بنت حوا کے نام
اے خوب صورت لڑکیو! ضدی کنواریو! بے وقوف بیٹیو! بے صبری دوشیزاؤ! ٹین ایجر لڑکیو! سمجھ جاؤ۔ خدارا! سمجھ جاؤ!
آج ہم آپ سے مخاطب ہیں، پہلے ہم لڑکی کی تعریف کرتے ہیں، اچھائی بیان نہیں کر رہے بلکہ طے کر رہے ہیں کہ اس میں کس عمر کی صنف نازک شامل ہیں۔ لڑکی سے مراد خواتین اور چھوٹی بچیاں نہیں ہیں، ہم نے نوجوان لڑکی کا عنوان نہیں دیا کہ یہاں ہماری مراد ٹین ایجر لڑکیاں ہیں یعنی وہ جن کی عمر تیرہ سے انیس کے درمیان میں ہے۔ یہاں لڑکیوں سے مخاطب ہونے میں ایک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے، ہم جن سے بات کر رہے ہیں ان کی اکثریت نجانے اخبار پڑھتی ہو یا نہ پڑھتی ہو۔ چند ایک نظر دوڑاتی ہوں گی تو وہ صرف سرخیوں پر۔
یہاں سرخی سے مراد ہونٹوں کی سرخی یا لپ اسٹک نہیں بلکہ اخبارات کی سرخی کی بات ہے جسے انگریزی میں ہیڈنگ کہتے ہیں۔ اب یہ کالم پڑھنے والے لڑکے اور مرد مسکرا رہے ہوں گے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ جب لڑکیاں اخبارات ہی نہیں پڑھتیں تو وہ ادارتی صفحے تک کیوں کر آئیں گی؟ جہاں آنے کے لیے تو ایک علم و دانش درکار ہوتی ہے جو چند ایک لڑکیوں میں ہو گی۔ سیاسی، علمی اور ادبی دانش۔ لڑکیوں کی اکثریت تو رومانوی دنیا میں رہتی ہے، خوابوں کے شہزادے کی دنیا میں۔ وہ خواتین کے رسالے رومانوی ناول اور جاسوسی ڈائجسٹ پڑھتی ہیں یا محبت کے گرد گھومتی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہیں۔ پھر ایک اخبار کے ادارتی صفحے پر لڑکیوں سے مخاطب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اب جب ہم ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے لڑکیوں سے مخاطب ہونے جا رہے ہیں اور وہ اس کوچے میں آتی نہیں تو ہم کلام کس طرح ہوا جا سکتا ہے؟
لڑکیوں سے ایک رومان پرور دن کے موقعے پر مخاطب ہونے کے لیے ہم ان کے اہل خانہ تک جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اب ہم نوجوان لڑکیوں کے والد، بھائی، والدہ اور بڑی بہن سے کہیں گے کہ وہ ہماری مدد کو آگے آئیں۔ وہ یہ صفحہ اور یہ کالم ٹین ایجر بیٹیوں کو پڑھنے کو دیں۔ لڑکیوں کو چچیاں، خالائیں اور پھوپھیاں بھی انھیں یہ تحریر پڑھنے کو دے سکتی ہیں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ لڑکیاں یہ کالم پڑھنے کے بعد اپنی سہیلیوں کو دے سکتی ہیں، اس طرح انھیں پتہ چلے گا کہ یہ انکل لوگ سیاست کے علاوہ بھی کچھ لکھتے ہیں جو دوشیزاؤں اور خوب صورت گرلز کے کام بھی آ سکتا ہے۔ چلیں جب لڑکیاں کالم پڑھنے کی جانب آ گئی ہیں تو ہم کام کی بات کرتے ہیں۔
دوشیزاؤں کی قسمیں بیان کرنے سے پہلے یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ راقم کو اپنا انکل یا بڑا بھائی سمجھیں۔ لڑکیاں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں، خوب صورت بھی اور قبول صورت بھی، عقلمند بھی اور بیوقوف بھی، فیشن ایبل بھی اور اس غم سے آزاد بھی۔ لڑکیاں امیر گھرانے کی بھی ہو سکتی ہیں اور غریبوں کی بھی۔ وہ سادہ بھی ہو سکتی ہیں اور شوخ و چنچل بھی۔ اب ہم جن لڑکیوں سے مخاطب ہیں ان کی عمر تیرہ سے انیس کے درمیان ہے۔ اگر ہم اس میں دو تین برسوں کا اضافہ کر لیں تو یہ کوئی بری بات نہ ہو گی۔ پڑھاکو، سنجیدہ اور باوقار لڑکیوں کو نکال دیں تو آج ہماری مخاطب وہ لڑکیاں ہیں جو خوابوں کے شہزادے کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ سپنوں کی دنیا سے انھیں حقیقت کی دنیا میں لانے کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ان لڑکیوں سے کہا جا سکتا ہے کہ جلد بازی سے کام نہ لیں اور وقت کا انتظار کریں۔
