اے نژادِ نو آزاد رہو آباد رہو
ہمیں بار بار آزمایا گیا اور ہر بار ہم جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کی بھینٹ چڑھے ہیں۔
کہتے ہیں جو نمک کی کان میں جاتا ہے، خود بھی نمک ہوجاتا ہے۔ فوٹو : فائل
(گزشتہ سے پیوستہ)
گفتگو کے آغاز میں یہ نکتہ سامنے آیا تھا کہ ہماری نسلِ نو آج اگر اپنے تاریخی اور تہذیبی ورثے کا کوئی شعور نہیں رکھتی، اور اگر وہ اس آزادی کے حقیقی مفہوم سے آگاہ نہیں ہے جو اُس کے پرکھوں نے ہزار جتن کرکے اور جان پر کھیل کر حاصل کی تھی تو اس کوتاہی اور بیگانگی کی تمام تر ذمے داری اُس پر عائد نہیں ہوتی۔ ہمیں سچائی کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس صورتِ حال کے ذمے دار ہم بھی ہیں، بلکہ زیادہ قصور ہمارا ہے۔ اس لیے کہ ہم شعور و احساس کے اُس ورثے کو جو اگلوں سے ہم تک پہنچا تھا، آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے بزرگوں نے اس نئے حاصل کردہ وطن کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو جس طرح ہماری رگوں میں دوڑتے خون کی حرارت کا ذریعہ بنا دیا تھا، ہم اُس طرح یہ کام اپنے بچوں کے لیے نہیں کرسکے ہیں۔ ہمیں ایمان داری سے اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے بڑے اپنی ساری وضع داری اور رکھ رکھاؤ کے باوجود ہم سے ایک دھڑکتا ہوا رشتہ رکھتے تھے، چناںچہ انھیں اپنی سماجی قدروں، تہذیبی روایات، خاندانی مزاج اور قومی شعور کو آگے بڑھانے اور ہم تک پہنچانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی، لیکن ہم اپنے بچوں سے جنریشن گیپ رکھتے ہیں، لہٰذا بڑے بڑے حقائق تو کیا چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اُن تک اُس طرح نہیں پہنچا پاتے کہ وہ ان کے شعور و احساس کا ناگزیر حصہ بن جائیں۔
یہ سب باتیں درست ہیں اور ہمیں ضرور ماننی چاہییں، لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ یہ کوتاہی، یہ غفلت ہم سے کیوں سرزد ہوئی؟ کیا ہم نے ان مسائل کا اندازہ نہیں کیا؟ ہم نے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا کہ نسلوں کے بیچ پیدا ہونے والی خلیج کو اگر فوری طور پر پاٹنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر وہاں سے وقت کی منہ زور لہریں اس طرح راستہ بناتی چلی جاتی ہیں کہ اس خلیج کو پُر کرنا محال ہو جاتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ ہم ایسے غافل اور لاتعلق نہ تھے کہ ہمیں ان باتوں کا یکسر اندازہ ہی نہ ہوتا۔ ہم یہ جان گئے تھے کہ وقت کا دھارا کیا کچھ بہاکر لے جاسکتا ہے۔ ہم اُس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت سے بھی واقف تھے اور اس سلسلے میں اپنی سی کوشش بھی کررہے تھے، لیکن ہمارے ملکی، قومی اور سماجی حالات کا دباؤ بڑھتا اور اس کے مقابلے میں ہمارا نظام کم زور ہوا جاتا تھا۔ ہم خلوص سے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنا چاہتے تھے، لیکن ہمارا سیاسی نظام اور خارجی حالات ہماری کوششوں کو باور نہیں ہونے دے رہے تھے۔ آپ جاننا چاہیں گے کہ کیوں؟- تو سنیے۔
آزادی کے ان ستر برسوں میں ہم نے جو سفر طے کیا، وہ کیا ہے؟ ہم جن حالات سے گزرے ہیں، وہ کیا ہیں؟ ہم نے جو قومی مقتدرہ پیدا کی، وہ کیسی ہے؟ ہمارے یہاں جو سیاسی رہنما ابھرے، وہ کیسے ہیں؟ بہ ظاہر یہ سب چھوٹے چھوٹے اور سامنے کے سوالات ہیں، لیکن ذرا دیکھنے اور سوچنے بیٹھ جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر سوال اپنا ایک بڑا وسیع پس منظر رکھتا ہے اور یہی پس منظر دراصل ہماری قومی نفسیات کی تشکیل میں کردار ادا کرتا آیا ہے۔ بات ضرور افسوس ناک ہے، لیکن افسوس کی کیفیت حقائق کی نفی تو نہیں کرسکتی۔
چناںچہ ہزیمت کے احساس کے ساتھ ہی سہی، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ من حیث القوم ہم آج بھی پس ماندہ ہیں۔ ہماری انتظامی اشرافیہ اور سیاسی مقتدرہ دونوں ہی نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں۔ کیسے کرتے؟ وہ ذاتی خواہشات کو اپنے اجتماعی کردار اور قومی مفادات پر ترجیح دینے لگے تھے۔ انھیں دراصل قومی اِدبار سے نہیں اپنے اقتدار و اختیار سے غرض ہوگئی تھی۔ چناںچہ یہ ہوا کہ ہم نے غیروں سے آزادی حاصل کی اور اپنوں کی غلامی میں آگئے۔ ہم جبر سے چھوٹے اور آزمائش میں آپھنسے۔ ہم صبح کی اور روشنی کی آرزو میں نکلے، لیکن شبِ تاریک کی دلدل میں آپڑے۔ ایسا ہوا کیوں؟
یہ ذرا ٹیڑھا سوال ہے، لہٰذا اس کا جواب آسان نہیں ہے۔ اس لیے کہ جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، اپنی تاریخ کا سامنا کرنا ہوگا، ہمت سے اور ایمان داری کے ساتھ۔ سچ یہ ہے کہ افراد ہوں یا اقوام، یہ کام دونوں کے لیے مشکل ہوتا ہے، خاصا مشکل- اتنا کہ لوگ اس سے بچنے کے لیے خود اپنے آپ سے بھی سے لاتعلقی یا بے خبری اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ آگے چل کر بے خبری کی یہی پینک ان کے لیے ذاتی تباہی اور اجتماعی خودکشی کا راستہ بن جاتی ہے۔ قوموں اور ملکوں کے ساتھ بھی یہی ماجرا پیش آتا ہے۔ قومی سطح پر ہماری ابتلا یہی ہے کہ ہمارے عوام نے قومی امور سے، سیاسی معاملات سے، اقتدار کی دنیا سے اور اشرافیہ و عدلیہ سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ لاتعلقی بھی عجیب و غریب قسم کی رہی ہے۔
اس لیے کہ ملک جب بھی کسی سیاسی بحران سے دوچار ہوتا ہے تو عوام اپنی لاتعلقی کو فراموش کرکے اپنے سیاسی راہ نماؤں کی مدد کے لیے جی جان سے فوراً لپکتے ہیں، ان کی ایک پکار پر سو بار لبیک کہتے ہیں، ان سے جو مانگا جاتا ہے، نچھاور کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ قومی آزمائش کے ہر مرحلے پر وہ اپنے راہ نماؤں کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور اس امید سے دیکھتے ہیں کہ ان کے قائدین مدبرانہ قدم اٹھالیں گے، دانش مندانہ فیصلہ کریں گے اور قائدانہ کردار اختیار کریں گے- لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ عوام مایوس ہوتے ہیں اور دُکھ محسوس کرتے ہیں، اور بس۔ اس کے بعد اپنی لاتعلقی کے خول کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
پہلے اُن میں ردِعمل کا مادّہ تھا جو اپنا اظہار کرتا تھا، احتجاج کی خو تھی جو ظاہر ہوتی تھی، لیکن اب وہ صرف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی عدلیہ اور انتظامی اشرافیہ کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہی کہ عوام ابھی تک اپنے راہ نماؤں سے، اُن لوگوں سے جن کے ہاتھ میں اختیار ہے، اقتدار ہے، بہت بددل ہوچکے ہیں، ان کے دل بہت دُکھے ہوئے ہیں، لیکن اب بھی وہ اپنی قیادت سے اور وقت کے امکانات سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے آزمائش کا جب کوئی مرحلہ آتا ہے، وہ نئی امیدوں کے ساتھ اُن کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر پھر اِس لاتعلقی، بے حسی یا بے خبری کا کیا مطلب ہے، اور یہ کیوں ہے؟
جاپانی کی ایک کہاوت ہے، چیری کو حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو اُس کا خواب بھی فضول ہے۔ ہمارے یہاں ایسی صورتِ حال کے لیے انگور کھٹے ہیں، کا محاورہ ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ خواہشوں کی شکست اور امیدوں کی تضحیک سے افراد کے دل بجھ جاتے ہیں اور امنگیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اداروں کی بے توقیری اور راہ نماؤں کے وعدوں کے ٹوٹنے سے قوم میں اضمحلال راہ پاتا ہے اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ فرد ہو یا قوم مایوسی دونوں کو حالات سے، حقائق سے، اشیا سے اور وقت سے بیزار اور لاتعلق بنا دیتی ہے۔
من حیث القوم ہم ایسے تجربات سے بار بار گزرے ہیں۔ ان تجربات کا آغاز لیاقت علی خان کی شہادت سے ہوا تھا۔ اس کے بعد جنرل ایوب خان کا مارشل لا، فاطمہ جناح کی الیکشن میں ہار، اس کے بعد جنرل یحییٰ خاں کا اقتدار، مشرقی پاکستان کی علاحدگی، بھٹو کی روٹی کپڑا مکان دینے والی عوامی حکومت، قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک، جنرل ضیاء الحق کی اسلامی عدل و انصاف اور مساوات کا عظیم الشان خواب دکھاتی اور اس کے بعد بینظیر اور نوازشریف کی میوزیکل چیئر والے انداز کی دو حکومتیں، پھر جنرل مشرف کا مادر پدر آزاد اور روشن خیال عہدِ اقتدار کہ جس میں افراد کو اٹھا اٹھا کر امریکا کو دیا گیا، اس کے بعد آصف علی زرداری کا بلاخیز دورِ صدارت اور اس کے بعد میاں نوازشریف کی حالیہ حکومت تک دیکھ لیجیے۔
کیا ان میں سے کوئی ایک دور بھی ایسا گزرا ہے کہ جس میں عوامی امنگیں شکست سے دوچار نہ ہوئی ہوں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کوئی دور نہیں۔ یہ اہلِ اقتدار کی رساکشی کا کھیل تماشا ہے۔ اقتدار کی ہوس کا ننگا ناچ ہے۔ افسوس، صد افسوس خود غرضی، جاہ طلبی اور حبِ مال کی عریانی کا مسلسل چلتا ہوا منظرنامہ ہے۔
اب ذرا دوسری طرف بھی دیکھ لیجیے، جہاں سادہ لوح عوام ہیں جن کے دل امنگوں سے بھرے ہیں۔ اسی لیے وہ بنیادی جمہوریت، ملکی استحکام، قومی یک جہتی، روٹی کپڑا اور مکان، ایشیا سبز ہے، ہل چلے گا، نوے دن کے لیے اقتدار کی امانت، اسلامی ریفرنڈم، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، قرض اتارو ملک سنوارو، کشکول توڑیں گے، سب سے پہلے پاکستان، پاکستان کھپے سے لے کر دھرنے، ایمپائر کی انگلی اور پاناما پیپرز تک ہر بار سادگی اور سپردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر بار اس آرزو کی انگلی تھام کر چل پڑتے ہیں کہ بس اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اب ضرور بہتری آئے گی، لیکن حالات کہتے ہیں کہ یہ سب مسلسل دھوکے کا سفر ہے۔
