مغربی روایات مشرق میں مقبول کیوں

دوپٹہ جسے بنت حوّا کی عزت اور غیرت سمجھا جاتا تھا،پہلے خواتین کے سروں سے غائب ہوا اور اب بالکل ندارد ہوتا جا رہا ہے۔

جوں جوں زمانہ ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے، جدیدیت اور فیشن کے نام پر ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ ہماری مشرقی تہذیب اور روایات نہ صرف دھندلاتی جا رہی ہیں بلکہ آئے دن نت نئی مغربی اقدار و رسومات انتہائی غیر محسوس طریقے سے ہمارے اسلامی کلچر میں نفود کرتی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کیبل، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے دنیا کی تہذیبوں کو ایک دوسرے سے روشناس بھی کروایا اور ایک دوسرے کے بہت قریب بھی لا کھڑا کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل ہمارے ہاں مغربی طرزِ زندگی اور مغربی روایات کو اپنانا فیشن اور جدیدیت کا Symbol سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ اسی طرز عمل کا شاخسانہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل اپنی مشرقی، تہذیبی، مذہبی اور سماجی اقدار کے دائروں سے باہر نکل کر مغربی معاشروں کے رہن سہن، عادات و اطوار اور تہذیبوں کو Adopt کرنا باعث فخر و خوشی سمجھ رہی ہے جیسا کہ ہر سال کے اختتام پر New Year Night کا استقبال شدید فائرنگ، آتش بازی اور رقص و سرود کی محفلیں سجا کر کرنا، جب کہ مسلمانوں کا نیا سال محرم سے شروع ہوتا ہے مگر اس کے استقبال کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی نئے اسلامی سال کی ایک دوسرے کو مبارکباد دینا یاد رہتا ہے بلکہ حقیقتاً تو نوجوان نسل کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ نئے اسلامی سال کا آغاز یکم محرم سے ہوتا ہے اور اس سے پہلے اسلامی مہینے کو ہمارے مذہب اور معاشرے میں کتنی فضیلت اور اہمیت دی جاتی تھی۔

بڑے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ جدیدیت کے تقاضوں کو نبھانے کے لیے ہم مغربی اقدار کو اپنانے اور اپنے رہن سہن، میل جول کے طور طریقوں کو بدلنے میں آج فخر و انبساط محسوس کر رہے ہیں، اپنے آپ کو فیشن ایبل اور ماڈرن سمجھ رہے ہیں، اپنی اخلاقی اور انسانی قدروں کا جنازہ نکال کر اپنی نظروں میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں جس کی اجازت نہ تو ہمارا مذہب دیتا ہے اور نہ ہی تہذیب و ثقافت اور اخلاقیات دیتی ہے۔ اس بات کی سچائی کا ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہو گا کہ گزشتہ کئی سال سے ایک اور غیر اسلامی اور فضول رسم ہمارے معاشرے میں پورے جوش و خروش سے اور شرم و حیا کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ویلنٹائن ڈے کے نام سے 14 فروری کو منائی جانے لگی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کو منانے کا مقصد کیا ہے؟ اور کیوں منایا جاتا ہے؟ آئیے! ہم اس دن کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے مفہوم پر غور کیا جائے تو ہماری زبان میں کچھ یوں ہو گا کہ ''آئیے تجدید عہد وفا کریں''۔


اب یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تجدید عہد وفا کن کے درمیان ہو رہا ہے؟ کیا ہمارا مذہب اس قسم کے تجدید عہد وفا کی اجازت دیتا ہے؟ مگر اس سچائی کے باوجود ہماری نوجوان نسل مغربی ممالک کی طرح اپنے ہاں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے اس روایتی جوش و خروش سے مناتی ہے کہ جیسے ہماری مشرقی روایات سے اس کے تانے بانے جڑے ہوں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کیا اب ہمیں مغرب والوں سے محبت کرنے کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے؟ کیا ہم بحیثیت ایک مسلمان اور مشرقی تہذیب سے وابستہ ہونے کی وجہ سے خلوص و محبت اور ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینے پر یقین نہیں رکھتے تھے جو ہمیں ویلنٹائن ڈے منانے کی ضرورت محسوس ہوئی؟ ہمارے نبی پاکؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرما دیا تھا کہ ''ایک دوسرے کو تحفہ دیتے رہو، اس سے محبت بڑھتی ہے''۔ دیکھا جائے تو ایک مومن کی تو ساری زندگی اللہ اور اس کے بندوں کی محبت میں بسر ہوتی ہے اور انسانیت و محبت کا جو درس ہمیں محبوب خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیا، کیا اس طرح کی محبت کا درس ہمیں مغربی ممالک میں منائے جانے والے سال میں صرف ایک دن یعنی ویلنٹائن ڈے منا کر مل سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان نہ صرف محبت کے آفاقی جذبے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ہر رشتے کی محبت کے تقاضوں کو نبھانا ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ ہم تو ویسے بھی محبتوں اور اخوت و بھائی چارے کی مضبوط ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔

ہمیں کسی لغو اور بے شرم محبت کی ضرورت نہیں۔ کہاں اس محبت کا درس جہاں انسانیت بھی شرمسار ہو اور نوجوان نسل اپنی تہذیب و اقدار کو فراموش کر کے بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔ اس ضمن میں قابل ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے اور مشرقی تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہونے کے ناتے بلا شبہ ہماری محبتوں کا اظہار اور معیار کا انداز قطعی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی و سماجی زندگی میں ویلنٹائن ڈے جیسی لغویات اور فضول خرچی پر مبنی روایات منانے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ اور اسلامی کلچر اس قسم کے ایڈونچر اپنانے کی اجازت دیتا ہے۔ کیا آج ہم اس احساس سے قطعی عاری ہو چکے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کا مآخذ وہی بے باک اور بے ہودہ معاشرہ ہے جہاں شرم و حیا کو بہت پہلے چھوڑ دیا گیا ہے اور جہاں بے راہ روی اور بے حیائی پھیلانے کے لیے فضول روایات کو بڑھاوا دے کر اسے باقاعدہ تہوار کی شکل دے دی جاتی ہے اور اقتصادی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔

جس کے اثرات آج ہمارے مشرقی معاشروں پر بھی براہ راست مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ فروری کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ہماری مارکیٹیں ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو پوری طرح ترغیب فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سرخ رنگ کی بہار آ جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس تہوار کو منانا شان سمجھتے ہیں اور اس طرح ہر سال اس کا جنون پہلے سے زیادہ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ کاش! وقت پر ہمیں اپنی اصلاح کا خیال آ جائے اور ہم اپنی نوجوان نسل کو خصوصاً اس غیرملکی یلغار سے محفوظ کر سکیں اور اس روایت کو اپنے معاشرے سے ہمیشہ کے لیے مسترد کر سکیں۔پرانی کہاوت ہے کہ نسلوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے اہم کردار والدین کے بعد استاد کا ہوتا ہے مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ نہ تو آج کل والدین بچوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ استاد اس ضمن میں اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کو تیار نظر آتے ہیں۔

والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے مذہب اور تہذیبی اقدار سے جوڑ کر رکھیں جب کہ دوسری طرف اساتذہ بھی نوجوان نسل کی تربیت میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں۔ مگر اس حوالے سے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج کل ہمارے تمام تعلیمی اداروں میں سے کردار سازی کے عنصر کو بہت حد تک نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی ادارے تعلیم تو فراہم کر رہے ہیں مگر اخلاقی اور مذہبی تربیت فراہم کرنے سے پہلو تہی برت رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں بتدریج بے راہ روی اور غیر اسلامی روایت کو فروغ مل رہا ہے اور ایسی تمام روایات جن کا ہمارے کلچر سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہمارے معاشرے کا لازمی جز بنتی جا رہی ہیں۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ویلنٹائن ڈے جیسی روایت کو نہ صرف ہمارے معاشرے میں مسترد کیا جائے بلکہ نوجوان نسل کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ اس قسم کی خرافات کی ہمارے مشرقی اور اسلامی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں ابھی حالات کی نزاکت کا احساس نہیں ہو رہا کہ کس تیزی سے ہمارے یہاں تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر دوپٹہ جسے بنت حوّا کی عزت اور غیرت سمجھا جاتا تھا، وہ پہلے خواتین کے سروں سے غائب ہوا اور اب بالکل ہی ندارد ہوتا جا رہا ہے۔ تقریباً تمام پوش گھرانوں کی خواتین نے اس مشرقی اور مذہبی پہناوے سے جان چھڑالی ہے۔
Load Next Story