لڑکیوں سے ہم آج اس لیے بھی مخاطب ہیں کہ ہم نے پچھلے ایک دو برسوں میں پاکستانی لڑکیوں کے بدلتے ہوئے انداز کو دیکھا ہے۔ انھیں عقلمندی سے نادانی کی جانب بڑھتے دیکھا ہے، لڑکیاں چاہے بڑے شہر کی ہوں یا چھوٹے شہر کی، دیہات کی ہوں یا فارن ایجوکیٹڈ، لڑکیاں، لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اگر رومانس کا موسم ہو اور میڈیا نے ایک ماحول بنا دیا ہو تو وہ آسانی سے چالاک لڑکوں اور عیار مردوں کے بہکاوے میں آ جاتی ہیں۔ کچھ مناظر میں انھیں نادانی کی جانب بڑھتے دیکھا ہے، کبھی اسکوٹر پر کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھے تو کبھی رکشے سے اتر کر کسی غیر مرد کی جانب بڑھتے۔ موبائل فون اور ویلنٹائن ڈے نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکثر وہ گہری کھائی میں گرنے کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان سے بڑے کچھ نہیں سمجھ رہے۔
وہ بزرگوں کو نادان یا ظالم سماج قرار دیتی ہیں، دنیا دیکھے یہ بوڑھے ہی نہیں بلکہ ساتویں آٹھویں کے طالب علم بھی جان جاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ کسی پارک یا ہوٹل میں بیٹھے لڑکا لڑکی کو پہلی نظر میں پہچان لیا جاتا ہے۔ بچے اور بڑے سب سمجھ جاتے ہیں کہ یہ نیا شادی شدہ جوڑا ہے یا پریمی جوڑا۔ دیکھنے والے چہرے اور شکل سے لڑکا لڑکی کی تعلیم اور ان کا خاندانی پس منظر جان جاتے ہیں۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکی نادانی کر رہی ہے اور لڑکا چالاکی۔ یہیں سے لڑکیوں میں بے صبری نظر آتی ہے جس کا فائدہ ایک عیار مرد اٹھا رہا ہوتا ہے۔ جو بیوقوف لڑکی اچھے وقت کا انتظار نہیں کر سکتی اس کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے، بیٹی کی نعمت نہ ہونے سے کچھ فائدہ ہے اور یوں کالم نگار کو منظر زیادہ بہتر دکھائی دے رہا ہے۔
اسکوٹر پر سوار پریمی جوڑوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکی حماقت کر رہی ہے، پارک میں، ہوٹلوں میں اور سڑکوں پر۔ اپنی آنکھوں میں خواب سجائے وہ بے تاب دکھائی دیتی ہے، اچھے وقت کا انتظار نہ کرتی ایک بے صبرا لڑکا بس ایسا ہی ہوتا ہے جسے آوارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لڑکی اچھے گھر کی محسوس ہوتی ہے اور لڑکا اس سے کم تر اور کم عقل۔ لڑکی پڑھ رہی ہوتی ہے اور لڑکا پڑھائی چھوڑ چکا ہوتا ہے، وہ کچھ نہیں کر رہا ہوتا، سوائے محبت کرنے کے۔ سچی محبت یا دھوکا دہی؟ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لڑکی کی نظر اپنی خوبیوں پر کیوں نہیں جاتی؟ اسی کو محبت کہتے ہیں کیونکہ وہ کچھ نہیں دیکھتی۔ عشق اندھا ہوتا ہے اور ہم آنکھوں پر پٹی بندھی لڑکیوں کو آج اپنے کالم کا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ ''یوم محبت'' کے حوالے سے ''ویلنٹائن ڈے'' کے موقعے پر۔ اس دن جسے اسلام پسند اور مشرقی تہذیب کے علمبردار ''یوم حیا'' کے طور پر منا رہے ہیں۔
