منصب ِ دلبری پہ پھر تجھ کو بحال کردیا
میاں صاحب کو ججوں کی ذات یا ان کی تعداد کا ذکر ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
THE HAGUE:
گرمی زوروں پر اور حبس ایسی کہ لُو کی دعا مانگتے ہوں لوگ ایسا ناخوشگوار موسم جس میں لوگوں کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہو، اتنی بڑی تعداد میں مخلوقِ خدا کا باہر نکل آنا ایک ایسے مسافر کے استقبال کے لیے جو فاتح کی حیثیّت سے نہیں بلکہ اقتدار اور وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہوکر گھر جارہا تھا، ایک حیرت انگیز منظر تھایہ سب کے لیے حیران کن تھا اُسکے مخالفوں کے لیے بھی اور حامیوں کے لیے بھی گجرات، گوجرانوالہ اور لاہور کے جس عینی شاہد سے بھی پوچھا اُس نے کہا ریلی کی دو باتیں بہت نمایاں تھیں۔ نوجوان بڑی تعداد میں تھے اور لوگوں کا جوش و خروش غیر معمولی تھا۔
میں نے بار بار پوچھا حکومت اور حکمران عام طور پر عوام کی توقعات پوری نہیں کرپاتے اسلیے دو تین سال بعد وہ غیر مقبول ہوجاتے ہیں، میاں نواز شریف تو چار سال سے زیادہ عرصے سے وزیرِ اعظم تھے پنجاب میں وہ دس سالوں سے حکمران چلے آرہے ہیں، اتنا طویل عرصہ ہوجائے تولوگ ویسے ہی تنگ آجاتے ہیں کہیں ان لوگوں کو پولیس اور پٹوار گھیر گھار کر تو نہیں لائی تھی۔
ہر گواہ نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہم نے اُس طرح کے مجبور مجمعے بھی دیکھے ہیں ان کے حلق سے تو آواز ہی نہیں نکلتی مگر یہ مختلف قسم کا ہجوم تھا جو 'مسافر ' کی گاڑی کے ساتھ دیوانہ وار دوڑ رہا تھا۔ اتنی تعداد اور اسقدر جوش و جذبہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس ہجوم کو موسم کی شدّت کی کوئی پرواہ نہیں تھی ان کی آنکھوں میں مسافر کے لیے ہمدردی بھی تھی ،محبت بھی تھی اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر غصہ بھی تھا۔
میاں نواز شریف سے ان کے اپنے ارکانِ اسمبلی کو بھی اور ورکروں کو بھی شکایات تھیں، سب سے بڑی یہ کہ ملتے ہی نہیں، وقت نہیں دیتے۔ مگر یہ کیا کہ اُدھر عدالت نے منصبِ اقتدار سے ہٹایا تو ساتھ ہی عوام نے منصبِ دلبری پر بحال کردیا(مصرعے میں معمولی ترمیم پر پروین شاکر کی روح سے معذرت خواہ ہوں) ۔ ایسا خوش بخت انسان بھی کوئی دیکھا ہے! کئی محفلوں میں میاں صاحب کی خوش بختی پر بحث ہوئی، کئی غیر جانبدار حضرات کے ساتھ اس کی وجوہات کا تجزیہ ہوا ایک صاحب کا کہنا تھا نواز شریف نے نہ کسی مخالف کو مروایا ، نہ بے عزت کروایا نہ جیل میں بند کرایا بلکہ زبان سے بھی کبھی ناشائستہ لفظ نہیں نکالااس لیے عوام کے دل میں ان کے لیے پسندیدگی ہے۔
کئی صاحبان نے کہا اپنے پیشروؤں کی نسبت ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے، ملک کی ترقی کے لیے ان کی کوششیں نظر آتی ہیں اور چار سالوں میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہیں نکلا۔ کئی دوستوں نے راقم سے پوچھا آپ بیس سال پہلے ایس ایس پی کے طور پرپرائم منسٹر کے اسٹاف آفیسر رہے ہیں ، اسے قریب سے جانتے ہیں ، آپ کے خیال میں قدرت اُس پر اتنی مہربان کیوں ہے کہ اقتدار کے پانچویں سال بھی مخلوقِ خدا کے دل میں اس کے لیے اتنی چاہت ! ۔ میں نے کہا " وہ غریب پرور ہے اور اس کی والدہ زندہ ہیں اس پر غریبوں اور ماںکی دعاؤں کا سایہ ہے"۔ مگر اس کے خلاف پچھلے بیس سالوں میں رشوت یا کمیشن لینے کا کوئی الزام ثابت ہوتا تو میرے قلم سے ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہ نکلتا۔
کچھ چینلوں اور کچھ اینکروں کی نواز شریف سے مخاصمت بڑی واضح ہے ان میں سے بھی ایک صاحب کو لاہور کے اجتماع کے بعد بادلِ نخواستہ فرمانا پڑا کہ "یہ درست ہے کہ داتا دربار سے شاہدرہ تک (چارپانچ کلومیٹر کا علاقہ ) لوگ ہی لوگ تھے او ر مجمع بڑا Chargedتھا"۔
پلڈیٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ منتخب وزیرِ اعظم کی موجودہ نا اہلی کو سابقہ برخاستگیوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا ، سب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ رہا ہے، نواز شریف پہلی بار یہ مقدمہ لے کر عوام کے پاس آئے ہیں اور تین چار دنوں میں انھوں نے اپنا کیس establishکردیا ہے اور عوام کو قائل کردیا ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث نہیں ہیں، اگر ہوتے تو انھیں کرپشن کی وجہ سے نکالا جاتا انھیں نکالنے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور اس سازش کے منصوبہ ساز بھی وہی ہیں جو ہمیشہ وزرائے اعظم کو فارغ کرتے رہے ہیں۔
بلاشبہ میاں نواز شریف نے عوام کی عدالت سے اپنا کیس جیت لیا ہے۔ انھوں نے سیدھے سادھے انداز اور سادہ زبان میں ووٹ کے تقّدس کی پامالی اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کا کیس اتنے موثر انداز میں پیش کیا کہ کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی اس طرح پیش نہ کرسکتا۔
اپنا مقدمہ پیش کرنے کے بعد وہ عوام سے فیصلہ بھی لیتے رہے اور عوام بھی فیصلے کا اعلان ببانگِ دھل کرتے رہے کہ" اب ہم اپنے ووٹ کی توہین اور مینڈیٹ کی پامالی قبول نہیں کریں گے"۔ ان کی اور ان کے خاندان کی پچھلے کئی مہینوں سے توہین کی جاتی رہی اور بالآخر ایک کمزور اور بودی سی دلیل پر منتخب وزیرِاعظم کو نااہل قراردے دیا گیا۔ اس پر وہ hurt ہوئے تھے، ان کا دل دکھی تھا ان کے بیٹھے ہوئے گلے نے عوام کے مقبول رہنما کی آواز میں وہ درد اور کرب پیدا کردیا تھا کہ اس کی تاثیر سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
صرف چار دنوں میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آج بھی اس ملک کاسب سے مقبول اور طاقتور عوامی رہنما نوازشریف ہے ، اور اسے ملک کے سیاسی منظر نامے سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ تمام اداروں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔ کچھ تاریخی حقائق کے بارے میں انھوںنے عوام کو درست educateکیا ہے کہ کسی بھی منتخب وزیرِ اعظم کو اپنی مدّت پوری نہیں کرنے دی گئی عدلیہ نے کبھی کسی ڈکٹیٹر کو اُسکے جرم کی سزا نہیں دی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ منتخب وزیرِ اعظم کو تفتیشی افسروں کے سامنے پیش کروانے والے missing persons کے مقدمات میں بھی کبھی کسی جرنیل کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے پر مجبور نہیں کرسکے۔ مختلف افراد کے ساتھ انصاف کا معیار مختلف ہوگا اور مختلف اداروں کے ساتھ عدلیہ کا رویہ مختلف ہوگا تو پھرسوال بھی اُٹھیں گے۔
پارلیمنٹ کو جوکہ (mother of all other institutions)سمجھی جاتی ہے، سب سے کمزور اور سب سے Vulnerable بنادیا گیا ہے ، عام دیہاتی بھی اب کہنے لگے ہیں کہ ملک کے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ گٹھ جوڑ کرتی رہی ہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا کئی چینلوں کے رپورٹروںکے پوچھنے پر عام ورکروں نے کہا "منتخب وزیرِاعظم کے خلاف سازشیں بند ہونی چاہئیں" ،"چلمن کے پیچھے بیٹھ کر فیصلے نہیں ہونے چاہئیں"۔ " وزیرِ اعظم بنانے اور ہٹانے کا اختیار صرف عوام کا ہے کسی کو یہ اختیار چھیننے کی اب اجازت نہیں دی جائے گی"۔مگر کچھ باتوں سے میاں صاحب کو گریز اور پرہیز کرنا چاہیے۔
