نواز شریف فیملی کو آئندہ سیاست میں نہیں دیکھ رہا آصف زرداری
ڈائیلاگ یا کسی نئے میثاق کا وقت گزر چکا، دوستی نواز شریف نہیں جمہوریت کے ساتھ ہے، سابق صدر
پیپلز پارٹی پارلمینٹیرینز کے صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو آئندہ سیاست میں نہیں دیکھ رہا۔
بلاول ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں آصف زرداری نے کہا کہ جب سے لاہور آیا ہوں یہاں پر گہما گہمی بڑھ گئی ہے، ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ ہیں، کچھ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ ہم نے پچھلی دفعہ نواز شریف کا ساتھ دیا ہم نے نواز شریف کا نہیں بلکہ حکومت کا ساتھ دیکر جمہوریت کو بچایا تھا۔ ملک کا جمہوریت کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی مگر ابھی کسی جماعت کے ساتھ مفاہمت کی بات قبل ازوقت ہے، کوئی پولیٹیکل فورس ختم نہیں ہو سکتی، نواز شریف کا گزشتہ چار سال میں طرز حکمرانی سیاسی نہیں تھا، میرے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا جبکہ انکا دور بھی دیکھیں، اگر چار سال کے بعد آپ اپنے سگے بھائی کو بھی کال کریں گے تو وہ بھی کال نہیں اٹھائے گا۔
سابق صدر نے کہا کہ جلا وطنی کے وقت نواز شریف کے ساتھ تعلقات تھے، نواز شریف اور ان کے خاندان کو آئندہ سیاست میں نہیں دیکھ رہا، ہم ججز کے مائنڈ سیٹ کو نہیں جانتے شریف فیملی کیخلاف ابھی تو ریفرنسز دائر ہوئے ہیں، وکلاء کے ساتھ مشاورت کرکے ان کا جائزہ لیں گے۔کسی پارٹی سے معاہدے کا وقت گزر گیا، اب تو الیکشن سر پر کھڑے ہیں، جب ہم 62 اور 63 کی بات کر رہے تھے تو انہیں سمجھ نہیں آئی، اب انتخابات میں کتنا وقت رہ گیا ہے کہ کسی نئے میثاق کی بات کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ این اے120میں ابھی تو شروعات ہوئی ہے ہم یہاں آبیٹھے ہیں جس سے فرق پڑیگا۔ ہمارا مقصد ہے بھٹو ازم کے نظریات کے تحت سیاست کریں، فی الحال پیپلزپارٹی اپنے طرز سیاست پر چل رہی ہے مستقبل جو ہوگا دیکھیں گے۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے اسلام آباد سے لاہور واپسی کے قافلے کی سیکیورٹی کیلیے 20 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے، اور ان کے قافلے کی تمام گاڑیاں بی ایم ڈبلیو تھیں بچہ بھی بی ایم ڈبلیو کے نیچے آکر جاں بحق ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارا وزیر اعظم نا اہل ہوا تو نیا وزیر اعظم آ گیا اور اب بھی یہی ہوا ہے، نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس لے لیے ہیں لیکن اب وقت اور پانی سر سے گزر گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر ایک قانون بن گیا تو وہ سو فیصد چلے گا۔ نواز شریف جمہوری فورسز کو اپنے ساتھ لے کر نہیں چلے۔ ہماری جب بھی بات ہوئی سیاسی بات ہوئی کبھی ذاتی مفاد لیا اور نہ لینے کا کوئی ارادہ ہے۔
خواجہ آصف کی طرف سے تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرنے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ان سے کسی زمانے میں تعلقات تھے، جب میں امریکا میں تھا اور وہ بھی تھے تو رابطہ تھا لیکن اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا، دوستی میں رابطے رہتے ہیں اور ملنا جلنا رہتا ہے۔ نواز شریف سے اب ملاقات ہوتی ہے نہ ہی ہو سکتی ہے۔
ایک سوال پر کہ یہ تاثر ہے کہ اب بھی سارے اختیارات کا مرکز آپ ہیں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ اس تاثر کو کیسے ختم کیا جائے۔ انھوں نے صحافی سے سوال کیا کہ مجھے بتائیں آپ کا سب سے بڑا بیٹا یا بیٹی کتنے برس کے ہیں جس پر صحافی نے جواب دیا 14برس کا۔ آصف زرداری نے استفسار کیا کیا وہ آپ کی سنتے ہیں؟ یہ تو پھر جوان ہے جس پر آصف زرداری سمیت پریس کانفرنس کے تمام شرکاء نے قہقہہ لگایا۔
سیاسی مخالفین کی جانب سے بلاول کے سیاست میں نو آموز ہونے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ جب ان کی والدہ نے سیاست شروع کی تو ان کی عمر 22سال تھی ، ایسا کہنے والے سیاسی لوگ نہیں میں انھیں کیا سمجھاؤں۔
مستقبل میں نواز شریف اور عمران خان میں سے کس کے سے ساتھ چلنے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ میرا چیئرمین کہہ چکا ہے کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب میرے چیئرمین نے کہہ دیا تو یہ ایک ہی بات ہے۔ ہم اپنی اسپیس بنائیں گے اور اپنے نظریات کو لے کر چلیں گے۔ جب اگلی باری آئے گی تو باقی معاملات بھی دیکھیں گے۔ نااہلی کے بعد نواز شریف کی انقلابی تقاریرکے حوالے سے انھوں نے کہا کہ یہ نیا مذاق ہے آپ اپوزیشن بھی بننا چاہتے ہیں اور حکومت میں بھی ہیں۔ آپ کو وزیر اعظم رخصت کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب نئی پارلیمنٹ آئے گی تو 62 اور 63 کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک میں ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست رہی تو ملک کیلیے اچھا نہیں ہوگا، نیشنل ایکشن پلان میں ذکر ہے کہ کالعدم جماعت نام بدل کر سیاست نہیں کر سکتی۔ لیکن یہاں پرایسا ہورہاہے سیکیورٹی فورسز کو سوچنا چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے، قوم جانتی ہے نواز شریف معصوم نہیں عدالت نے مجرم قرار دیا ہے،شریف خاندان اگر پیپلز پارٹی سے ریلیف چاہتا ہے تو اسے یہ نہیں مل سکتا، نواز شریف اور ان کے خاندان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے سے سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے جا رہا ہوں، 19اگست کو مانسہرہ اور 26 کو اٹک میں جلسہ کروں گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا قانون صرف بنا ہی پیپلزپارٹی کیلیے ہے۔ ملک میں سیاسی خلا ہے، میڈیا میرے جلسے دکھائے یہ خلا ختم ہو جائیگا۔ ملک کے کونے کونے، گلی گلی جاؤں گا، ہم پروگریسو اور پر امن پاکستان بنائیں گے۔
علاوہ ازیں مہرین انور راجہ سے ملاقات میں بلاول نے کہا کہ ہم پنجاب فتح کرکے دکھائیں گے، آنسو بہانے سے (ن) لیگ کو کچھ نہیں ملے گا، (ن) لیگ کے قائدین مظلوم بننے کے بجائے ہمت سے کام لیں، نوازشریف آصف زرداری کے مشورے پر عمل کرتے تو آج اقتدار میں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ خود میثاق جمہوریت کے خلاف کام کرتی رہی اور اب میثاق جمہوریت کو اہمیت دینے کی باتیں کر رہی ہے۔
بلاول ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں آصف زرداری نے کہا کہ جب سے لاہور آیا ہوں یہاں پر گہما گہمی بڑھ گئی ہے، ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ ہیں، کچھ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ ہم نے پچھلی دفعہ نواز شریف کا ساتھ دیا ہم نے نواز شریف کا نہیں بلکہ حکومت کا ساتھ دیکر جمہوریت کو بچایا تھا۔ ملک کا جمہوریت کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی راستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی مگر ابھی کسی جماعت کے ساتھ مفاہمت کی بات قبل ازوقت ہے، کوئی پولیٹیکل فورس ختم نہیں ہو سکتی، نواز شریف کا گزشتہ چار سال میں طرز حکمرانی سیاسی نہیں تھا، میرے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا جبکہ انکا دور بھی دیکھیں، اگر چار سال کے بعد آپ اپنے سگے بھائی کو بھی کال کریں گے تو وہ بھی کال نہیں اٹھائے گا۔
سابق صدر نے کہا کہ جلا وطنی کے وقت نواز شریف کے ساتھ تعلقات تھے، نواز شریف اور ان کے خاندان کو آئندہ سیاست میں نہیں دیکھ رہا، ہم ججز کے مائنڈ سیٹ کو نہیں جانتے شریف فیملی کیخلاف ابھی تو ریفرنسز دائر ہوئے ہیں، وکلاء کے ساتھ مشاورت کرکے ان کا جائزہ لیں گے۔کسی پارٹی سے معاہدے کا وقت گزر گیا، اب تو الیکشن سر پر کھڑے ہیں، جب ہم 62 اور 63 کی بات کر رہے تھے تو انہیں سمجھ نہیں آئی، اب انتخابات میں کتنا وقت رہ گیا ہے کہ کسی نئے میثاق کی بات کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ این اے120میں ابھی تو شروعات ہوئی ہے ہم یہاں آبیٹھے ہیں جس سے فرق پڑیگا۔ ہمارا مقصد ہے بھٹو ازم کے نظریات کے تحت سیاست کریں، فی الحال پیپلزپارٹی اپنے طرز سیاست پر چل رہی ہے مستقبل جو ہوگا دیکھیں گے۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے اسلام آباد سے لاہور واپسی کے قافلے کی سیکیورٹی کیلیے 20 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے، اور ان کے قافلے کی تمام گاڑیاں بی ایم ڈبلیو تھیں بچہ بھی بی ایم ڈبلیو کے نیچے آکر جاں بحق ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اب جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارا وزیر اعظم نا اہل ہوا تو نیا وزیر اعظم آ گیا اور اب بھی یہی ہوا ہے، نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس لے لیے ہیں لیکن اب وقت اور پانی سر سے گزر گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر ایک قانون بن گیا تو وہ سو فیصد چلے گا۔ نواز شریف جمہوری فورسز کو اپنے ساتھ لے کر نہیں چلے۔ ہماری جب بھی بات ہوئی سیاسی بات ہوئی کبھی ذاتی مفاد لیا اور نہ لینے کا کوئی ارادہ ہے۔
خواجہ آصف کی طرف سے تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرنے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ ان سے کسی زمانے میں تعلقات تھے، جب میں امریکا میں تھا اور وہ بھی تھے تو رابطہ تھا لیکن اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا، دوستی میں رابطے رہتے ہیں اور ملنا جلنا رہتا ہے۔ نواز شریف سے اب ملاقات ہوتی ہے نہ ہی ہو سکتی ہے۔
ایک سوال پر کہ یہ تاثر ہے کہ اب بھی سارے اختیارات کا مرکز آپ ہیں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ اس تاثر کو کیسے ختم کیا جائے۔ انھوں نے صحافی سے سوال کیا کہ مجھے بتائیں آپ کا سب سے بڑا بیٹا یا بیٹی کتنے برس کے ہیں جس پر صحافی نے جواب دیا 14برس کا۔ آصف زرداری نے استفسار کیا کیا وہ آپ کی سنتے ہیں؟ یہ تو پھر جوان ہے جس پر آصف زرداری سمیت پریس کانفرنس کے تمام شرکاء نے قہقہہ لگایا۔
سیاسی مخالفین کی جانب سے بلاول کے سیاست میں نو آموز ہونے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ جب ان کی والدہ نے سیاست شروع کی تو ان کی عمر 22سال تھی ، ایسا کہنے والے سیاسی لوگ نہیں میں انھیں کیا سمجھاؤں۔
مستقبل میں نواز شریف اور عمران خان میں سے کس کے سے ساتھ چلنے کے سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ میرا چیئرمین کہہ چکا ہے کہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب میرے چیئرمین نے کہہ دیا تو یہ ایک ہی بات ہے۔ ہم اپنی اسپیس بنائیں گے اور اپنے نظریات کو لے کر چلیں گے۔ جب اگلی باری آئے گی تو باقی معاملات بھی دیکھیں گے۔ نااہلی کے بعد نواز شریف کی انقلابی تقاریرکے حوالے سے انھوں نے کہا کہ یہ نیا مذاق ہے آپ اپوزیشن بھی بننا چاہتے ہیں اور حکومت میں بھی ہیں۔ آپ کو وزیر اعظم رخصت کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب نئی پارلیمنٹ آئے گی تو 62 اور 63 کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک میں ہمیشہ دائیں بازو کی سیاست رہی تو ملک کیلیے اچھا نہیں ہوگا، نیشنل ایکشن پلان میں ذکر ہے کہ کالعدم جماعت نام بدل کر سیاست نہیں کر سکتی۔ لیکن یہاں پرایسا ہورہاہے سیکیورٹی فورسز کو سوچنا چاہیے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑتا۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے، قوم جانتی ہے نواز شریف معصوم نہیں عدالت نے مجرم قرار دیا ہے،شریف خاندان اگر پیپلز پارٹی سے ریلیف چاہتا ہے تو اسے یہ نہیں مل سکتا، نواز شریف اور ان کے خاندان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے سے سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنے جا رہا ہوں، 19اگست کو مانسہرہ اور 26 کو اٹک میں جلسہ کروں گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا قانون صرف بنا ہی پیپلزپارٹی کیلیے ہے۔ ملک میں سیاسی خلا ہے، میڈیا میرے جلسے دکھائے یہ خلا ختم ہو جائیگا۔ ملک کے کونے کونے، گلی گلی جاؤں گا، ہم پروگریسو اور پر امن پاکستان بنائیں گے۔
علاوہ ازیں مہرین انور راجہ سے ملاقات میں بلاول نے کہا کہ ہم پنجاب فتح کرکے دکھائیں گے، آنسو بہانے سے (ن) لیگ کو کچھ نہیں ملے گا، (ن) لیگ کے قائدین مظلوم بننے کے بجائے ہمت سے کام لیں، نوازشریف آصف زرداری کے مشورے پر عمل کرتے تو آج اقتدار میں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ خود میثاق جمہوریت کے خلاف کام کرتی رہی اور اب میثاق جمہوریت کو اہمیت دینے کی باتیں کر رہی ہے۔