ایسے نبھاتے ہیں محبت

لیری اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہے۔ چناں چہ سے وہ اپنا 57 سالہ ساتھ نبھانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔

لیری اپنی بیوی کی خاطر گلیوں کی خاک چھان رہا ہے۔ فوٹو : فائل

غربت اور مصیبت کے ستائے فقیروں کی صدائیں تو سب نے ہی سنی ہوں گی جو اپنی بھوک اور بیماری کا سوال کر کے لوگوں سے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں۔تاکہ اپنا گزارا کر سکیں اور اپنی مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں

۔ بعض فقیر پیسوں کے بہ جائے کھانے اور دوا کے لیے بھی فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے اپنی محبت بچانے کے لیے کسی کو فقیرانہ بہروپ دھارے دیکھا یا سنا؟ جو صرف اپنی محبت سے مجبور ہو کر گلیوں اور سڑکوں کے کنارے صدائیں بلند کر رہا ہو۔ محبت بچاتے فقیر کے ذکر پر قارئین شاید یہ سمجھیں کہ کوئی دل جلا نوجوان درد محبت کے ہاتھوں اپنی عقل گنوا بیٹھا ہو۔ اگر آپ بھی ایسا سمجھ رہے ہیں تو یقیناً غلطی پر ہیں یہ ذکر ہے امریکا کی ریاست جنوبی کیرولینا کے اس 77 سالہ بوڑھے لیری کا جو اپنی بیمار بیوی جمی کے لیے سڑک پر نکل آیا ہے۔

لیری کی شادی 1956ء میں ہوئی۔ دونوں میاں بیوی کے درمیان نصف صدی قبل پروان چڑھنے والا پیار عمر کے اس حصے میں بھی تازہ ہے۔ گردشِ زمانہ کی گرد اس محبت کی تابندگی کم نہیں کر سکی ہے۔ وہ جو محبت کو صرف شباب کے دنوں کا وقتی جذبہ اور ضرورت سمجھتے ہیں ، ان کے لیے اس جوڑے کی محبت اس جذبے کے وقت اور عمر کی قید سے آزاد ہونے کی ایک مثال ہے، کہ کس طرح ایک شوہر اپنی بیوی کی جان بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔

جمی کا واحد گردہ ان کے پہلے بچے کی پیدایش کے بعد سے متاثر تھا، جس کے بعد سے اس کی صفائی (ڈیالیسس) کی جاتی رہی۔ تاہم اب ڈاکٹروں نے جمی کے لیے گردے کی تبدیلی لازمی قرار دے دی ہے۔ اپنی شریک حیات کے لیے عملاً جان نچھاور کرنے والا شوہر اس کے لیے اپنا ایک گردہ دینے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن یہ خبر اس کے لیے ایک اور مشکل بن کر نازل ہوئی جب ڈاکٹروں نے طبی معائنے کے بعد اس کا گردہ جمی کے لیے غیر سود مند قرار دے دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، اس نے جمی کا نام اعضا کے ضرورت مند افراد کی فہرست میں درج کرا دیا، لیکن اس کی محبت کی آزمایش ابھی ختم کہاں ہوئی تھی!


اعضا حاصل کرنے کے خواہش مندوں کی فہرست میں اس کے نام سے پہلے 880 افراد اپنی باری کے منتظر تھے۔ یوں جمی کو اپنے گردے کی پیوند کاری کے لیے دو سے تین سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ یہ فہرست دنیا سے جانے والوں کے صحت مند اعضا حاصل کرنے والوں پر مشتمل ہوتی ہے، جو اس کے لیے وصیت کر جاتے ہیں۔ امریکا بھر میں اس طریقۂ کار کے تحت مختلف اعضا تبدیل کرانے کے منتظر افراد کی تعداد ایک لاکھ پندرہ ہزار 208 ہے۔

یہ تمام صورت حال لیری کے لیے شدید پریشان کن تھی۔ وہ اپنی محبوب بیوی کی بیماری کے ہاتھوں سخت پریشان ہو گیا۔ بالآخر اس نے پیرانہ سالی کے باوجود اپنی محبت کا حق ادا کرنے کے لیے کمر کس لی اور کیرولینا کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آیا۔ اس کے گلے میں ایک بڑا سا پلے کارڈ لٹکا ہوا تھا، جس پر جلی حرف میں "Need kidney for wife" درج تھا۔ ساتھ ہی وہ آوازیں بھی لگاتا جا رہا تھا کہ مجھے اپنی بیوی کی جان بچانے کے لیے گردے کے عطیے کی اشد ضرورت ہے۔

لیری اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہے۔ چناں چہ سے وہ اپنا 57 سالہ ساتھ نبھانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، اسے تو صرف اپنی عزیز بیوی کے لیے گردہ درکار ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اپنے گلے میں بورڈ پہنے روزانہ دور دور تک جاکر گلیوں میں مدد کے لیے صدائیں بلند کرتا پھرتا ہے۔
لیری کی اپنی دیرینہ محبت کے لیے یہ کاوش قطعی رائیگاں نہیں گئی، اب تک سو سے زاید لوگوں نے مدد کی خواہش ظاہر کی ہے۔

لیکن جب ان لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں سے کسی کا بھی گردہ جمی کے لیے سود مند نہ تھا۔ لیری اب بھی اپنے پیار کی خاطر گلیوں کی خاک چھان رہا ہے۔ اسے کام یابی کب ملے گی؟ اس بابت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ بات طے ہے کہ لیری نے عمر کے اس حصے میں بھی دنیا کے سامنے اپنی محبت کی آزمایش میں سرخروئی حاصل کر لی اور دنیا بھر کے پیار کرنے والوں کو بتادیا کہ پیار کیسے کیا جاتا ہے اور کس طرح نبھایا جاتا ہے۔ محبت کے لطیف جذبے کے تحت باتیں تو بہت کی جاتی ہیں کہ چاند تارے توڑ لائوں گا، دودھ کی نہر نکالوں گا، لیکن جب محبت امتحان میں آتی ہے تو بہت کم لوگ اس مرحلے میں لیری کی طرح کام یاب ہوتے ہیں۔
Load Next Story