اس سفر میں عوام کے چہرے، جسم اور روحیں جھوٹے نعروں، بلند بانگ دعووں اور باطل وعدوں سے افسردہ، آلودہ اور پژمردہ ہوتی رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں لاتعلقی کا پیدا ہونا سراسر فطری بات ہے۔ گذشتہ تین بار کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب الیکشن میں عوام کی شرکت کا تناسب پینتالیس فی صد سے زیادہ نہیں ہو پاتا تو اس میں تعجب کیسا؟ نو ستاروں کے قومی اتحاد کے بعد اگر گذشتہ چالیس برس میں ملک میں کوئی عوامی تحریک نہیں چل پائی تو اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ لوگ اب اگر قائداعظم، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی طرح سیاسی قائدین کو اپنا آئیڈیل نہیں بناتے تو یہ کوئی ان ہونی تھوڑی ہے۔ یہ سب تو فطری ردِعمل ہے۔ کیکر بوکر بھلا کہیں کپاس کی فصل بھی کاٹی جاتی ہے؟
ہمارے یہاں اقتدار کی چوہا دوڑ کا تماشا تو اس قدر اندوہ ناک اور عبرت خیز ہے کہ سنتا جا شرماتا جا والی صورتِ حال کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ اس میدان میں تو جو مداری اُترا اُس نے نرالے کرتب دکھائے۔ اپنے ہی رنگ کی دھما چوکڑی جمائی۔ کیسے کیسے جھلملاتے رنگوں کے خواب دکھائے۔ کبھی قوم کے نام پر، کبھی ملک کے نام پر، کبھی خوش حالی کے نام پر، کبھی اللہ رسول کے نام پر اور کبھی آئندہ نسلوں کے نام پر۔ یہ سب مداری لیبل بدل بدل کر وہی ایک اساطیری سانڈے کا تیل بیچتے آئے ہیں، سادہ لوگ عوام کو بیوقوف بناتے آئے ہیں، ان کے جذبات سے کھیلتے آئے ہیں اور ملک و قوم کا مال بٹور کر چلتے بنے ہیں۔
سادگی ہے، حماقت ہے، جہالت تو ہماری ہے، آپ کی ہے، ان عوام کی ہے جو بار بار ان کی لچھے دار باتوں میں آجاتے ہیں اور آسانی سے اُلو بن جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ٹھنڈے دل سے سوچیے، سینے پر ہاتھ رکھ کر ذرا تحمل سے خود سے پوچھیے، کیا ایسا نہیں ہے؟ تصدیق کے لیے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، جو گزر رہا ہے بس یہی ایک زمانہ سامنے رکھ لیجیے۔
بینظیر بھٹو کی ناگہانی موت نے سیاست میں جذبات کی وہ لہر دوڑائی کہ حکومت کو ان لوگوں کی جھولی میں لا ڈالی اور صدارت کا تاج اُن کے سر پہ لاسجایا جنھیں بصورتِ دیگر، یعنی محترمہ حیات رہتیں تو کبھی ممکن ہی نہیں تھا کہ حکومت مل پاتی۔ اور پھر دیکھنے والی آنکھوں نے دیکھا کہ اس دورِ حکومت نے لٹھ ماروں اور نوسر بازوں کی یاد ایسے تازہ کی کہ عوام نے رہ رہ کر کانوں کی لویں چھوئیں۔ سو، 2013 میں جب ایک بار پھر انتخابی دنگل جمنے کا موقع آیا تو عوامی جھکاؤ کسی اور طرف تھا۔
