بچہ کرائے پر دست یاب
کینیا میں انتخابات کے دوران لمبی قطاروں سے بچنے کے لیے شیر خوار کرائے پر لیے گئے
ISLAMABAD:
عام انتخابات کے دوران قطار بناکر ووٹ ڈالنے کا تجربہ ہر جمہوری ملک کے عوام کو ہوتا ہے۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ووٹرز گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اس موقع پر عوام کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے جہاں ووٹنگ کا جدید نظام موجود نہیں۔ ان ممالک میں کینیا بھی شامل ہے۔ کینیا کے عوام ووٹ کے سلسلے میں بے حد حساس اور پرجوش واقع ہوئے ہیں۔ ہر بالغ فرد دوران انتخابات ووٹ ڈالنا فرض عین سمجھتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ایمبولینسیں بھی کھڑی نظر آتی ہیں جن میں لیٹے ہوئے مریض ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ کینیا کے عوام ووٹ ڈالنے کے لیے امڈ تو آتے ہیں مگر پولنگ کے نظام کی خامیوں کی وجہ سے گھنٹوں قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ ووٹروں میں بڑی تعداد عورتوں کی ہوتی ہے۔ان میں مائیں بھی ہوتی ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے آتی ہیں۔ بچوں کا خیال کرتے ہوئے گزشتہ سے پیوسہ انتخابات میں ماؤں کو قطار میں کھڑا ہونے کی زحمت سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔ پولنگ کے عملے کو احکامات جاری کردیے گئے تھے کہ جن عورتوں کی گود میں بچے ہوں انھیں قطار میں لگنے کی زحمت نہ دی جائے اور ان کا ووٹ فوراً ڈلوالیا جائے۔
یہ دیکھتے ہوئے بے شمار خواتین نے قطار میں گھنٹوں کھڑے رہنے کی زحمت سے بچنے کے لیے شناسا خواتین کے بچے گود میں لے کر ووٹ ڈالے۔ گذشتہ انتخابات میں اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں بھی خبریں آئی تھیں تاہم رواں ماہ ہونے والے انتخابات میں حکومت کی طرف سے شیر خوار بچوں کی ماؤں کو دی گئی اس سہولت نے ایک منفرد کاروبار کو جنم دیا۔ بچے کرائے پر دینے کا کاروبار! گذشتہ انتخابات کے دوران بہت سی عورتوں نے قطار میں کھڑے ہونے کی زحمت سے بچنے کے لیے شناسا خواتین کے بچے کچھ دیر کے لیے مستعار لے لیے تھے مگر اس بار ماؤں نے ہمدردی کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے عورتوں کی مجبوری سے مالی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
خود ووٹ ڈالنے کے بعد بہت سی ماؤں نے اپنے بچے ضرورت مند خواتین ووٹروں کو کرائے پر دینے شروع کردیے جو قطار میں نہ لگ کر وقت بچانے اور ذہنی کوفت سے بچنے کی خواہش مند تھیں۔ ملک بھر میں دن بھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ذرائع ابلاغ پر جب بچوں کو کرائے پر دینے کی خبر نمایاں ہوئی تو انتظامیہ نے ماؤں کے ساتھ آنے والے بچوں کی انگلی پر بھی سیاہی لگانی شروع کردی تاکہ بچہ اپنی اصل ماں تک ہی محدود رہے اور دوسری عورتیں اس کا سہارا لے کر ووٹ ڈالنے کے لیے نہ آسکیں۔ بہر حال یہ اقدام ہونے تک بہت سی مائیں اچھی خاصی رقم کماچکی ہوںگی۔ واضح رہے کہ کینیا کا شمار انتہائی غریب اور پس ماندہ افریقی ممالک میں ہوتا ہے جہاں عوام کی اکثریت مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مائیں دوران انتخابات کچھ رقم کمانے کے لیے بچے کرائے پر دینے لگی تھیں۔
عام انتخابات کے دوران قطار بناکر ووٹ ڈالنے کا تجربہ ہر جمہوری ملک کے عوام کو ہوتا ہے۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ووٹرز گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اس موقع پر عوام کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے جہاں ووٹنگ کا جدید نظام موجود نہیں۔ ان ممالک میں کینیا بھی شامل ہے۔ کینیا کے عوام ووٹ کے سلسلے میں بے حد حساس اور پرجوش واقع ہوئے ہیں۔ ہر بالغ فرد دوران انتخابات ووٹ ڈالنا فرض عین سمجھتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ایمبولینسیں بھی کھڑی نظر آتی ہیں جن میں لیٹے ہوئے مریض ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوتے ہیں۔ کینیا کے عوام ووٹ ڈالنے کے لیے امڈ تو آتے ہیں مگر پولنگ کے نظام کی خامیوں کی وجہ سے گھنٹوں قطار میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ ووٹروں میں بڑی تعداد عورتوں کی ہوتی ہے۔ان میں مائیں بھی ہوتی ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے آتی ہیں۔ بچوں کا خیال کرتے ہوئے گزشتہ سے پیوسہ انتخابات میں ماؤں کو قطار میں کھڑا ہونے کی زحمت سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔ پولنگ کے عملے کو احکامات جاری کردیے گئے تھے کہ جن عورتوں کی گود میں بچے ہوں انھیں قطار میں لگنے کی زحمت نہ دی جائے اور ان کا ووٹ فوراً ڈلوالیا جائے۔
یہ دیکھتے ہوئے بے شمار خواتین نے قطار میں گھنٹوں کھڑے رہنے کی زحمت سے بچنے کے لیے شناسا خواتین کے بچے گود میں لے کر ووٹ ڈالے۔ گذشتہ انتخابات میں اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں بھی خبریں آئی تھیں تاہم رواں ماہ ہونے والے انتخابات میں حکومت کی طرف سے شیر خوار بچوں کی ماؤں کو دی گئی اس سہولت نے ایک منفرد کاروبار کو جنم دیا۔ بچے کرائے پر دینے کا کاروبار! گذشتہ انتخابات کے دوران بہت سی عورتوں نے قطار میں کھڑے ہونے کی زحمت سے بچنے کے لیے شناسا خواتین کے بچے کچھ دیر کے لیے مستعار لے لیے تھے مگر اس بار ماؤں نے ہمدردی کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے عورتوں کی مجبوری سے مالی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
خود ووٹ ڈالنے کے بعد بہت سی ماؤں نے اپنے بچے ضرورت مند خواتین ووٹروں کو کرائے پر دینے شروع کردیے جو قطار میں نہ لگ کر وقت بچانے اور ذہنی کوفت سے بچنے کی خواہش مند تھیں۔ ملک بھر میں دن بھر یہ سلسلہ جاری رہا۔ ذرائع ابلاغ پر جب بچوں کو کرائے پر دینے کی خبر نمایاں ہوئی تو انتظامیہ نے ماؤں کے ساتھ آنے والے بچوں کی انگلی پر بھی سیاہی لگانی شروع کردی تاکہ بچہ اپنی اصل ماں تک ہی محدود رہے اور دوسری عورتیں اس کا سہارا لے کر ووٹ ڈالنے کے لیے نہ آسکیں۔ بہر حال یہ اقدام ہونے تک بہت سی مائیں اچھی خاصی رقم کماچکی ہوںگی۔ واضح رہے کہ کینیا کا شمار انتہائی غریب اور پس ماندہ افریقی ممالک میں ہوتا ہے جہاں عوام کی اکثریت مالی مشکلات سے دو چار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مائیں دوران انتخابات کچھ رقم کمانے کے لیے بچے کرائے پر دینے لگی تھیں۔