محبت و عشق میں مبتلا ان لڑکے اور لڑکیوں کا ٹکراؤ کیوں ہو جاتا ہے؟ اچھے گھر کی خوب صورت لڑکی اور پڑھائی سے بھاگا ، آوارہ گرد نوجوان۔ جب اٹھارہ بیس سال کی لڑکی بائیس چوبیس برس کے علم بیزار لڑکے سے مل رہی ہوتی ہے تو وہ اچھا لڑکا کہاں ہوتا ہے؟ وہ اس وقت پڑھائی میں مصروف ہوتا ہے، وہ عشق، فلرٹ اور ویلنٹائن ڈے کی دنیا سے دور کتابوں، علم کے خزانوں، لائبریریوں میں اپنا کیریئر بنا رہا ہوتا ہے، اس خلاء سے ایک نالائق لڑکا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب اس کا ہم عمر نوجوان اچھی تعلیم حاصل کر کے رشتے کی مارکیٹ آئے گا تو پھر کیا ہو گا؟ وہ اس کے آنے سے قبل کے وقت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ لڑکی کے والدین اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں، جب وہ رشتہ ٹھکراتے ہیں تو وہ ظالم سماج اور ولن بن جاتے ہیں۔ محبت ڈٹ جاتی ہے، اس محبت کرتی ضدی لڑکی سے ایک سوال کے بعد کالم اپنے اختتامی لمحے کی طرف آ جائے گا۔ خوب صورت شکل اور عقل کی اندھی یہ لڑکیاں صرف ایک سوال کا جواب دے دیں، اگر وہ بدصورت، کالی کلوٹی، معذور اور چیچک زدہ ہوتیں تب بھی یہ نوجوان محبت کا دعویٰ کرتا؟ خوبصورت جسم کا متلاشی نوجوان کبھی ان کی طرف نہ دیکھتا۔ ماں باپ، بہن بھائی اور گھر والے ایسی بیٹیوں پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔ اپنے ویلنٹائن کے لیے ضد کرتی لڑکیاں محبت کے اس فرق کو سمجھیں۔
خوب صورت لڑکیو! بے صبریو! سر راہ مل جانے والی محبت کی ماریو! اپنی اہمیت سمجھو اور وقت کا انتظار کرو، ورنہ تمہارا نصیب زندگی بھر کے لیے درد انگیز ہو گا۔ پھر اگر صبر سے والدین کے فیصلے کی منتظر رہنے والی لڑکیوں کا نصیب ذہین، پڑھے لکھے اور شریف لڑکے ہوں تو شکایت نہ کرنا۔ حالات کو سمجھو اور اچھے وقت کا انتظار کرو۔ اے خوب صورت لڑکیو! ضدی کنواریو! بے وقوف بیٹیو! بے صبری دوشیزاؤ! ٹین ایجر لڑکیو! سمجھ جاؤ۔ خدارا! سمجھ جاؤ!
یہاں سرخی سے مراد ہونٹوں کی سرخی یا لپ اسٹک نہیں بلکہ اخبارات کی سرخی کی بات ہے جسے انگریزی میں ہیڈنگ کہتے ہیں۔ اب یہ کالم پڑھنے والے لڑکے اور مرد مسکرا رہے ہوں گے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ جب لڑکیاں اخبارات ہی نہیں پڑھتیں تو وہ ادارتی صفحے تک کیوں کر آئیں گی؟ جہاں آنے کے لیے تو ایک علم و دانش درکار ہوتی ہے جو چند ایک لڑکیوں میں ہو گی۔ سیاسی، علمی اور ادبی دانش۔ لڑکیوں کی اکثریت تو رومانوی دنیا میں رہتی ہے، خوابوں کے شہزادے کی دنیا میں۔ وہ خواتین کے رسالے رومانوی ناول اور جاسوسی ڈائجسٹ پڑھتی ہیں یا محبت کے گرد گھومتی فلمیں اور ڈرامے دیکھتی ہیں۔ پھر ایک اخبار کے ادارتی صفحے پر لڑکیوں سے مخاطب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اب جب ہم ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے لڑکیوں سے مخاطب ہونے جا رہے ہیں اور وہ اس کوچے میں آتی نہیں تو ہم کلام کس طرح ہوا جا سکتا ہے؟