اگرچہ فیصلے کی بنیاد بہت کمزور اور متنازعہ ہے مگر عدالت اور ججوں کا احترام ہر حال میں ملحوظ رہنا چاہیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والے وزیرِ اعظم کو پانچ ججوں نے کیوں برطرف کردیا، دس کروڑ ووٹ لینے والی مسز اندرا گاندھی کو ایک جونئیر جج نے نااہل قرار دے دیا تھا۔ جس سسٹم اور آئین نے آپ کو وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز کیا تھا اُسی آئین نے عدالتِ عظمیٰ کو اختیار دیے ہیں۔ میاں صاحب کو ججوں کی ذات یا ان کی تعداد کا ذکر ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔
اسی طرح اس سوال کا جواب عوام سے نہیں مانگنا چاہیے کہ" ووٹ کی توہین کون کرتا ہے اور کون وزرائے اعظم کو ان کی مدّت پوری کرنے نہیں دیتا؟"۔ اس میں جہاں عسکری ادارے قصور وار ہیں وہاں سیاستدان بھی بے قصور نہیں، ماضی میں وہ بھی ان سازشوں میں شریک رہے ہیں۔ عوام کے دل میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وطنِ عزیز کے لیے سبھی ناگزیر ہیں۔
عوام کو نوازشریف بھی محبوب ہے ، سرحدوں کی حفاظت کرنے والی پاک فوج سے بھی بڑا پیار ہے عمران خان بھی عزیز ہے اور عدلیہ کا بھی احترام ہے۔ یہ سب ملک کا سرمایہ ہیں مگر تاریخ کے اس نازک مرحلے پر کچھ لوگوں کو بڑا پن دکھانا ہوگا میاں نواز شریف کو بھی، عمران خان کو بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی اور آرمی چیف کو بھی۔
یاد رکھّیں! اب جسّدِ ملّت میں کسی مقبول لیڈر کی میّت اٹھانے کی سکت نہیں ہے۔ پھانسیوں اور جلاوطنیوں کے فارمولے ناکام اور نامراد ہوگئے اور ان کے فیصلہ ساز رسوا ہوچکے، ملک کو بڑے سنگین چیلنج درپیش ہیں، یہ وقت ٹکرانے یا ایک دوسرے کو نیچادکھانے کا نہیں معاملات سلجھانے کا ہے۔ ملک کی بقاء اور مستقبل اداروں کے انہدام میں نہیں آئین کے احترام میں مضمر ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک نئے میثاقِ پاکستان کے لیے سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے ایوانِ صدر میںایسا جرگہ منعقد ہو جس میں سیاسی قیادت کی نمائیندگی اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور پارلیمنٹ میں موجود تین یا زیادہ نشستیں رکھنے والی تمام پارٹیوں کے سربراہ کریں۔ صدرِ مملکت ریاستِ پاکستان کے سربراہ اور آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر کی حیثیّت سے اس جرگے کی صدارت کریں۔ تمام فریق نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے اپنا نقطۂ نظراور اپنی شکایات رکھیں مگر مقصد ادارہ جاتی بالادستی نہ ہو بلکہ صرف اور صرف وطنِ عزیز کا مفاد، بقاء، وقار اور مستقبل ہو۔
سب جانتے ہیں کہ ایک آدھ سیٹ رکھنے والے سیاستکار چور دروازوں کے ساتھ لگ کرطالع آزماؤں اور آئین شکنوں کے منتظر رہتے ہیں، ایسے مایوس عناصر کو کھلی چھوٹ ہرگز نہیں دینی چاہیے کہ وہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کریں۔ آرمی چیف جو خود جمہوریت پسند ہیں اس تاثر کو سختی سے ختم کریں کہ کچھ حکومت مخالف چینلوں اور اینکروں کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ماتحت ادارے فوج کے پروفیشنل معاملات کے علاوہ دوسرے معاملات میں ہرگز دخل اندازی نہ کریں۔
دوسری جانب سیاسی قیادت اگر چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام ہو اور وزارتِ عظمیٰ کی توہین نہ ہو تو انھیں گورننس کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ انھیں عوام کو فوری انصاف دینے کے لیے پولیس اور کریمنل جسٹس کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے سے کس نے روکا ہے؟ اور وہ احتساب کا موثّر اور بااعتبار نظام کیوں نہیں قائم کرسکے؟ وہ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کا معیار بہتر کیوں نہیں کرسکے؟۔
بہت سے ممالک میں اداروں کی کشمکش کے مسائل حل ہوچکے ہیں۔ یہ چیزیں طے ہوچکی ہیں، ہمارے ملک میں بھی انشأاﷲآئیندہ بیس سالوں میں یہ سب کچھ طے ہوجائیگا اور سب ادارے اور افراد اپنے اپنے آئینی دائرہ ٔکار میں کام کررہے ہونگے ۔