ارباز خان کی قائداعظم سے ملاقات
ارباز خان کی قائداعظم سے ملاقات
اربازخاناور بہروزخان کے اسکول میں چودہ اگست کے حوالے سے تقریب ہورہی تھی۔ سرعابد نے چُھٹیوں پر گئے ہوئے تمام بچوں کو خود اُن کے گھروں پر جاکر تقریب میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اُن کے اس جذبے کو بچوں کے والدین نے بے حد سراہا اور تقریب میں بچوں کے ساتھ خود بھی آنے کی ہامی بھری تھی۔ اور آج یعنی چودہ اگست کو صبح ہی سے بچوں کی ٹولیاں رنگ برنگے کپڑوں، سر پر سبز رنگ کی کیپ اور ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھامے ہنستے مسکراتے اسکول کی طرف آرہی تھیں۔ یہ سب بہت شان دار لگ رہا تھا۔
اِس چودہ اگست کی ایک خاص انفرادیت یہ بھی ہے کہ جب چودہ اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا تھا تو اس وقت ماہ رمضان کا مبارک مہینہ تھا۔ اور اِس مرتبہ بھی ماہ رمضان ہے۔
کچھ دیر میں تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ تلاوت کلام پاک سے فرحان احمد نے حاضرین کی روح کو گرمادیا۔ تلاوت کے بعد نعیم علی نے نعت پڑھی پھر چودہ اگست کے متعلق تقریری مقابلہ شروع ہوا۔ تقریری مقابلے میں بہروزخان نے حصہ لیا تھا جب کہ اربازخان سامعین میں بیٹھا یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا۔
اربازخان آج دلی طور پر افسردہ اور اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں سے کچھ کھچا کھچا سا تھا۔ اس کی یہ کیفیت بہروزخان اور اس کے دوست مُحِب نے بھی محسوس کرلی تھی۔ محب نے پوچھا بھی کہ میرے دوست! خیریت؟
اربازخان جواباً بولا؛ ''بس خیریت ہے۔''
''تو یوں خاموش کیوں ہو؟'' مُحِب نے سوال کیا۔
''بس یار! آج بولنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ کچھ سوچنا چاہتا ہوں۔''
یہ سن کر محب نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا؛ ''ٹھیک ہے، آج تم نہ بولنے کا آرام کرو اور جو سوچ تمہارے دماغ میں ہے اسے سوچو۔ میں چلا بہروزخان کی طرف۔''
محب کے جانے کے بعد اربازخان نے وہیں پنڈال میں دور کونے میں ایک کرسی ڈھونڈی اور اس پر براجمان ہوکر سوچوں میں کھوگیا۔ اربازخان سوچوں میں ڈوبا رہا اور ایک ایک کرکے بچے چودہ اگست 1947کے متعلق تقریریں کرکے جاتے رہے۔
اربازخان سوچ رہا تھا، آج میرا پاکستان جتنے مشکل دور سے گزررہا ہے، پہلے کبھی ایسا دور نہ آیا تھا۔ میرے پاکستان کے سُکھ کے لمحے بھی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اُسے اپنا دوست صدیق یاد آیا جو اپنے والدین کے ساتھ سیر کے لیے کتنا خوش خوش کراچی گیا تھا لیکن پھر وہاں سے کفن میں ملبوس واپس آیا۔ اربازخان نے اسے دیکھا تو اسے اس کے چہرے پر ایک ہی سوال لکھا نظر آیا تھا؛ ''میں کس گناہ میں سنگ سار ہوا؟ مجھے میرا گناہ بتائو۔''
آج میرے پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہورہا؟ دھماکے، ڈاکے، اغوا برائے تاوان؟؟ کتنے ہی پاکستانیوں کو غیروں کے ہاتھوں بیچاگیا۔ ہر محکمہ کرپٹ ہے۔ آج کے پاکستان میں کوئی بھی خود کو پارسا نہیں کہہ سکتا۔ بے گناہ عوام کسی اور کے جرم کے بدلے ناحق مارے جارہے ہیں۔
اتنی گہری سوچوں سے اربازخان کا دل یکایک گھبرا ساگیا۔ اس نے اِدھراُدھر دیکھا پھر ایک گہری اور طویل سانس لی۔ وہ بڑبڑایا؛ ''یااﷲ! ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں روشنی کی ایک معمولی سی کرن بھی نہیں ہے؟'' اچانک اسے سرعابد کی خوشی سے لبریز اور کانپتی آواز سنائی دی۔
''میرے پیارے بچو! اب آپ کے اسکول کی اس چودہ اگست کی تقریب کے مہمان خصوصی تشریف لارہے ہیں۔ ان کا استقبال کھڑے ہوکر اور پاکستان! زندہ باد! کے نعرے لگاکر کریں۔''
اربازخان نے اسٹیج کی طرف دیکھا۔ حیرت کی شدت سے اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہوگئیں۔ اسٹیج پر قوم کے نجات دہندہ، پاکستانی قوم کے بابا، قائداعظم محمد علی جناح کھڑے تھے۔ وہ اپنی مخصوص ٹوپی اور شیروانی میں ملبوس بچوں کو اپنے مخصوص انداز میں سلام کررہے تھے۔ انہیں دیکھ کر سارے بچے بے حد پُرجُوش تھے اور اپنی پوری طاقت سے نعرے لگارہے تھے۔ اربازخان کے دل ودماغ پر چھائے مایوسی اور بددلی کے بادل یکایک ہوا ہوگئے۔ وہ تیزی سے اسٹیج پر پہنچا اور قائد سے بولا؛
''اﷲ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے بابا! کہ آپ آج پاکستان واپس تشریف لے آئے۔ دیکھیں آج آپ کا اور ہمارا پاکستان بہت مشکل میں ہے۔ بابا! پاکستان کو ڈوبنے سے بچائیے۔'' یہ کہتے کہتے اربازخان آگے بڑھا اور قائد کے ہاتھ کو پکڑلیا۔ قائداعظم اُس کی بات پر مسکرائے اور پھر اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اسٹیج پر لگے مائیک کی طرف بڑھے۔ مائیک پر ابھی تک سرعابد کھڑے تھے۔ انہوں نے قائد کو اپنی طرف آتے دیکھا تو مائیک پر بولے؛ ''پیارے بچو!خاموش ہوکر بیٹھ جائیں، اب ہمارے قائداعظم آپ سے خطاب کریں گے۔''
قائد نے اپنی بات کا آغاز کچھ یوں کیا؛ ''میرے پیارے بچو! السّلام علیکم! '' بچوں نے جواباً ''وعلیکم السّلام'' کہا۔ قائد پھر کہنے لگے؛ ''میرے پیارے بچو! پاکستان کے مستقبل کے معمارو! آج پاکستان جس حال میں بھی ہے بہرحال ماضی سے بہت بہتر ہے۔ موجودہ حالات ہمارے موجودہ حکم رانوں کی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں پھر بھی آپ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ قوموں اور ملکوں کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ پیارے بچو! ماضی کی طرف نہ دیکھو، روشن مستقبل کے خواب دیکھو۔ ماضی تو دفن ہوچکا۔ نیا، روشن مستقبل دریافت کرو۔ پاکستان کے روشن اور ترقی یافتہ مستقبل تو تم خود ہو۔''
قائد نے اتنا ہی کہا تھا کہ یکایک اربازخان جوش میں آگیا اور نعرہ لگایا؛ ''قائداعظم!'' بچوں کی طرف سے جواب آیا؛ ''زندہ باد!''
اچانک کسی نے اُسے زور سے جھنجھوڑا، اور پھر۔۔۔۔ جیسے سب کچھ بدل گیا۔
اربازخان اپنی جگہ بیٹھا تھا اور اسٹیج پر بہروزخان دھواںدار تقریر کررہا تھا۔
اربازخان کو جھنجھوڑنے والا مُحِب تھا جو اب اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ محب نے مسکراتے ہوئے اربازخان کی طرف دیکھا اور کہا؛ ''جناب! کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئے تھے اور قائداعظم! زندہ باد! کے نعرے بھی لگارہے تھے۔ لگتا ہے سوچتے سوچتے نیند کی خوب صورت وادیوں میں پہنچ گئے تھے۔''
اربازخان محب کی بات کے جواب میں بولا؛ ''ہاں! بڑا ہی خوب صورت خواب تھا۔'' اُس کی خواب سے پہلی والی افسردگی، مایوسی اور دل شکستگی غائب ہوچکی تھی۔ اربازخان نے خوش ہوکر سامنے اسٹیج کی طرف دیکھا اور کان بہروزخان کی تقریر پر لگادیے۔ بہروزخان کی تقریر اس کے ابو نے لکھ کر دی تھی جو ایک مایوس بچے کی قائداعظم سے خواب میں ملاقات پر مشتمل تھی۔ دراصل اربازخان کا دماغ اسی تقریر کے زیرِاثر تھا اور اس نے سچ مچ خواب میں قائداعظم سے ملاقات کرلی تھی جو چودہ اگست کو اُس کے اسکول میں مہمان خصوصی بن کر آئے اور بچوں کو پاکستان کے سنہرے اور روشن مستقبل کی نوید سناکر چلے گئے۔
بہروزخان کی تقریر ختم ہوئی تو بچوں کی تالیوں سے سارا اسکول گونج اٹھا۔ تمام بچے کھڑے ہوکر، زوردار تالیاں بجاکر بہروزخان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔
بہروزخان نے اوّل انعام حاصل کیا اور اربازخان نے انعام میں قائداعظم سے ملاقات کرلی تھی۔
پیارے کرنیں ساتھیو! حالات چاہے کیسا بھی رخ اختیار کریں، کسی حال میں مایوس نہ ہوں۔ روشن مستقبل کی امید میں خوب دل لگاکر تعلیم حاصل کریں۔ یہی پاکستان کی خدمت ہے۔ پاکستان! زندہ باد۔
اِس چودہ اگست کی ایک خاص انفرادیت یہ بھی ہے کہ جب چودہ اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا تھا تو اس وقت ماہ رمضان کا مبارک مہینہ تھا۔ اور اِس مرتبہ بھی ماہ رمضان ہے۔
کچھ دیر میں تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ تلاوت کلام پاک سے فرحان احمد نے حاضرین کی روح کو گرمادیا۔ تلاوت کے بعد نعیم علی نے نعت پڑھی پھر چودہ اگست کے متعلق تقریری مقابلہ شروع ہوا۔ تقریری مقابلے میں بہروزخان نے حصہ لیا تھا جب کہ اربازخان سامعین میں بیٹھا یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا۔
اربازخان آج دلی طور پر افسردہ اور اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں سے کچھ کھچا کھچا سا تھا۔ اس کی یہ کیفیت بہروزخان اور اس کے دوست مُحِب نے بھی محسوس کرلی تھی۔ محب نے پوچھا بھی کہ میرے دوست! خیریت؟
اربازخان جواباً بولا؛ ''بس خیریت ہے۔''
''تو یوں خاموش کیوں ہو؟'' مُحِب نے سوال کیا۔
''بس یار! آج بولنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ کچھ سوچنا چاہتا ہوں۔''
یہ سن کر محب نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا؛ ''ٹھیک ہے، آج تم نہ بولنے کا آرام کرو اور جو سوچ تمہارے دماغ میں ہے اسے سوچو۔ میں چلا بہروزخان کی طرف۔''
محب کے جانے کے بعد اربازخان نے وہیں پنڈال میں دور کونے میں ایک کرسی ڈھونڈی اور اس پر براجمان ہوکر سوچوں میں کھوگیا۔ اربازخان سوچوں میں ڈوبا رہا اور ایک ایک کرکے بچے چودہ اگست 1947کے متعلق تقریریں کرکے جاتے رہے۔
اربازخان سوچ رہا تھا، آج میرا پاکستان جتنے مشکل دور سے گزررہا ہے، پہلے کبھی ایسا دور نہ آیا تھا۔ میرے پاکستان کے سُکھ کے لمحے بھی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
اُسے اپنا دوست صدیق یاد آیا جو اپنے والدین کے ساتھ سیر کے لیے کتنا خوش خوش کراچی گیا تھا لیکن پھر وہاں سے کفن میں ملبوس واپس آیا۔ اربازخان نے اسے دیکھا تو اسے اس کے چہرے پر ایک ہی سوال لکھا نظر آیا تھا؛ ''میں کس گناہ میں سنگ سار ہوا؟ مجھے میرا گناہ بتائو۔''
آج میرے پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہورہا؟ دھماکے، ڈاکے، اغوا برائے تاوان؟؟ کتنے ہی پاکستانیوں کو غیروں کے ہاتھوں بیچاگیا۔ ہر محکمہ کرپٹ ہے۔ آج کے پاکستان میں کوئی بھی خود کو پارسا نہیں کہہ سکتا۔ بے گناہ عوام کسی اور کے جرم کے بدلے ناحق مارے جارہے ہیں۔
اتنی گہری سوچوں سے اربازخان کا دل یکایک گھبرا ساگیا۔ اس نے اِدھراُدھر دیکھا پھر ایک گہری اور طویل سانس لی۔ وہ بڑبڑایا؛ ''یااﷲ! ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کہیں روشنی کی ایک معمولی سی کرن بھی نہیں ہے؟'' اچانک اسے سرعابد کی خوشی سے لبریز اور کانپتی آواز سنائی دی۔
''میرے پیارے بچو! اب آپ کے اسکول کی اس چودہ اگست کی تقریب کے مہمان خصوصی تشریف لارہے ہیں۔ ان کا استقبال کھڑے ہوکر اور پاکستان! زندہ باد! کے نعرے لگاکر کریں۔''
اربازخان نے اسٹیج کی طرف دیکھا۔ حیرت کی شدت سے اس کی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہوگئیں۔ اسٹیج پر قوم کے نجات دہندہ، پاکستانی قوم کے بابا، قائداعظم محمد علی جناح کھڑے تھے۔ وہ اپنی مخصوص ٹوپی اور شیروانی میں ملبوس بچوں کو اپنے مخصوص انداز میں سلام کررہے تھے۔ انہیں دیکھ کر سارے بچے بے حد پُرجُوش تھے اور اپنی پوری طاقت سے نعرے لگارہے تھے۔ اربازخان کے دل ودماغ پر چھائے مایوسی اور بددلی کے بادل یکایک ہوا ہوگئے۔ وہ تیزی سے اسٹیج پر پہنچا اور قائد سے بولا؛
''اﷲ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے بابا! کہ آپ آج پاکستان واپس تشریف لے آئے۔ دیکھیں آج آپ کا اور ہمارا پاکستان بہت مشکل میں ہے۔ بابا! پاکستان کو ڈوبنے سے بچائیے۔'' یہ کہتے کہتے اربازخان آگے بڑھا اور قائد کے ہاتھ کو پکڑلیا۔ قائداعظم اُس کی بات پر مسکرائے اور پھر اُسے ہاتھ سے پکڑ کر اسٹیج پر لگے مائیک کی طرف بڑھے۔ مائیک پر ابھی تک سرعابد کھڑے تھے۔ انہوں نے قائد کو اپنی طرف آتے دیکھا تو مائیک پر بولے؛ ''پیارے بچو!خاموش ہوکر بیٹھ جائیں، اب ہمارے قائداعظم آپ سے خطاب کریں گے۔''
قائد نے اپنی بات کا آغاز کچھ یوں کیا؛ ''میرے پیارے بچو! السّلام علیکم! '' بچوں نے جواباً ''وعلیکم السّلام'' کہا۔ قائد پھر کہنے لگے؛ ''میرے پیارے بچو! پاکستان کے مستقبل کے معمارو! آج پاکستان جس حال میں بھی ہے بہرحال ماضی سے بہت بہتر ہے۔ موجودہ حالات ہمارے موجودہ حکم رانوں کی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں پھر بھی آپ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہ ہوں۔ قوموں اور ملکوں کی زندگی میں اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں۔ پیارے بچو! ماضی کی طرف نہ دیکھو، روشن مستقبل کے خواب دیکھو۔ ماضی تو دفن ہوچکا۔ نیا، روشن مستقبل دریافت کرو۔ پاکستان کے روشن اور ترقی یافتہ مستقبل تو تم خود ہو۔''
قائد نے اتنا ہی کہا تھا کہ یکایک اربازخان جوش میں آگیا اور نعرہ لگایا؛ ''قائداعظم!'' بچوں کی طرف سے جواب آیا؛ ''زندہ باد!''
اچانک کسی نے اُسے زور سے جھنجھوڑا، اور پھر۔۔۔۔ جیسے سب کچھ بدل گیا۔
اربازخان اپنی جگہ بیٹھا تھا اور اسٹیج پر بہروزخان دھواںدار تقریر کررہا تھا۔
اربازخان کو جھنجھوڑنے والا مُحِب تھا جو اب اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا۔ محب نے مسکراتے ہوئے اربازخان کی طرف دیکھا اور کہا؛ ''جناب! کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئے تھے اور قائداعظم! زندہ باد! کے نعرے بھی لگارہے تھے۔ لگتا ہے سوچتے سوچتے نیند کی خوب صورت وادیوں میں پہنچ گئے تھے۔''
اربازخان محب کی بات کے جواب میں بولا؛ ''ہاں! بڑا ہی خوب صورت خواب تھا۔'' اُس کی خواب سے پہلی والی افسردگی، مایوسی اور دل شکستگی غائب ہوچکی تھی۔ اربازخان نے خوش ہوکر سامنے اسٹیج کی طرف دیکھا اور کان بہروزخان کی تقریر پر لگادیے۔ بہروزخان کی تقریر اس کے ابو نے لکھ کر دی تھی جو ایک مایوس بچے کی قائداعظم سے خواب میں ملاقات پر مشتمل تھی۔ دراصل اربازخان کا دماغ اسی تقریر کے زیرِاثر تھا اور اس نے سچ مچ خواب میں قائداعظم سے ملاقات کرلی تھی جو چودہ اگست کو اُس کے اسکول میں مہمان خصوصی بن کر آئے اور بچوں کو پاکستان کے سنہرے اور روشن مستقبل کی نوید سناکر چلے گئے۔
بہروزخان کی تقریر ختم ہوئی تو بچوں کی تالیوں سے سارا اسکول گونج اٹھا۔ تمام بچے کھڑے ہوکر، زوردار تالیاں بجاکر بہروزخان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔
بہروزخان نے اوّل انعام حاصل کیا اور اربازخان نے انعام میں قائداعظم سے ملاقات کرلی تھی۔
پیارے کرنیں ساتھیو! حالات چاہے کیسا بھی رخ اختیار کریں، کسی حال میں مایوس نہ ہوں۔ روشن مستقبل کی امید میں خوب دل لگاکر تعلیم حاصل کریں۔ یہی پاکستان کی خدمت ہے۔ پاکستان! زندہ باد۔