لڑکیوں سے ایک رومان پرور دن کے موقعے پر مخاطب ہونے کے لیے ہم ان کے اہل خانہ تک جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اب ہم نوجوان لڑکیوں کے والد، بھائی، والدہ اور بڑی بہن سے کہیں گے کہ وہ ہماری مدد کو آگے آئیں۔ وہ یہ صفحہ اور یہ کالم ٹین ایجر بیٹیوں کو پڑھنے کو دیں۔ لڑکیوں کو چچیاں، خالائیں اور پھوپھیاں بھی انھیں یہ تحریر پڑھنے کو دے سکتی ہیں۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف۔ لڑکیاں یہ کالم پڑھنے کے بعد اپنی سہیلیوں کو دے سکتی ہیں، اس طرح انھیں پتہ چلے گا کہ یہ انکل لوگ سیاست کے علاوہ بھی کچھ لکھتے ہیں جو دوشیزاؤں اور خوب صورت گرلز کے کام بھی آ سکتا ہے۔ چلیں جب لڑکیاں کالم پڑھنے کی جانب آ گئی ہیں تو ہم کام کی بات کرتے ہیں۔
دوشیزاؤں کی قسمیں بیان کرنے سے پہلے یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ راقم کو اپنا انکل یا بڑا بھائی سمجھیں۔ لڑکیاں مختلف اقسام کی ہوتی ہیں، خوب صورت بھی اور قبول صورت بھی، عقلمند بھی اور بیوقوف بھی، فیشن ایبل بھی اور اس غم سے آزاد بھی۔ لڑکیاں امیر گھرانے کی بھی ہو سکتی ہیں اور غریبوں کی بھی۔ وہ سادہ بھی ہو سکتی ہیں اور شوخ و چنچل بھی۔ اب ہم جن لڑکیوں سے مخاطب ہیں ان کی عمر تیرہ سے انیس کے درمیان ہے۔ اگر ہم اس میں دو تین برسوں کا اضافہ کر لیں تو یہ کوئی بری بات نہ ہو گی۔ پڑھاکو، سنجیدہ اور باوقار لڑکیوں کو نکال دیں تو آج ہماری مخاطب وہ لڑکیاں ہیں جو خوابوں کے شہزادے کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ سپنوں کی دنیا سے انھیں حقیقت کی دنیا میں لانے کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ان لڑکیوں سے کہا جا سکتا ہے کہ جلد بازی سے کام نہ لیں اور وقت کا انتظار کریں۔
لڑکیوں سے ہم آج اس لیے بھی مخاطب ہیں کہ ہم نے پچھلے ایک دو برسوں میں پاکستانی لڑکیوں کے بدلتے ہوئے انداز کو دیکھا ہے۔ انھیں عقلمندی سے نادانی کی جانب بڑھتے دیکھا ہے، لڑکیاں چاہے بڑے شہر کی ہوں یا چھوٹے شہر کی، دیہات کی ہوں یا فارن ایجوکیٹڈ، لڑکیاں، لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اگر رومانس کا موسم ہو اور میڈیا نے ایک ماحول بنا دیا ہو تو وہ آسانی سے چالاک لڑکوں اور عیار مردوں کے بہکاوے میں آ جاتی ہیں۔ کچھ مناظر میں انھیں نادانی کی جانب بڑھتے دیکھا ہے، کبھی اسکوٹر پر کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھے تو کبھی رکشے سے اتر کر کسی غیر مرد کی جانب بڑھتے۔ موبائل فون اور ویلنٹائن ڈے نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکثر وہ گہری کھائی میں گرنے کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان سے بڑے کچھ نہیں سمجھ رہے۔
وہ بزرگوں کو نادان یا ظالم سماج قرار دیتی ہیں، دنیا دیکھے یہ بوڑھے ہی نہیں بلکہ ساتویں آٹھویں کے طالب علم بھی جان جاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ کسی پارک یا ہوٹل میں بیٹھے لڑکا لڑکی کو پہلی نظر میں پہچان لیا جاتا ہے۔ بچے اور بڑے سب سمجھ جاتے ہیں کہ یہ نیا شادی شدہ جوڑا ہے یا پریمی جوڑا۔ دیکھنے والے چہرے اور شکل سے لڑکا لڑکی کی تعلیم اور ان کا خاندانی پس منظر جان جاتے ہیں۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکی نادانی کر رہی ہے اور لڑکا چالاکی۔ یہیں سے لڑکیوں میں بے صبری نظر آتی ہے جس کا فائدہ ایک عیار مرد اٹھا رہا ہوتا ہے۔ جو بیوقوف لڑکی اچھے وقت کا انتظار نہیں کر سکتی اس کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے، بیٹی کی نعمت نہ ہونے سے کچھ فائدہ ہے اور یوں کالم نگار کو منظر زیادہ بہتر دکھائی دے رہا ہے۔
