مینگروو سمندری حیات کے محافظ

مقامی افراد کو بھی مینگرو کے تحفظ اور اہمیت کے حوالے سے آگہی فراہم کی جانی چاہئیے تاکہ فشریز وسائل کو تحفظ مل سکے۔


ظریف بلوچ August 17, 2017
مکران کا ساحلی علاقہ پسنی ممکنہ طور پر سونامی کی زد میں ہے، اس لیے ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں مینگرو کے زیادہ سے زیادہ درخت اُگانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

مکران کے ساحلی علاقے قدرتی، معدنی اور سمندری وسائل سے مالا مال ہیں۔جیوانی سے گڈانی تک پھیلے ہوئے 780 کلومیٹر بحیرہ عرب میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں قدرتی وسائل کے ذخائر موجود ہیں جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمی تغیرات کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ خاص کر مینگروو کے جنگلات جو کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفانوں کے دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ہیں۔


بلوچستان کے ساحلی علاقوں سونمیانی ہور، پسنی ہور، گوادر، پشکان ہور اور کلمت ہور میں مینگروو کے درخت پائے جاتے ہیں۔ مینگروو کے درخت نہ صرف قدرتی آفات سائیکلون اور دیگر سمندری طوفانوں کو روکنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے جھینگوں اور سمندری غذا کی افزائش کے لئے مینگروو کے درخت اہم ہیں اور اِس کی واضح مثال پسنی کا ساحلی شہر کلمت ہے جہاں مینگروو کے بڑے بڑے درخت وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں۔



کلمت میں مکران کے دیگر ساحلی علاقوں کی نسبت جھینگے اور دیگر سمندری غذا زیادہ پائی جاتی ہے۔ اور اِس کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہوئے ہیں۔ عبدالرحیم بلوچ جو کہ ماہرِ حیاتیات ہیں اور اور آئی یو سی این کے ساتھ مینگروو پلانٹیشن کے ایک پراجیکٹ کا حصہ رہے ہیں، وہ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ IUCN نے 2006ء میں پسنی میں ایک پراجیکٹ کے تحت مینگروو کے پودے لگائے گئے تھے، پراجیکٹ کے وقت کثیر تعداد میں درخت اگائے گئے تھے اور مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے مینگروو کے درختوں کی حالت اور نشوونما اچھی رہی۔


پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد اب مینگروو کے درختوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی حالت اور نشوونما اچھی نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ مقامی کمیونٹی اور متعلقہ ادارے فشریز وسائل کا تحفظ اور نگہبانی کرتے تو یہ علاقہ مینگروو کے بڑے جنگلات میں تبدیل ہوجاتا۔ مینگروو پر کام کرنے والے ادارے IUCN کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009ء میں آئی یو سی این گوادر آفس نے تین ہزار پود ے پسنی میں اُگائے ہیں۔ ریت اور سونامی سے بچاؤ کے لئے یہ درخت لگائے گئے ہیں۔




مکران کا ساحلی علاقہ پسنی ممکنہ طور پر سونامی کی زد میں ہے۔ ماہرین کا کہنا کہ یہاں مینگروو کے زیادہ سے زیادہ درخت اُگانے کی ضرورت ہے۔ کلمت کے ایک رہائشی اسلم بلوچ نے بتایا کہ مینگروو کے درخت ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اُگائے ہیں اور ان کا تحفظ بھی علاقے کے لوگ خود کررہے ہیں کیونکہ ہمیں مینگروو کے جنگلات کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اِس وقت کلمت میں اعلیٰ درجہ کے جھینگے پائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ مینگروو کے درختوں کی فراوانی ہے۔


کلمت میں سی فوڈ سے منسلک اکبر بلوچ بتاتے ہیں کہ ساحلی علاقہ کلمت مختلف دیہاتوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی آبادی سمندر کنارے آباد ہے۔ اور تقریباً بستی کے تمام رہائشیوں نے مینگروو کے درخت اُگائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مینگروو پر کام کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ مینگروو کے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مقامی افراد مینگروو کے درخت کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں اور مکانات بنانے کے لئے اِس کی لکڑیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ اونٹ بھی مینگروو کے درختوں میں چرتے ہیں جس کی بناء پر ان کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔




میرین بیالوجسٹ فشریز اسد اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں مینگروو کی چار اقسام پائی جاتی ہیں، اور یہ ساحلی علاقوں کے ایکوسسٹم کا اہم حصہ ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مینگروو کی پلانٹیشن فطرت کے مطابق کرنا ہوگی اور جہاں فطری تقاضوں کے مطابق مینگروو کے درخت نہ اگائے جاسکیں، پودے لگانے سے کوئی فائدہ نہیں اور خاص کر دریاؤں کے کنارے پودے لگانے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا کیونکہ پانی کے تیز بہاؤ سے پوری پلانٹیشن پانی میں بہہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے، اور چونکہ فطرت سے ٹکرایا نہیں جاسکتا اس لیے پلانٹیشن وہاں ہونی چاہئیے جہاں قدرتی ماحول افزائش کیلئے موزوں ہو۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ مینگروو پر کام کرنے والے اداروں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنا چاہیئے اور اِس حوالے سے مقامی افراد کو مینگروو سمیت دیگر ساحلی وسائل کے تحفظ اور اہمیت کے حوالے سے آگہی فراہم کی جانی چاہئیے تاکہ فشریز وسائل کو تحفظ مل سکے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں