الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کیلئے قادری کی درخواست مسترد
مقصد الیکشن کا التوا ہے، عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کیلیے دائر طاہر القادری کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار فعال کرنے اوریہ دعویٰ ثابت میں ناکام رہے کہ ان کا کوئی بنیادی حق متاثر ہوا۔ وہ نیک نیتی بھی ثابت نہیں کرسکے، حقائق کی روشنی اور حالات کے تناظر میں آئینی پٹیشن کا کوئی حق نہیں بنتا۔ ایسے مرحلے پر جب الیکشن سر پر ہیں اور درخواست گزار دہری شہریت کی وجہ سے آئینی پابندی کے باعث الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکتے، انھیں حق نہیں پہنچتا کہ الیکشن کمیشن کو چیلنج کریں۔ بحیثیت ووٹر انکا حق مسلمہ ہے اور دہری شہریت والے دیگر پاکستانیوں کی طرح انکو بھی ووٹ کا حق ہے۔
عدالت نے طاہر القادری کے نازیبا الفاظ اور عدلیہ کو نیچا دکھانے کا بھی ذکر کیا اور قرار دیا کہ درخواست گزار نے جوہتک آمیز رویہ اپنایا اور زبان استعمال کی وہ عدالت کی اتھارٹی کو نہ ماننے کے مترادف ہے اور ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے لیکن عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر کرتی ہے۔ ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ طاہر القادری کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے ۔ بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے کہ طاہر القادری کا مقصد الیکشن کا التوا ہے، ملک الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے ایسے وقت میں الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مقصد درست نہیں۔
قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو طاہر القادری نے دہری شہریت کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ انھوں نے بطور مذہبی اسکالر کینیڈین شہریت کیلیے درخواست دی، شہریت ملنے کے بعد تقریب حلف برداری بھی ہوئی، اسے تصدیق شہریت کی تقریب کہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ابھی تک آپ حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بطور مسلمان آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ کس سے حلف وفاداری لینا ہے، ہم نے آپ کو بہت سن لیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے کینیڈا کا حلف لیا ہے، سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ حلف کس کا لینا ہوتا ہے، ہم سب صرف اللہ کے محکوم ہیں۔ بار بار سوالات کے باوجود جب درخواست گزار نے ٹھوس جواب نہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا جب آپ عدالت آئے ہیں تو سوالات کا جواب دینا لازمی ہے،عدالت کا دروازہ کھولنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دستک دینے والا چاہتا کیا ہے۔ اس پر طاہر القادری مشتعل ہوگئے اور کہا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کیلیے حق دعوٰی ضروری نہیں، دہری شہریت پر 3دن سے ٹرائل ہو رہا ہے۔
پاکستان سے وفاداری مشکوک کرکے تھرڈ کلاس شہری بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے آداب کا خیال رکھیں اور جو سوال پوچھا جائے جواب دیں۔ طاہر القادری نے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تصویر اٹھائی اور کہا اس تصویر میں آپ پرویز مشرف سے حلف لے رہے ہیں، آپ نے ایک ڈکٹیٹر کا حلف لیا اور آپ پی سی او جج ہو، اسکے بعد آپ نے کوئی نیا حلف نہیں اٹھایا، 3 دن صرف سیاسی سوال کیے گئے۔ اس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور انھیں بیٹھ جانے کی ہدایت کی،چیف جسٹس نے کہا آپ عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں،آپکے دلائل ختم ہوگئے، اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا مذاق اڑایا گیا جبکہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ عدالت نے انکا مذاق اڑایا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بیرون ملک خود کو پاکستانی شہری نہیں کہلواتے۔
