BUS کے بس میں
نچلے اور متوسط طبقے کے لیے ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے اخراجات نت نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
اتوار کے دن دیر سے اٹھنا اور حسب توفیق شیو نہ کرنا دو ایسے کام ہیں جن سے زندگی کی یہ مشینی یکسانیت، عارضی طور پر ہی سہی، ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ان کی صحیح اہمیت اور خوشی وہی لوگ جان سکتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے اس دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ ناسخ کا ایک شعر ہے؎
ہِر پِھر کے دائرے میں ہی رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردش پرکار' پائوں میں
سو اس اتوار کو اس عارضی خوشی سے محروم کرنے والوں میں اگرچہ اور بھی کچھ نام ہیں لیکن اصل ذمے دار برادرم ندیم حسن آصف ہی ٹھہرتے ہیں کہ جن کے اصرار کی وجہ سے میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں میری شرکت ممکن ہوسکی۔ میں نے انھیں بتایا بھی کہ میں اس طرح کی ''ہٹو بچو'' والی سرکاری تقریبات سے حتی الممکن گریز کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے مجھے شہ کا مصاحب بن کر اتراتے ہوئے پھرنے کا نہ تو کوئی شوق ہے اور نہ خواہش، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات بوجوہ ایسی محفلوں میں شامل ہونا پڑجاتا ہے۔
میاں شہباز شریف المعروف خادم اعلیٰ پنجاب کے منصوبوں اور ان پر عملدرآمد کے نیم مجنونانہ طریقوں پر ان کے بیشتر سیاسی مخالفین اکثر تنقید کرتے پائے جاتے ہیں اور یہ ساری کی ساری تنقید غلط یا بے جا بھی نہیں ہوتی لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ جزوی اختلافات سے قطع نظر اس شخص کا وژن اور کام کرنے اور لینے کی غیر معمولی صلاحیت قابل تعریف بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔ لاہور کے دیگر شہریوں کی طرح میں نے بھی گزشتہ ایک برس خاصی تکلیف میں گزارا ہے کہ جس طرف کو بھی نکلیں میٹرو بس کے حوالے سے کی جانے والی کھدائیاں اور تعمیرات آپ کا رستہ روک لیتی ہیں اور ٹریفک کے بے محابا رش اور متبادل راستوں کی تنگی اور پیچیدگی کے باعث آپ پریشان بھی ہوتے ہیں اور آپ کو غصہ بھی آتا ہے اور ایسے میں یہ خوش خبری اورجواز کہ عنقریب اس تکلیف کا نتیجہ راحت میں بدلنے والا ہے اور لاہور کے شہریوں کو کاہنہ سے شاہدرہ تک 27 کلومیٹر لمبی ایک ایسی سڑک ملنے والی ہے جس پر میٹروبس سروس نامی پبلک ٹرانسپورٹ' متبادل ٹرانسپورٹ یعنی کار، ویگن، رکشا، ٹیکسی اور چن چی وغیرہ کی نسبت بہت کم کرائے پر نہ صرف دستیاب ہوگی بلکہ اس کے ذریعے سے آپ کے وقت میں بھی غیر معمولی بچت ہوگی اور آپ اس انگریزی ترکیب Time is money کے اصل معانی سے آگاہ ہوسکیں گے، مل کر بھی آپ کی تسلی نہیں کرتے۔ ہر سرکاری تقریب کی طرح اس تقریب میں بھی جن حکومتی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی اور جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ان کی صحت مشکوک ہوسکتی ہے لیکن اگر اس سارے کام کو مقامی اور سیاسی جھگڑوں اور اختلافات سے اوپر اٹھ کر دیکھا جائے تو بلا شبہ آخری تجزیے میں یہ منصوبہ ایک تخلیقی اور تعمیری شاہکار ہے یہ اور بات ہے کہ اگر اسے ستر کی دہائی میں سوچا اور مکمل کیا جاتا تو انتہائی کم قیمت پر ہمیں بہت بہتر اور نسبتاً کم پیچیدہ ایسا راستہ مل جاتا جس سے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال اور عمومی عوامی رویے کو زیادہ تقویت ملتی۔
میں پہلے بھی کئی بار انھی کالموں اور اظہار کے مختلف پلیٹ فارموں پر یہ عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کو دنیا کے ترقی یافتہ سیاسی نظاموں سے بصیرت اور عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کس طرح وہ لوگ قومی اور ملکی پالیسیوں کو اپنی اپنی پارٹی پالیٹکس سے الگ اور بالاتر ہوکر دیکھتے' سوچتے اور برتتے ہیں۔ اگر پچھلی حکومت نے کوئی اچھا کام کیا ہے اور اس کی تختی کہیں لگی ہے تو اسے اتارنے یا اس کے شروع کیے ہوئے کام کو روکنے میں سراسر نقصان عوام اور قوم کا ہے آپ ان منصوبوں کو بہتر بنانے کے لیے ان میں ترامیم بے شک کریں لیکن ان کی تنسیخ (انتہائی خصوصی صورتحال سے قطع نظر) گھاٹے کا ایسا سودا ہے جس سے پچھلی حکومت والوں کو تو شاید کوئی نقصان نہ پہنچے البتہ آپ اور آپ کی حکومت کو ضرور پہنچے لگا۔ مثال کے طور پر اگر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت کے زمانے میں 1122 کی ایمرجنسی سروس شروع کی گئی تھی اور وہ عوام کے لیے فائدہ مند ہے تو میاں شہباز شریف اور ان کے بعد آنے والوں کو چاہیے کہ وہ اسے چلنے دیں اور ا گر میاں شہباز شریف کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کا مقصد عوام کو کوئی آسانی فراہم کرنا ہے تو برائے خدا اس کی صرف اس لیے مخالفت نہ کیجیے کہ اس طرح آپ کے سیاسی مخالف کو جو Milage مل رہی ہے اس کا رستہ روکا جاسکتا ہے۔ یہی مشورہ میں عمران خان کو بھی دوں گا کہ میرے دل میں ان کے لیے عزت بھی ہے اور نرم گوشہ بھی کہ وہ بھی اس طرح کی باتوں میں زیادہ وقت ضایع نہ کریں کہ اصل خرچہ کیا ہے اور بتایا کیا جارہا ہے' اس کا زیادہ مناسب طریقہ غالباً یہ ہوگا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں تو اپنے حصے کی شمع کو ٹھیک اور بہترین طریقے سے روشن کریں۔ تقریب میں برادر ملک ترکی کے نائب وزیراعظم' استنبول کے ڈپٹی میئر اور وہاں کی اس تعمیراتی کمپنی کا مالک بھی موجود تھے جس نے اس منصوبے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال میں کسی بیرونی اور بالخصوص اسلامی ملک کی یہاں پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے مثبت پہلو اس متعلقہ منصوبہ کے منفی پہلوئوں سے کہیں زیادہ ہیں اور اگر واقعی چار سے پانچ سال کے اندر یہ منصوبہ اپنی لاگت پوری کرلیتا ہے تو یہ یقینا ایک خوش آیند بات ہے۔ ایل ڈی اے کے چیئرمین احد چیمہ اور اس منصوبے کے انچارج سبطین فضل حلیم ہماری بیورو کریسی کی دو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دونوں کا شمار اچھے اور مستعد افسروں میں ہوتا ہے اور جس طرح سے یہ منصوبہ جو استنبول میں تقریباً ساڑھے تین سال میں مکمل کیا گیا تھا ہمارے یہاں گیارہ ماہ میں تکمیل کو پہنچا ہے تو اس میں میاں شہباز شریف کی مسلسل اور بھر پور نگرانی اور ہلاشیری کے ساتھ ساتھ ان افسران' ان کے عملے' ٹھیکے داروں اور مزدوروں کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کیسے اس انتہائی مشکل منصوبے کو اتنے کم وقت میں خوش اسلوبی سے مکمل کر دکھایا ہے۔ میرے ساتھ والی نشست پر ٹیپا کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر بیٹھے تھے انھوں نے بتایا کہ پہلی کھیپ میں 45 بسیں سمندری راستے سے لائی گئی ہیں لیکن آگے چل کر ان کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہوجائے گی۔
وقت پر سڑکوں کو کشادہ نہ کرنے' لیز پر ضرورت سے زیادہ گاڑیاں سڑکوں پر لانے اور CNG کی کمی کے باعث اس وقت لاہور سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہر مختلف طرح کے ٹریفک مسائل کا شکار ہیں سو بجائے اس منصوبے کو ایک سیاسی ایشو بنانے کے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ اس کے نقائص کو دور کرکے باقی بڑے شہروں کو بھی اس کے دائرے میں شامل کیا جائے کیونکہ نچلے اور متوسط طبقے کے لیے ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے اخراجات نت نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور بظاہر ان میں کوئی کمی بھی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کہ اس ضمن میں کسی متبادل منصوبہ پر بھی کام نہیں کیا جا رہا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس منصوبے کے ذریعے سے میاں شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے آیندہ انتخابات کے لیے زمین ہموار کی ہے تو یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ سہولت لاہور کے عوام اور ان کی آیندہ نسلوں کے لیے ہے۔ سو اس کا احتساب تو بے شک کیا جائے لیکن مخالفت کو اس حد تک نہ لے جایا جائے کہ اس پر کیا گیا خطیر خرچہ برباد اور اس کی افادیت ختم ہوجائے۔ خدا ہم سب کو توفیق دے کہ وطن اور معاشرے کا مفاد ہمارے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوجائے۔