چور

ایسا ظلم تو نہیں کہ بے گناہ آدمی کو چور بنایا جاوے۔


کنڈا کھول کر اندر آجاؤ، میں چور نہیں کہ بھاگ جاؤں۔ فوٹو: فائل

امرتسر میں ایک دفعہ ایک چور نے ایک دکان کا قفل توڑا۔ دکاندار اُس وقت کھانا کھانے اپنے گھر گیا ہوا تھا۔ جب قریب دس بجے رات دکاندار واپس آیا تو اُس نے دکان کا قفل کھلا اور کنڈا نکلا ہوا دیکھا تو اس نے فوراً کنڈا لگا کر بازار میں شوروغل کردیا کہ ''میری دکان کا تالا کسی چور نے توڑ لیا ہے اور شاید وہ اندر بھی موجود ہے، میں کنڈا لگا کر کوتوالی کو جاتا ہوں، بھائیو میری دکان کا خیال رکھنا''۔

مالک تو کوتوالی کیلئے گیا اور چور جو اندر تھا اُس نے سوچا کہ کہ اب تو سوائے گرفتاری کے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کوئی ایسی تدبیر کی جاوے کہ جان بچ جائے۔ تب چور نے دیا سلائی جلائی، جا کر دیکھا تو اُس کو وہاں ایک شطرنج مل گئی۔ دکاندار کا بستر بھی اندر موجود تھا۔ چور نے بستر بِچھا کر اُس کے اوپر شطرنج پھیلائی اور مہروں سے بازی لگا کر چراغ سامنے جلا کر خاموش بیٹھ رہا۔ اتنے میں پولیس کی دوڑ بھی آگئی۔ تھانے دار نے آواز دی اندر کون ہے؟

اُس پر چور نے کہ تم کون ہو؟ اُس نے جواب دیا کہ میں تھانے دار ہوں۔

چور نے کہا کہ میں تھانے دار سے بڑا کو توال ہوں۔

تھانے دار نے پوچھا کہ تُو کس بات کا کوتوال ہے؟

تب چور نے کہا کہ میں اپنے دوست کی دکان میں بیٹھا ہوں۔ تھانے دار کا ڈر اُس کو ہوگا جو چور ہو یا چور کا بھائی ہو۔

تب تھانے دار نے حیرت سے دکاندار کی طرف دیکھا اور کہا کیوں بھائی؟ '' یہ تو کچھ اور قصہ معلوم ہوتا ہے''

اُدھر چور نے آواز دی کہ کنڈا کھول کر اندر آجاؤ، میں چور نہیں کہ بھاگ جاؤں۔ اندر آؤ اور اصل معاملے کو دیکھو کہ خداوند نے آپ کو حاکم بنایا ہے۔

اُس پر تھانے دار نے صاحب نے خوش ہوکر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ چراغ جلتا ہے ، ایک شخص بیٹھا ہے اور سامنے شطرنج کی بازی لگی ہوئی ہے۔

تھانے دار نے دکاندار سے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو نے رات کے وقت تنگ کیا اور ناحق تکلیف دی۔ دکاندار کچھ جواب نہ دے سکا کیونکہ وہ تو حیران تھا کہ معاملہ کیا ہے۔

چور نے کہا کہ آپ اِس سے کیا دریافت فرماتے ہیں، جھوٹی بات جلدی سے بنائی نہیں جاتی، معاملے کی حقیقت میں عرض کرتا ہوں، چار راتوں سے ہم دونوں اِس دُکان میں بیٹھ کر جوا کھیل رہے ہیں۔ ہر رات یہ شخص مجھ سے پچاس روپے جیتتا رہا۔ آج اتفاق سے میں جیتا اور اس سے روپے طلب کئے اِس نے مجھ سے کہا کہ ابھی گھر سے لاکر دیتا ہوں۔ پھر اِس نے باہر سے کنڈا لگا دیا اور شور مچانے لگا کہ میری دکان میں چور گھس آیا ہے، میں ابھی کوتوالی کو جاتاہوں۔ اِس بات کو سُن کر میں دل میں ہنسا کہ اِس بیوقوف نے یہ کیا وطیرہ اختیار کیا کہ میرا روپیہ دینے کے بجائے مجھے چور بنانا چاہتا ہے۔ خیر! مجھ کو خیال تھا کہ اگر کوتوالی کو گیا، کوئی تو افسر آوے گا اور ایسا ظلم تو نہیں کہ بے گناہ آدمی کو چور بنایا جاوے۔

یہ باتیں سن کر دکاندار نے پولیس سے کہا کہ یہ جھوٹا ہے، اسے میری دکان سے نکالا جائے۔ اِس پر چور نے جواب دیا کہ میں خود ہی چلا جاؤں گا مگر پہلے مجھے آج کی بازی کے پچاس دلوادو اور اگر جوا کھیلنا جرم ہے تو ہم دونوں آدمیوں کا چالان کیا جائے اور تین دن تک جو روپے یہ مجھ سے لیتا رہا وہ مجھے واپس دلائے جائیں، میں چلا جاتا ہوں۔

آخر کار ٹھہرایا گیا کہ دکاندار نے جھوٹی اطلاع دی، اِس کی بابت 187 تعزیرات ہند کی درخواست کی جاوے گی اور چور سے کہا گیا کہ تم چلے جاؤ۔ اگر تم کو پچاس روپے کا دعویٰ ہے تو عدالت میں نالش کرو۔

( رضا علی عابدی کی کتاب ''کتابیں اپنے آباء سے'' ایک اقتباس، 1898ء میں لکھی گئی دلچسپ کتاب کا ایک موضوع ہے'' چور'' جسے سردار کشن سنگھ کی کتاب '' تجربات ہند'' سے نقل کیا گیا۔ یہ کتاب ریلوے پنجاب پولیس کے ایک سکھ سارجنٹ، سردار بشن سنگھ سندھا والیہ نے لکھی، اِس میں بشن سنگھ نے اپنی پولیس کی ملازمت کے طرح طرح کے تجربات لکھے تھے)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