ثنا نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مسقط اور کابل جاتے ہیں تو کینیڈین شہری بن جاتے ہیں، اب کہتے ہیں کہ بنیادی حق متاثر ہوا۔ طاہر القادری نے کہا کہ نارتھ سے سائوتھ پول تک کوئی پاکستانی شہریت ختم نہیں کر سکتا، پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ مجھے درخواست دینے کا حق ہے کہ نہیں، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں؟ بیرون ملک لاکھوں پاکستانیوں کو غلط پیغام جارہا ہے، میرا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ میڈیا کیا کہتا ہے ہمیں پتہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کیلیے دروازے بند نہیں کرسکتے۔ طاہر القادری نے کہا کہ مجھے تحریری جواب پڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے درخواست کسی تنظیم کی طرف سے نہیں ذاتی حیثیت سے دی۔
جسٹس گلزارنے کہاکہ طاہرالقادری باربار سوالات پوچھنے کو ٹرائل کا نام نہ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطر رکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں؟ ۔طاہرالقادری نے کہا کہ ملکہ برطانیہ سے حلف لینا ایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف سے حلف لینا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ عدالت سے مخاطب ہیں، میڈیا سے مخاطب ہونا ہے تو باہر چلے جائیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق طاہر القادری نے کہا کہ چیف جسٹس کی وفاداری بھی مشکوک ہے، انھوں نے جمہوریت کے تحت نہیں پرویزمشرف سے حلف لیا۔ انھیں پتہ ہے کہ ملکہ برطانیہ اور مشرف کے حلف میں کیا فرق ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ طاہر القادری کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2005 میں صدر کون تھا اور جج صدر سے ہی حلف لیتا ہے۔ طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ آپ جو ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں وہ انھیں سمجھتے ہیں۔ جس پر عدالت نے انھیں روسٹرم سے اترنے کا حکم دیا، اٹارنی جنرل عرفان قادر نے طاہر القادری کے حق دعوٰی کی تائید کی اور کہا کہ پٹیشن کا حق انھیں حاصل ہے، 31جولائی کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں، جب سپریم کورٹ نے اپنا دائرہ اختیار اس قدر وسیع کر دیا ہے تو اس کیس کو بھی سننا چاہیے، سب کیلیے یکساں معیار ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کی نیک نیتی اور حق کو تو بھی دیکھنا پڑے گا، ایک شخص جو پارلیمنٹ کی رکنیت کیلیے نااہل اور غیر ملکی شہری ہے، اس کو کیسے نظر انداز کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا وہ اس سے بھی متفق نہیں، دہری شہریت کوئی رکاوٹ نہیں اور جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کو تو یہ پتہ نہیں کہ جب میں جج بنا تو ملک کا صدر کون تھا، 100 سے زائد رجسٹرڈ جماعتیں ہیں، 342ارکان پارلیمنٹ،100سینیٹروں،600سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی اور 10 لاکھ ووٹرز ہیں مگر طاہر القادری کے سوا کسی کو الیکشن کمیشن پر اعتراض نہیں۔ اچانک کینیڈا سے آکر اعتراض کرنے پر خلوص نیت ثابت کرنا ہوگی، اب جبکہ الیکشن ہونے جارہے ہیں اور عوام جس کو چاہیں منتخب کر لیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسی کو اعتراض نہیں، منتخب اسمبلی کی مدت پوری ہورہی ہے، اس مرحلے پر ایک شخص جس کی وفاداری کہیں اور ہے اور اسے آرٹیکل 5کی پروا بھی نہیں، وہ الیکشن کمیشن ختم کرنا چاہتا ہے، کیا یہ نیک نیتی ہے؟۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں بدنیتی بھی نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سسٹم کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بدنیتی؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت یہ پوچھ سکتی ہے کہ انھیں اتنے دن بعد اب کیسے خیال آیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے اسکا جواب نہیں دیا، الٹا توہین عدالت پر اتر آئے۔ ایک چیز طے ہے ملک کو جمہوری نظام کے تحت چلانا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ پاکستان آنے سے پہلے درخواست گزار کا نعرہ تھا سیاست نہیں ریاست بچائو اور جب23 دسمبر کو آئے تو تقریر میں2سال الیکشن کی التوا کی بات کی۔ عدالت نے کہا کہ یہ سنگین معاملہ ہے، تقریر کا متن اور ریکارڈنگ پیش کی جائے، اس موقع پر طاہر القادری نے کہا کہ انھوں نے ایسی بات نہیں کی تاہم عدالت نے انھیں بیٹھنے کیلیے کہا ،چیف جسٹس نے کہا کہ 3 دن بولنے کے بعد آپ نے عدالت سے بہت اچھا سلوک کیا۔ یہ غیر معمولی کیس ہے، تمام چیزوں کو دیکھا جائے گا۔ جوائنٹ سیکریٹری قومی اسمبلی لطیف قریشی نے درخواست کی مخالفت کی جبکہ اٹارنی جنرل نے بتا یا کہ وہ وفاق کی طرف سے بھی وہی کہیں گے جو انھوں نے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے کہا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار فعال کرنے اوریہ دعویٰ ثابت میں ناکام رہے کہ ان کا کوئی بنیادی حق متاثر ہوا۔ وہ نیک نیتی بھی ثابت نہیں کرسکے، حقائق کی روشنی اور حالات کے تناظر میں آئینی پٹیشن کا کوئی حق نہیں بنتا۔ ایسے مرحلے پر جب الیکشن سر پر ہیں اور درخواست گزار دہری شہریت کی وجہ سے آئینی پابندی کے باعث الیکشن میں حصہ بھی نہیں لے سکتے، انھیں حق نہیں پہنچتا کہ الیکشن کمیشن کو چیلنج کریں۔ بحیثیت ووٹر انکا حق مسلمہ ہے اور دہری شہریت والے دیگر پاکستانیوں کی طرح انکو بھی ووٹ کا حق ہے۔
عدالت نے طاہر القادری کے نازیبا الفاظ اور عدلیہ کو نیچا دکھانے کا بھی ذکر کیا اور قرار دیا کہ درخواست گزار نے جوہتک آمیز رویہ اپنایا اور زبان استعمال کی وہ عدالت کی اتھارٹی کو نہ ماننے کے مترادف ہے اور ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی ہو سکتی ہے لیکن عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درگزر کرتی ہے۔ ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ طاہر القادری کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے ۔ بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے کہ طاہر القادری کا مقصد الیکشن کا التوا ہے، ملک الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے ایسے وقت میں الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مقصد درست نہیں۔
قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو طاہر القادری نے دہری شہریت کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ انھوں نے بطور مذہبی اسکالر کینیڈین شہریت کیلیے درخواست دی، شہریت ملنے کے بعد تقریب حلف برداری بھی ہوئی، اسے تصدیق شہریت کی تقریب کہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ابھی تک آپ حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بطور مسلمان آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ کس سے حلف وفاداری لینا ہے، ہم نے آپ کو بہت سن لیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود تسلیم کیا کہ آپ نے کینیڈا کا حلف لیا ہے، سب مسلمان سمجھتے ہیں کہ حلف کس کا لینا ہوتا ہے، ہم سب صرف اللہ کے محکوم ہیں۔ بار بار سوالات کے باوجود جب درخواست گزار نے ٹھوس جواب نہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا جب آپ عدالت آئے ہیں تو سوالات کا جواب دینا لازمی ہے،عدالت کا دروازہ کھولنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دستک دینے والا چاہتا کیا ہے۔ اس پر طاہر القادری مشتعل ہوگئے اور کہا کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کیلیے حق دعوٰی ضروری نہیں، دہری شہریت پر 3دن سے ٹرائل ہو رہا ہے۔
پاکستان سے وفاداری مشکوک کرکے تھرڈ کلاس شہری بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے آداب کا خیال رکھیں اور جو سوال پوچھا جائے جواب دیں۔ طاہر القادری نے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تصویر اٹھائی اور کہا اس تصویر میں آپ پرویز مشرف سے حلف لے رہے ہیں، آپ نے ایک ڈکٹیٹر کا حلف لیا اور آپ پی سی او جج ہو، اسکے بعد آپ نے کوئی نیا حلف نہیں اٹھایا، 3 دن صرف سیاسی سوال کیے گئے۔ اس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور انھیں بیٹھ جانے کی ہدایت کی،چیف جسٹس نے کہا آپ عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہے ہیں،آپکے دلائل ختم ہوگئے، اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا مذاق اڑایا گیا جبکہ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ عدالت نے انکا مذاق اڑایا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بیرون ملک خود کو پاکستانی شہری نہیں کہلواتے۔
ثنا نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مسقط اور کابل جاتے ہیں تو کینیڈین شہری بن جاتے ہیں، اب کہتے ہیں کہ بنیادی حق متاثر ہوا۔ طاہر القادری نے کہا کہ نارتھ سے سائوتھ پول تک کوئی پاکستانی شہریت ختم نہیں کر سکتا، پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ مجھے درخواست دینے کا حق ہے کہ نہیں، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں؟ بیرون ملک لاکھوں پاکستانیوں کو غلط پیغام جارہا ہے، میرا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ میڈیا کیا کہتا ہے ہمیں پتہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کیلیے دروازے بند نہیں کرسکتے۔ طاہر القادری نے کہا کہ مجھے تحریری جواب پڑھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے درخواست کسی تنظیم کی طرف سے نہیں ذاتی حیثیت سے دی۔