اسکوٹر پر سوار پریمی جوڑوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکی حماقت کر رہی ہے، پارک میں، ہوٹلوں میں اور سڑکوں پر۔ اپنی آنکھوں میں خواب سجائے وہ بے تاب دکھائی دیتی ہے، اچھے وقت کا انتظار نہ کرتی ایک بے صبرا لڑکا بس ایسا ہی ہوتا ہے جسے آوارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لڑکی اچھے گھر کی محسوس ہوتی ہے اور لڑکا اس سے کم تر اور کم عقل۔ لڑکی پڑھ رہی ہوتی ہے اور لڑکا پڑھائی چھوڑ چکا ہوتا ہے، وہ کچھ نہیں کر رہا ہوتا، سوائے محبت کرنے کے۔ سچی محبت یا دھوکا دہی؟ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لڑکی کی نظر اپنی خوبیوں پر کیوں نہیں جاتی؟ اسی کو محبت کہتے ہیں کیونکہ وہ کچھ نہیں دیکھتی۔ عشق اندھا ہوتا ہے اور ہم آنکھوں پر پٹی بندھی لڑکیوں کو آج اپنے کالم کا موضوع بنائے ہوئے ہیں۔ ''یوم محبت'' کے حوالے سے ''ویلنٹائن ڈے'' کے موقعے پر۔ اس دن جسے اسلام پسند اور مشرقی تہذیب کے علمبردار ''یوم حیا'' کے طور پر منا رہے ہیں۔
محبت و عشق میں مبتلا ان لڑکے اور لڑکیوں کا ٹکراؤ کیوں ہو جاتا ہے؟ اچھے گھر کی خوب صورت لڑکی اور پڑھائی سے بھاگا ، آوارہ گرد نوجوان۔ جب اٹھارہ بیس سال کی لڑکی بائیس چوبیس برس کے علم بیزار لڑکے سے مل رہی ہوتی ہے تو وہ اچھا لڑکا کہاں ہوتا ہے؟ وہ اس وقت پڑھائی میں مصروف ہوتا ہے، وہ عشق، فلرٹ اور ویلنٹائن ڈے کی دنیا سے دور کتابوں، علم کے خزانوں، لائبریریوں میں اپنا کیریئر بنا رہا ہوتا ہے، اس خلاء سے ایک نالائق لڑکا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جب اس کا ہم عمر نوجوان اچھی تعلیم حاصل کر کے رشتے کی مارکیٹ آئے گا تو پھر کیا ہو گا؟ وہ اس کے آنے سے قبل کے وقت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ لڑکی کے والدین اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں، جب وہ رشتہ ٹھکراتے ہیں تو وہ ظالم سماج اور ولن بن جاتے ہیں۔ محبت ڈٹ جاتی ہے، اس محبت کرتی ضدی لڑکی سے ایک سوال کے بعد کالم اپنے اختتامی لمحے کی طرف آ جائے گا۔ خوب صورت شکل اور عقل کی اندھی یہ لڑکیاں صرف ایک سوال کا جواب دے دیں، اگر وہ بدصورت، کالی کلوٹی، معذور اور چیچک زدہ ہوتیں تب بھی یہ نوجوان محبت کا دعویٰ کرتا؟ خوبصورت جسم کا متلاشی نوجوان کبھی ان کی طرف نہ دیکھتا۔ ماں باپ، بہن بھائی اور گھر والے ایسی بیٹیوں پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔ اپنے ویلنٹائن کے لیے ضد کرتی لڑکیاں محبت کے اس فرق کو سمجھیں۔
خوب صورت لڑکیو! بے صبریو! سر راہ مل جانے والی محبت کی ماریو! اپنی اہمیت سمجھو اور وقت کا انتظار کرو، ورنہ تمہارا نصیب زندگی بھر کے لیے درد انگیز ہو گا۔ پھر اگر صبر سے والدین کے فیصلے کی منتظر رہنے والی لڑکیوں کا نصیب ذہین، پڑھے لکھے اور شریف لڑکے ہوں تو شکایت نہ کرنا۔ حالات کو سمجھو اور اچھے وقت کا انتظار کرو۔ اے خوب صورت لڑکیو! ضدی کنواریو! بے وقوف بیٹیو! بے صبری دوشیزاؤ! ٹین ایجر لڑکیو! سمجھ جاؤ۔ خدارا! سمجھ جاؤ!