یہ جھکاؤ اُس وقت بہت واضح ہوگیا جب لوگوں نے شریف برادران کو زور شور سے یہ کہتے سنا کہ وہ ملک سے لوٹی گئی پائی پائی واپس لائیں گے۔ سرے محل بیچ کر رقم واپس قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے کروڑوں ڈالر قوم کو واپس دلائے جائیں گے۔ جوشِ خطابت میں یہی دعویٰ کیا گیا کہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر یہ سرمایہ، یہ قومی دولت وصول کی جائے گی۔ ملک دیوالیہ ہوگیا ہے، اکانومی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، بجلی کے بحران نے ملکی صنعتوں اور کاروباری حالات کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ان سب حالات کو درست کیا جائے گا۔ عوام کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ فلاح کا دور شروع ہوگا۔ کیا کیا امیدیں نہیں بندھائی گئی تھیں۔
وقت گزرتا ہے، گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ 2017ء کے جولائی میں شریف برادران کا اقتدار پانچویں برس میں آجاتا ہے۔ اس وقت تک انھیں اتنی مدت اور مہلت بہرحال مل چکی تھی کہ وہ اپنے نوے فی صد سے زائد وعدے پورے کر دکھائیں۔ اچھا، چلیے چھوڑیے، اسّی فی صد ہی سہی۔ نہیں، چلیے تو ستر فی صد۔ یہ بھی نہیں۔ اچھا تو ساٹھ فی صد، پچاس فی صد، چالیس فی صد، تیس فی صد۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا۔ یہ اقتدار کی بھول بھلیاں ہے۔
کہتے ہیں جو نمک کی کان میں جاتا ہے، خود بھی نمک ہوجاتا ہے۔ اقتدار بھی نمک کی ایسی ہی طلسماتی کان ہے۔ اس میں جانے والے پھر واپس اپنی اصلی انسانی حالت میں نہیں لوٹ کر آتے۔ انتخابی مہم اور اقتداری دوڑ میں جو کچھ وہ پھولی ہوئی سانس اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہیں، وہ بات بے شک ان کے حلق سے نکلتی ہے، لیکن وہ اُن کی نہیں ہوتی، بلکہ اُس طلسماتی عفریت کی ہوتی ہے جو اُن کے حلق میں، سینے میں اور پیٹ میں جا بیٹھتا ہے۔ پھر جو بولتا ہے وہی بولتا ہے۔ دیکھ لیجیے، ایسا ہی ہوا ہے۔ اسی لیے وعدوں کی وہ فہرست کتنی پوری ہوئی، آج یہ حقیقت ہم سب کے سامنے ہے۔
اے نژادِ نوا! اے عزیزو!
ان حالات میں ہم نے زندگی بسر کی ہے۔ ہمیں بار بار آزمایا گیا اور ہر بار ہم جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ سو اب تم خود سوچ سکتے ہو، سمجھ سکتے ہو کہ ہم اگر جذبہ و احساس کا وہ اثاثہ تمھیں ذمے داری سے منتقل نہیں کرسکے تو آخر اس سب میں ہمارا کتنا قصور تھا اور اُن حالات کا کتنا دخل تھا، جو ہمیں درپیش تھے۔
میرے بچو! یہ عذر خواہی یا جواز جوئی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی غفلت کا اور اپنے قصور کا اعتراف کرنے میں باک نہیں۔ ہم اپنا جرم تسلیم کرتے ہیں، لیکن اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ حالات کے اس عفریت کو قابو کرنے، سیاست، مقتدرہ اور انتظامی اشرافیہ کے ان ہتھکنڈوں سے نکلنے میں تم ہمارے شانہ سے شانہ ملا کر شامل ہوجاؤ۔ ہم تمھیں اپنے سارے تجربات میں سچائی اور محبت سے شامل کرکے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس گہرے یقین کے ساتھ کہ تم ہم سے بہتر عقل و شعور کا مظاہرہ کرو گے، اور ہمارا بڑھاپا اور تمھاری جوانی آنے والے اچھے دن مل کر دیکھیں گے۔ ہمارے بزرگوں میں ایک نے دعا کی تھی:
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہم اس دعا کا اعادہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ دُعا بھی تمھیں دیتے ہیں:
اے نژادِ نو! آزاد رہو، آباد رہو!