آٹا ہوا نایاب۔۔۔

ذمے داران کے خلاف بلاتفریق آپریشن، مسئلے کا اکلوتا حل۔


Parvez Khan February 14, 2013
ذمے داران کے خلاف بلاتفریق آپریشن، مسئلے کا اکلوتا حل۔ فوٹو: فائل

زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستان زرعی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز ہے۔ اندرون سندھ میں بسنے والوں کی اکثریت کا دارومدار زراعت ہی پر ہے۔ سکھر، گھوٹکی، خیرپور، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ اور دیگر اضلاع میں اعلیٰ کوالٹی کی زرعی اجناس، سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے میں زرعی اجناس کی قلت، خصوصاً آٹے کا نایاب ہونا ایک حیران کن امر ہے۔

ایک طویل عرصے سے سکھر گندم کی قلت کا شکار ہے جس کا بنیادی سبب گندم اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی ہے۔ گراں فروشی بھی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مختلف ادوار میں سبسڈی کا اعلان کرتی رہی ہے، مگر معاملہ کبھی اعلانات سے آگے نہیں بڑھا۔ دسمبر کے وسط میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے آٹے کے نرخ، فی کلو 34.5 روپے مقرر کیے گئے تھے، جو بااثر فلور ملز مالکان، ہول سیلرز اور بااثر تاجروں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے آج 40 سے44 روپے فی کلو کی قیمت پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

اِس کی بنیادی وجہ بااثر منافع خور اور مارکیٹ کمیٹی کے وہ افسران ہیں، جن کا اکلوتا مقصد اپنے مفادات کا حصول ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ ایک ماہ کے دوران شہریوں کو مقرر کردہ نرخ پر آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے چند اقدامات ضرور کیے گئے، مگر کارروائیوں کا سلسلہ جلد ہی تھم گیا، جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیلنے لگی۔

سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ اور نیو سکھر کے گنجان آبادی والے علاقوں میںا شیائے خورونوش، خصوصاً آٹا فروخت کرنے والے تاجروں کی من مانیاں عروج پر نظر آتی ہیں۔ شہری 42 روپے فی کلو کی قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق محکمۂ خوراک، سندھ کے گوداموں میں 5 لاکھ ٹن سے زاید گندم موجود ہے، جو آنے والی فصل تک کے لیے کافی ہے، تاہم محکمۂ خوراک کی جانب سے ضلعے کی ایسی نصف درجن فلور ملز کو بھی گندم کا کوٹا تقسیم کیا جا رہا ہے، جو بند ہیں، یا پھر غیر فعال۔ سیاسی رسوخ رکھنے والے فلور ملز مالکان بھاری منافع کمانے کے لیے گندم بیرون صوبہ فروخت کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محکمۂ خوراک کی غیرسنجیدہ پالیسیوں کی وجہ سے صورت حال گمبھیر ہوگئی ہے۔ شہری منہگا آٹا فروخت کرنے والے تاجروں کے رحم و کرم پر ہیں۔

آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سکھر شہر میں ہوٹل مالکان نے بھی 6 روپے میں فروخت ہونے والی روٹی کے نرخ بڑھا کر 7 روپے کر دیے ہیں۔ دودھ والی روٹی، تافتان اور شیرمال کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ سکھر ہوٹل شیرمال ایسوسی ایشن کے راہ نما، حاجی امین فیصل، شفیق احمد عرف منا اور محمد مہتاب انصاری کی زیر صدارت گذشتہ دنوں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں آٹے، بجلی، گیس، پیٹرول اور ملازمین کی اجرت میں اضافے کے حوالے سے تفصیلی غور و خوص کیا گیا۔

اجلاس کے بعد ذرایع ابلاغ کے نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے راہ نمائوں نے کہا کہ دسمبر سے قبل 80 کلو میدے کی بوری 2500 روپے میں فروخت ہورہی تھی، مگر دو ماہ کے دوران اِس کی قیمت میں 700 روپے کا اضافہ ہوگیا، حکومت کی جانب سے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے ہیں، جس کے کاروبار پر منفی مرتب ہو رہے ہیں، بہت سے افراد نے کاروبار ترک کردیا ہے۔ ان ہی عوامل کی وجہ سے، بہ حالت مجبوری قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

سوئی سدرن گیس ضرورت کے مطابق پریشر فراہم کرنے میں ناکام ہے، تندور مالکان لکڑی، کوئلا اور گیس سیلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ، مارکیٹ کمیٹی اور محکمۂ خوراک کو اس ضمن میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا، جس کی وجہ سے سکھر کے مکین شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ ہوٹل مالکان کے مطابق جس دن میدے کی بوری کی سابق قیمت پر دست یابی شروع ہوجائے گی، وہ بھی اپنی قیمتوں میں کمی کردیں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب سکھر شہر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہو۔ ماضی میں متعدد بار شہریوں کو اِس نوع کی صورت حال کا سامنا رہا، مگر کبھی ٹھوس کارروائی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ گذشتہ دنوں ڈپٹی کمشنر بلال احمد میمن اور اسسٹنٹ کمشنر سید نعمان مسعود نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے، پہلے مرحلے میں گنجان علاقوں کے دکان داروں سے، فرضی خریداروں کے ذریعے، آٹا خریدا، اور 8 روپے اضافی وصول کرنے کی تصدیق کے بعد شہر بھر میں مقرر کردہ نرخ پر آٹے کی فروخت یقینی بنانے، اور دکانوں کے باہر قیمتوں کی فہرست آویزاں کرنے کے لیے مہم شروع کر دی۔

کچھ ہی عرصے بعد باقاعدہ چھاپوںکا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دکان داروں پر جرمانے بھی عاید کیے گے۔ ساتھ ہی فلور ملز مالکان کو تنبیہ کے نوٹس بھجوائے گئے۔اِس تعلق سے چھوٹے دکان داروں کا کہنا ہے کہ معاملے کے اصل ذمے دار فلور ملز مالکان اور آٹے کے تاجر ہیں، جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے لیے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔

آٹے کے بعض تاجروں نے نام شایع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبائی حکومت کے احکامات پر محکمۂ خوراک، فلور ملز کو 28 روپے کلو کے حساب سے گندم فروخت کرتا ہے، جس پر فی کلو دو روپے اخراجات آتے ہیں۔ بعد میں ہول سیلر اُس میں ایک روپے سے دو روپے اضافے کے بعد شہریوں کو فروخت کرتے ہیں، مگر فلور ملز مالکان میں اکثریت کی تعداد حکم راں جماعت سے ہے، جو احکامات کو نظر انداز کر کے اپنی من پسند قیمت پر آٹا فروخت کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے اُن کے خلاف کارروائی کی کوئی جرات نہیں کرتا۔ اگر کوئی افسر کارروائی کرتا بھی ہے، تو اس کا فوری ٹرانسفر کروا دیا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والے افسران فلور ملز مالکان کے خلاف کارروائی کا عندیہ تو دیتے ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں، اورچھوٹے دکان داروں پر معمولی جرمانہ عاید کر کے اعلیٰ حکام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام کے مطابق مخلصانہ کوششوں اور بلاتفریق آپریشن کے بغیر اِس مسئلے کا سدباب ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں