فلسفہ کی سرزمین

جس سرزمین پر آج ہم بستے ہیں اس کا مزاج شروع سے ہی صوفیانہ رہا ہے۔


خضر حیات August 18, 2017
یونان کی سرزمین پر فلسفے میں کیا گیا کام آج تک دنیا بھر کے فلسفیوں اور دانشوروں کیلئے مشعلِ راہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: فلسفے کی تاریخ پڑھتے یا مرتب کرتے ہوئے اِس کمی کا احساس شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہماری سرزمین (برّصغیر پاک و ہند) کا کردار فلسفے کی ترویج و ترقی میں شروع سے ہی محدود رہا ہے۔ تاریخ کے مطابق دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں ہڑّپہ اور موہن جودڑو کا مسکن یہی خطہ رہا ہے لیکن بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں خالص فلسفے کو قبول نہیں یا جاتا، اسے فلسفے سے زیادہ مذہبی اور وجدانی فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اگر تاریخ کو ایک خاص انداز سے چھانا پھٹکا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فلسفے کیلئے یہاں کی آب و ہوا کچھ بہت زیادہ سازگار نہیں رہی۔ اگرچہ یہ خطہ مذہبی اور فلسفیانہ بحثوں کی قدیم تاریخ کا امین ہے مگر حقیقی اور خالص فلسفہ (جس کا تعلق عقل سے ہے) یہاں کبھی بھی جڑ نہیں پکڑ سکا۔ علم کے ماخذ کے طور پر یہاں ہمیشہ عقل سے زیادہ وجدان معتبر قرار پایا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں لگ بھگ 4000 سال قبل مسیح جب ہڑپہ اور موہن جودڑو کی تہذیبیں بستی تھیں تب بھی یہاں مذہب کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا۔

ہڑپہ کی کھدائی کے دوران بھی ایک ایسی دیوی کی مورتیاں ملی ہیں جسے پیداوار کی دیوی کے طور پر پوجا جاتا تھا، اور پھر کم و بیش 1900 قبل مسیح سے یہاں ویدک مذہب کی ابتداء ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند کی فضاء کا مزاج شروع دن سے ہی مذہبی تھا جبکہ یورپ نے حقیقت کو عقلی پیمانے پر پرکھنے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ خالص فلسفے میں جتنا بھی قابل ذکر اور قابل قدر کام ہوا ہے وہ مغرب میں ہی ہوا ہے۔

ایک ایسا وقت جب برصغیر پاک و ہند میں ہندومت، بُدھ مت، جین مت کے پیروکار اپنے اپنے عقیدوں کو درست قرار دینے کی غرض سے دنیا جہان کے دلائل دینے میں جُتے ہوئے تھے، کم و بیش اسی عہد میں فلسفے نے آنکھ کھولنے کے لئے یُونان کی سرزمین کا انتخاب کیا۔ سدھارتھ گوتم بُدھ جس زمانے میں حق کی تلاش میں جنگلوں میں پِھر رہے تھے، جب ہی یونان کے علاقے میلیتس کی سرزمین پر پیدا ہونے والے تھیلیز نامی ایک غیر معمولی شخص کی نیند اِس سوچ میں غارت تھی کہ یہ کائنات کہاں سے وجود میں آئی ہے۔

اگرچہ تھیلیز کے زمانے کا یونان بھی فرضی دیومالائی داستانوں میں جکڑا ہوا تھا اور مظاہر فطرت کی تشریح کے لئے عقل سے زیادہ روایات اور داستانوں سے مدد لی جاتی تھی مگر فرق یہ ہے کہ تھیلیز نے خاموشی کو توڑتے ہوئے تالاب میں پہلا پتھر پھینکنے کی جرات کی اور سوچ کو ایک نیا راستہ دِکھلایا۔ یہی وہ فرق تھا جو مغرب اور ہمارے درمیان آج تک برقرار ہے۔

فلسفے کو پنپنے کے لئے بہترین حالات مغرب نے دیئے جبکہ ہمارا خطہ مذہبی بحثوں، اپنی ذات کی کھوج اور مذاہب کی روشنی میں حق کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا۔ یونانی فلسفی تھیلیز سے کوئی 2000 سال بعد ایک بار پھر فلسفے کا شاہین مغرب کی ہی منڈیر پر جا بیٹھا اور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ سے شروع ہونے والے اِس دوسرے دور میں مغرب نے فلسفے کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ درست لگتا ہے کہ ہمارے خطے کی فضاء فلسفے سے زیادہ مذہب کے لئے سُودمند ثابت ہوئی ہے۔

برصغیر کا باشندہ شروع سے ہی عقل پر وجدان کو فوقیت دیتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب نے فلسفے میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے جبکہ دنیا کے کئی بڑے بڑے مذاہب کا آغاز برصغیر کی سرزمین سے ہوا۔ اور تقریباً تمام مذاہب انسان کے اپنے بنائے ہوئے تھے۔ یا یوں کہیں کہ مقامی انسانی سوچ نے ہی ان مذاہب کی بنیاد رکھی۔ جس میدان میں ہم مہارت رکھتے تھے اسے ہم نے کمال تک پہنچایا اور جس میں یورپ کو دسترس تھی وہاں انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

ہندو مت اپنی ابتدائی صورت میں آج سے کم و بیش 3900 سال قبل اسی خطے میں موجود شمالی بھارت کے علاقے میں ظہور پذیر ہوا اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا قدیم ترین مذہب بھی گردانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے خطے کی امتیازی خصوصیت ہے کہ دنیا کا قدیم ترین مذہب یہیں سے شروع ہوا تھا۔ ہندومت کے بعد جو دوسرا مذہب یہاں سے شروع ہوا وہ جین مت ہے اور یہ مذہب بھی انسان کا اپنا پیدا کردہ تھا۔ کوئی 600 قبل مسیح میں وردھمانا مہاویر نام کے ایک شہزادے کو ویدک (ہندو) مذہب کی بعض تعلیمات سے اختلاف پیدا ہوا اور اپنا تخت و تاج چھوڑ کر بارہ سال جنگلوں میں پھرنے کے بعد اسے جب نروان حاصل ہوا تو اسے مہاویر یا فاتح یا جین قرار دیا گیا اور یہیں سے جین مت کا آغاز ہوا۔ جین مت ایک زندہ مذہب کے طور پر آج بھی موجود ہے۔

اس کے بعد جو مذہب اس سرزمین سے شروع ہوا وہ بدھ مت کہلایا۔ آج سے لگ بھگ 2500 سال قبل (500 قبل مسیح میں) شہزادہ سدھارتھ حق کی تلاش میں جنگلوں کو نکل گیا۔ اگرچہ وہ خود کسی نئے مذہب کو شروع کرنے کے حق میں نہیں تھا مگر اُن کے وصال کے بعد معتقدین نے بدھ مت کے نام سے ایک مذہب کا آغاز کیا اور گوتم بدھ کی تعلیمات کا پرچار شروع کردیا۔ تیسری صدی قبل مسیح کے دوران راج کمار اشوک جو کہ ہندوستان کے راجہ تھے اور جین مت کے پیرو شہنشاہ چندر گُپت موریا کے پوتے تھے، نے بُدھ مت کی ترویج میں مثالی کردار ادا کیا۔ اشوکا نے بُدھ مت کو بھارت کا سرکاری مذہب بنا دیا اور بعد میں ان کی اولاد نے بھی اسی مذہب کی اشاعت میں زندگی بسر کی۔ یہ وہی دور تھا جب یونان میں سقراط، ارسطو اور افلاطون عقل اور منطق کی روشنی میں فلسفے کی بنیاد پر پوری عمارت کھڑی کر چکے تھے۔

اُس زمانے میں یونان کی سرزمین پر فلسفے میں کیا گیا کام آج تک دنیا بھر کے فلسفیوں اور دانشوروں کیلئے مشعلِ راہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ چوتھا بڑا مذہب جس کی آبیاری اس سرزمین نے کی وہ سکھ ازم ہے اور یہ بھی انسان کا بنایا ہوا مذہب ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں (1500ء میں) بابا گُرونانک نے جس مذہب کی بنیاد پاکستان اور بھارت کے علاقے پنجاب میں رکھی وہ سکھ مذہب کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہم ہرگز یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ تمام مذاہب ہی برصغیر سے شروع ہوئے۔ ہمیں ادراک ہے کہ دنیا کے دیگر خطے بھی اِس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر 550 قبل مسیح میں کنفیوشس نے چین میں جس مذہب کی بنیاد رکھی وہ کنفیوشس ازم کہلایا۔ مشرق وسطیٰ میں واقع فلسطین اور اسرائیل کے علاقے میں یہودیت کی ابتداء تقریباً 3000 سال قبل ہوئی۔ بعد میں اسی سرزمین پر آج سے 2000 سال قبل حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔ اور پھر آج سے 1400 سال قبل عرب سرزمین پر حضرت محمد ﷺ کے ذریعے سے اسلام کا آغاز ہوا۔

مگر دیگر علاقوں اور برصغیر سے شروع ہونے والے مذاہب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اکثر مذاہب جو دوسرے علاقوں سے شروع ہوئے وہ الوہی تھی۔ خدا نے عوام الناس کی اصلاح کے لئے نبی اور پیغمبر بھیجے جن میں سے کئی نبیوں پر آسمانی کتابیں بھی نازل کیں۔ مگر برصغیر سے جو مذاہب شروع ہوئے اُن میں انسانی غور و فکر کا مرکزی کردار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی ایک ہی سرزمین سے اتنی بڑی تعداد میں مذاہب کا آغاز صرف برصغیر سے ہی ہوا اور یہ تمام مذاہب الوحی بھی نہیں ہیں۔

اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ جس سرزمین پر آج ہم بستے ہیں اس کا مزاج شروع سے ہی صوفیانہ رہا ہے۔ تلاش حق کے لئے اپنی ہی ذات کی کھوج کو پہلا اصول قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جین مت، بدھ مت اور سکھ ازم اسی اصول پر قائم ہے۔ بعد میں آنے والے مسلمان دانشور بھی فلسفہ کی ایک حد پر نظر آتے ہیں۔ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیات بھی خالص فلسفے کی پیداوار میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ان کے نزدیک بھی عقل سے زیادہ وجدان ہی معتبر ذریعہء علم ٹھہرا۔ شاید ہم لوگ خالص فلسفے جس کی بنیاد عقل پر رکھی جاتی ہے، کے لئے ذہنی طور پر کبھی تیار ہی نہیں تھے۔ ہڑپہّ اور موہن جوڈرو کے باشندے سے لیکر آج تک ہمارا مزاج اور رویہ تو کم از کم یہی بتاتا ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم فلسفے میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں