سندھ پولیس کاانتظامی ڈھانچہ سنگین تضادات کا شکار

اعلیٰ پولیس افسران کے درمیان اختیارات اور پرکشش عہدوں کی جنگ عروج پر پہنچ گئی


Adil Jawad February 14, 2013
اعلیٰ پولیس افسران کے درمیان اختیارات اور پرکشش عہدوں کی جنگ عروج پر پہنچ گئی فوٹو: فائل

سندھ پولیس کاانتظامی ڈھانچہ سنگین تضادات کا شکار ہوگیاہے۔

اعلی پولیس افسران کے درمیان اختیارات کی جنگ نے محکمہ پولیس میں ایک افراتفری کی فضاپیداکررکھی ہے،ہرچند ماہ بعدتبدیل کیے جانے والے مبہم اورانتشار کا شکارانتظامی ڈھانچے کے سبب جرائم پیشہ افراد،انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خلاف قانونی نظام دن بدن غیرموثرہوتا جارہا ہے،اختیارات اور پرکشش عہدوں کے حصول کی دوڑ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے جبکہ امن و امان کاقیام افسران کی ترجیحات میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔

18 ویں ترمیم کے بعدسندھ کی صوبائی حکومت نے پولیس آرڈر2000ختم کرنے کااعلان کیا تھااوراس سلسلے میں سندھ اسمبلی سے منظورہونے والے ایک بل کے ذریعے پولیس رولز 1934 کو ایک مرتبہ پھر نافذ العمل کردیاگیاتھا۔



چنددن قبل شہرکوضلعی افسران یعنی ایس ایس پیزکے تحت کرنے کافیصلہ کیا گیااور اس سلسلے میں صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے ایک سمری بھی وزیراعلی سندھ کوبھجوائی گئی جس کے تحت کراچی کو6انتظامی اضلاع میں تقسیم کرنے کی سفارش کی گئی ۔

جن میں ضلع جنوبی ون اورٹو، ضلع غربی، ضلع وسطی، ضلع شرقی ون اور ٹوشامل تھے،اس تبدیلی کی خواہش کے پیچھے سندھ پولیس میں تعینات ایس ایس پی کے عہدوں کے وہ بااثر افسران ہیں جو ڈی آئی جی کے عہدے کے اختیارات سے خوش نہیں تھے اور ان افسران کو بااثر حکومتی افراد کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔سندھ پولیس کے سینئرافسر نے ایکسپریس کو بتایادرحقیقت اس وقت سندھ پولیس میںکوئی واضح نظام موجودنہیں ہے افراتفری کایہ عالم ہے کہ ہر انتظامی ڈویژن میں علیحدہ نظام موجود ہے،ڈسپلن فورس کاقیام اس وقت تک موثرہوہی نہیں سکتاجب تک افسران اوراہلکاروں کی ذمے داریاں اور اختیارات مکمل طورپرواضح نہ ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں