ہوچکی ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف آمروں کے دور کو سیاست دانوں سے بہتر اور سیاست دان اپنے جمہوری ادوار کو آمروں سے بہتر قرار دیتے نہیں تھک رہے اور دونوں کی برائی اور اچھائی کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور اگر واقعی عوام کواپنے حقیقی نمایندے کے انتخابات کا آزادانہ اختیار ملا اور غیر جانبدارانہ اور حقیقی منصفانہ عام انتخابات ہوئے تو حقائق منظر عام پر ضرور آجائیں گے۔
سابق وزیراعظم کے خیال میں انھیں مکمل اختیارات نہیں ملے جو سول حکومت کو ملنے چاہئیں تاکہ جو چاہیں وہ کریں اور کوئی بھی اور ادارہ ان کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے اور وزیراعظم مکمل با اختیار ہو۔ محدود اختیارات کے وزیراعظم ملک میں جو جمہوریت قائم کرکے جیسی حکومت کرچکے ہیں وہ کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہے اور جمہوری کہلانے والے 1988ء کے بعد آنے والے تمام وزرائے اعظم نے اپنی من مانیوں اور شاہانہ انداز سے حکومتیں چلائیں۔ وہ کیوں مدت پوری نہ کرسکیں وہ سب عیاں ہے کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ملک پر راج کرنے والے اب تک کے تمام فوجی ڈکٹیٹروں کی من مانیاں تو سمجھ میں آتی ہیں مگر جمہوری آمروں کی من مانیاں بھی قوم بھگت رہی ہے اور پرویز مشرف کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ کسی بھی نظام سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ یہ بھی درست ہے کہ تمام فوجی اور جمہوری آمر فرشتے یا بہت ہی برے نہیں تھے، گزشتہ 29 سال میں جمہوری وزیراعظم نواز شریف نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا اور آخر میں سی پیک منصوبہ چین سے دلایا اور اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو ایک متفقہ آئین دیا تھا جو بعد میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے ختم نہیں کیا من مانی ترامیم سے برقرار رکھا۔
جنرل ضیا نے ملک کو روس کے خطرے سے نجات دلائی تھی اور اسلامی اقدار پر توجہ دی تھی جب کہ جنرل پرویز نے ملک کو امریکی یلغار سے بچایا تھا وہ اگر سیاست سے دور رہتے تو ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے اور ان کے 7 نکات بہت سود مند ہوتے مگر سیاسی مفاد نے جنرل مشرف کو ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے نہیں دیا اور انھوں نے ملک کے عوام کے لیے ایک واحد اچھا کام یہ کیا تھا کہ ملک کو انگریز دور کے کمشنری نظام سے نجات دلائی تھی جو کوئی بھی سویلین وزیراعظم نہیں کرسکا تھا۔
فوجی حکمران کی ضرورت دور غلامی کی یادگار کمشنری نظام ہوتا ہے اور نچلی سطح پر بلدیاتی نمایندے ہر فوجی جنرل کی ضرورت ہوتے ہیں اور اسی لیے ہر فوجی صدر نے بلدیاتی انتخابات وقت پر کرائے مگر کسی بھی جمہوری وزیراعظم اور نام نہاد جمہوری حکومتوں نے کبھی ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے بلکہ عوام کے نچلی سطح کے منتخب بلدیاتی اداروں کو ختم کرکے بلدیاتی ادارے منتخب عوامی نمایندوں کی جنرل پرویز کا دیا گیا ضلع حکومتوں کا نظام ملک کے تمام بلدیاتی نظاموں کے مقابلے میں سب سے بہترین اور با اختیار تھا۔ جس میں نچلی سطح پر منتخب عوامی نمایندوں کو بیوروکریسی پر بااختیار اور اعلیٰ افسروں کو ان کا ماتحت بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں عوامی نمایندوں نے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے تھے۔
ضلع نظام عوام کے لیے اچھا اور عوامی مفاد میں تھا مگر 2008ء کے بعد آنے والی جمہوری حکومت نے ختم کرا دیا اور چھ سال بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام نافذ کرکے عوام کو ایک بہترین نظام سے محروم کرکے عوام کے اختیارات چھین لیے۔