جسٹس گلزارنے کہاکہ طاہرالقادری باربار سوالات پوچھنے کو ٹرائل کا نام نہ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطر رکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں؟ ۔طاہرالقادری نے کہا کہ ملکہ برطانیہ سے حلف لینا ایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف سے حلف لینا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ عدالت سے مخاطب ہیں، میڈیا سے مخاطب ہونا ہے تو باہر چلے جائیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق طاہر القادری نے کہا کہ چیف جسٹس کی وفاداری بھی مشکوک ہے، انھوں نے جمہوریت کے تحت نہیں پرویزمشرف سے حلف لیا۔ انھیں پتہ ہے کہ ملکہ برطانیہ اور مشرف کے حلف میں کیا فرق ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ طاہر القادری کو پتہ ہونا چاہیے کہ 2005 میں صدر کون تھا اور جج صدر سے ہی حلف لیتا ہے۔ طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ آپ جو ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں وہ انھیں سمجھتے ہیں۔ جس پر عدالت نے انھیں روسٹرم سے اترنے کا حکم دیا، اٹارنی جنرل عرفان قادر نے طاہر القادری کے حق دعوٰی کی تائید کی اور کہا کہ پٹیشن کا حق انھیں حاصل ہے، 31جولائی کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں، جب سپریم کورٹ نے اپنا دائرہ اختیار اس قدر وسیع کر دیا ہے تو اس کیس کو بھی سننا چاہیے، سب کیلیے یکساں معیار ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کی نیک نیتی اور حق کو تو بھی دیکھنا پڑے گا، ایک شخص جو پارلیمنٹ کی رکنیت کیلیے نااہل اور غیر ملکی شہری ہے، اس کو کیسے نظر انداز کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا وہ اس سے بھی متفق نہیں، دہری شہریت کوئی رکاوٹ نہیں اور جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کو تو یہ پتہ نہیں کہ جب میں جج بنا تو ملک کا صدر کون تھا، 100 سے زائد رجسٹرڈ جماعتیں ہیں، 342ارکان پارلیمنٹ،100سینیٹروں،600سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی اور 10 لاکھ ووٹرز ہیں مگر طاہر القادری کے سوا کسی کو الیکشن کمیشن پر اعتراض نہیں۔ اچانک کینیڈا سے آکر اعتراض کرنے پر خلوص نیت ثابت کرنا ہوگی، اب جبکہ الیکشن ہونے جارہے ہیں اور عوام جس کو چاہیں منتخب کر لیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسی کو اعتراض نہیں، منتخب اسمبلی کی مدت پوری ہورہی ہے، اس مرحلے پر ایک شخص جس کی وفاداری کہیں اور ہے اور اسے آرٹیکل 5کی پروا بھی نہیں، وہ الیکشن کمیشن ختم کرنا چاہتا ہے، کیا یہ نیک نیتی ہے؟۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں بدنیتی بھی نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سسٹم کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بدنیتی؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت یہ پوچھ سکتی ہے کہ انھیں اتنے دن بعد اب کیسے خیال آیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے اسکا جواب نہیں دیا، الٹا توہین عدالت پر اتر آئے۔ ایک چیز طے ہے ملک کو جمہوری نظام کے تحت چلانا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ پاکستان آنے سے پہلے درخواست گزار کا نعرہ تھا سیاست نہیں ریاست بچائو اور جب23 دسمبر کو آئے تو تقریر میں2سال الیکشن کی التوا کی بات کی۔ عدالت نے کہا کہ یہ سنگین معاملہ ہے، تقریر کا متن اور ریکارڈنگ پیش کی جائے، اس موقع پر طاہر القادری نے کہا کہ انھوں نے ایسی بات نہیں کی تاہم عدالت نے انھیں بیٹھنے کیلیے کہا ،چیف جسٹس نے کہا کہ 3 دن بولنے کے بعد آپ نے عدالت سے بہت اچھا سلوک کیا۔ یہ غیر معمولی کیس ہے، تمام چیزوں کو دیکھا جائے گا۔ جوائنٹ سیکریٹری قومی اسمبلی لطیف قریشی نے درخواست کی مخالفت کی جبکہ اٹارنی جنرل نے بتا یا کہ وہ وفاق کی طرف سے بھی وہی کہیں گے جو انھوں نے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے کہا۔