گناہوں کی اقسام ان کی تعریف و تفصیل
گناہ، ان اقوال و افعال اور اعمال و حرکات کو کہتے ہیں، جو خلاف شرع، ناپسندیدہ اور تہذیب و شائستگی سے گرے ہوئے ہوں۔
حضرت ابو ہریرہؓ روای ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''سات ہلاکت خیز گناہوں سے بچو۔'' (بخاری)
یہ حدیث پاک کا ابتدائی حصہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ گناہ زندگی کے لیے بہت ہی مہلک اور زہرِ ہلاہل کی طرح ہوتے ہیں، جن سے بچنا اور زندگی کو ان کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پتا ہو کہ گناہ کسے کہتے ہیں۔ اس کی کتنی قسمیں ہیں اور زندگی پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس لیے ہم پہلے گناہ کی تعریف اور اس کی اقسام تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
گناہ، ان اقوال و افعال اور اعمال و حرکات کو کہتے ہیں، جو خلاف شرع، ناپسندیدہ اور تہذیب و شائستگی سے گرے ہوئے ہوں۔ یہ اپنے بھیانک اور بُرے انجام کی وجہ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ ذی شان انسان ان کا بھی ارتکاب کرے۔ اسی لیے اسلامی شریعت نے انہیں حرام قرار دیا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے سے روکا ہے۔ اس قسم کے گناہوں کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ صغیرہ ۲۔ کبیرہ
۱۔ کبیرہ ان گناہوں کو کہتے ہیں جن کے لیے قانون الٰہی یعنی شریعت خداوندی اور دین مصطفویؐ میں '' حدِ شرعی'' یعنی باقاعدہ سزا مقرر ہے، اور بتا دیا گیا ہے کہ جو شخص ان گناہوں میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے گا تو اسے ضابطے کے مطابق مجرم قرار دے کر سزا دی جائے گی۔
۲۔ گناہ صغیرہ، ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو کبیرہ گناہوں کی طرح سنگین نہیں ہوتے اور ان کے لیے حد شرعی بھی مقرر نہیں، البتہ معصیت ہونے کے حوالے سے ان کی سخت مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان سے بچیں، کیوں کہ وہ بہر حال نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کسی طور بھی درست نہیں، خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔
گناہ کبیرہ و صغیرہ کے حوالے سے اہل فکر و نظر کے مختلف طبقات کی مختلف رائے ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ کہتا ہے کہ، گناہ شرعی نصوص و ہدایات کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کا نام ہے، اور یہ حکم عدولی کسی معمولی حاکم کی نہیں بلکہ اُس ''احکم الحاکمین'' کی ہے جو ساری کائنات کا بادشاہ اور جہانوں کا رب ہے۔ اس لیے اس کی حکم عدولی اور نافرمانی خواہ کسی بھی درجے میں ہو وہ اس کی عظمت و جلالت کو دیکھتے ہوئے گناہ صغیرہ نہیں رہتی بلکہ گناہ کبیرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں: '' عظمت خداوندی کو دیکھتے ہوئے ہر معصیت کبیرہ گناہ ہے، صغیرہ نہیں۔''
ایک دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی حدود متعین نہیں ہیں بلکہ دو خارجی عوامل ایسے ہیں جو انہیں صغیرہ یا کبیرہ بناتے ہیں، اور وہ دو عوامل استغفار اور اصرار ہیں۔
( الف) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص چھوٹا سا گناہ بھی تکرار کے ساتھ کرتا ہے اور اسے کرتا ہی رہتا ہے تو اس تکرار و اصرار سے وہ گناہ صغیرہ اور چھوٹا نہیں رہتا بلکہ کبیرہ بن جاتا ہے۔
(ب) اس کے برعکس اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے مگر استغفار کا عمل بھی جاری رکھتا ہے اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا بلکہ صغیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف فرما دیتے ہیں۔
ایک گروہ گناہوں کے سلسلے میں گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے مقام و مرتبے اور ان کے علمی و سماجی حیثیت کو اہم اور فیصلہ کن قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی میں گناہوں کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا متعین کرتا ہے۔ چناں چہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اگر بحیثیت، صاحب تقویٰ و سجادہ، مقبولِ عوام اور دانا و بینا عالم ہو تو اس سے سرزد ہونے والا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ جیسے عام شہری جرم کرے تو اسے اتنا قبیح نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر وہی جرم کوئی قانون کا محافظ اور پولیس والا کرے تو انتہائی سنگین تصور کیا جاتا ہے۔
صوفیائے کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ کمزور دشمن کو کبھی بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ گناہ انسان کے جانی دشمن ہیں، اس لیے اگر وہ چھوٹے اور حقیر ہوں تو تب بھی انہیں حقیر تصور نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں حقیر اور چھوٹا تصور کرنا، تباہی و بربادی، ہلاکت اور خطرات و مصائب کو دعوت دینا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ آہستہ آہستہ ایک بڑے گناہ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبوت کے پروانے اپنے محبوبؐ کے ہم راہ سفر کر رہے تھے کہ وقت آنے پر انہوں نے ایک بیاباں میں قیام کیا۔ حضور نبی اکرمؐؐ نے حکم دیا کہ اردگرد سے لکڑیاں جمع کر کے لائو۔ حاضرین نے عرض کی: یارسول اللہ! یہاں تو لکڑیوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جو تنکا، شاخ، گھاس پھونس غرض جو چیز بھی ملتی ہے، لے آئو! صحابہ کرامؓ بکھر گئے۔ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایسی ہی چیزیں تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ان چیزوں کا ڈھیر لگ گیا۔ آپؐ نے فرمایا: نیکیوں اور برائیوں کا بھی یہی حال ہے، چھوٹی چھوٹی نیکیاں ملتی رہیں تو نیکیوں کا انبار لگ جاتا ہے اور اگر برائیاں جمع ہوتی رہیں تو ان کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس لیے نیکی اور برائی میں سے کسی کو بھی حقیر، صغیر اور چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔
حکماء اور اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ گناہ کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ گناہ بس گناہ ہے۔ یہ محتاط انداز اور سہمی سہمی سی تعریف اس لیے ہے تاکہ انسان گناہ کو صغیرہ و کبیرہ کے پیمانے پر ماپنے کی بجائے، صرف گناہ سمجھے اور اس سے دامن بچائے تاکہ فرماں برداری ہی کے زمرے میں شمار ہوتا رہے۔
گناہ صغیر اور گناہ کبیرہ کی پہچان کے سلسلے میں ایک اور بڑی وقیع اور علمی رائے پائی جاتی ہے، جو اہل علم نے پیش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی گناہ کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا ایک اضافی چیز ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک گناہ صغیرہ ہو لیکن وہ کبیرہ گناہوں کے زمرے میں بھی آتا ہو۔ مثلاً ہر گناہ شدت و سنگینی کے لحاظ سے دوسرے گناہ سے مختلف ہو تا ہے۔ چناں چہ وہ اس گناہ کے اعتبار سے جو خطرناکی اور سنگینی میں اس سے بڑھ کر ہے، گناہ صغیرہ کہلائے گا، مگر دوسرے گناہ کے اعتبار سے جو اس سے کم خطرناک ہے اور یہ خود اس سے بڑا گناہ ہے، گناہ کبیرہ کہلائے گا۔ اس لیے گناہ کبیرہ کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے۔ تاہم انسان کے مختلف اعضاء مثلاً دل، زبان، پیٹ، ہاتھ، پائوں اور تمام بدن انسانی سے سرزد ہونے والے بعض گناہوں کو، ان کی سنگین نوعیت اور تباہ کاری کی وجہ سے گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے، جن کی تفصیل یہ ہے۔
اعضاء انسانی اور کبیرہ گناہ: انسانی جسم میں سب سے اشرف و قابل ذکر عضو دل ہے۔ اس کے جو افعال کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ شرک ۲۔ رحمت خداوندی سے مایوسی ۳۔ عتاب و سزا اور خدا کی گرفت سے بے خوفی
۱۔ شرک یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ بات سما جائے کہ کائنات کے بہت سے خدا ہیں اور اپنی جگہ مطلق العنان، خود مختار اور وصف الوہیت میں برابر کے شریک ہیں۔ عقیدے کی یہ کجی اور دل کی یہ حالت بڑی ہی خوف ناک اور انتہائی خطر ناک ہے۔
۲۔ دل میں پیدا ہونے والی ایک اور کیفیت مایوسی ہے۔ وہ یہ کہ انسان سمجھنے لگے کہ اس کے گناہ اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ ان کا معاف ہو نا ناممکن ہی نہیں، ان گناہوں کی پاداش میں اسے بہر حال ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا، گناہوں کی سنگینی اور کثرت نے اسے بخشش و رحمت کا مستحق نہیں رہنے دیا۔ اس سوچ کے ساتھ اس کے ذہن میں یہ خیال اُ بھرے کے مرنے کے بعد تو ڈوبنا ہے ہی، کیوں نہ دنیا میں دل کے ارماں پورے کرلوں اور جو حسرتیں ہیں، وہ نکال لوں، خواہ اس کے لیے دوسروں کے حقوق غصب کرنا پڑیں، ان کی عزتیں لوٹنا پڑیں، ان کے اموال و املاک پہ ڈاکہ ڈالنا پڑے۔ یہ سوچ کر وہ میدان میں آجائے اور مخلوق خدا کے لیے عذاب بن جائے۔
دل کی ایک اور کیفیت عقبیٰ سے بے خوفی ہے۔ مثلاً آخرت کا خوف دل سے نکل جائے اور یہ خیال ذہن نشین ہو جائے کہ اعمال کا کوئی محاسبہ و مواخذہ نہیں ہو گا ۔ انسان جو کچھ مرضی کرتا رہے، مرنے کے بعد کوئی باز پرس یا گرفت نہیں ہو گی۔ یہ سوچ کر وہ بھیڑیا بن جائے اور مخلوق خدا کو ستانے لگے۔
چوں کہ شرک، مایوسی اور بے خوفی ایسے گناہ ہیں جو انسان کو مقام انسانیت سے گرا دیتے ہیں، اس لیے ان کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔
٭ زبان کے یہ اعمال ''گناہ کبیرہ'' ہیں:
۱۔ جھوٹی گواہی دینا ۲۔ سچی گواہی چھپانا ۳۔ جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال غصب کرنا ۴۔ چغلی کھانا ۵۔ کسی بے گناہ پارسا پر تہمت لگانا ۶۔ جادو کرنا ۷۔ ضرورت کے وقت کسی کو نیکی کی ترغیب نہ دینا اور برائیوں سے نہ روکنا
٭ پیٹ کے ان افعال کو ''گناہ کبیرہ'' شمار کیا گیاہے:
۱۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال ۲۔ سود کھانا ۳۔ یتیم کا مال کھانا ۴۔ خنزیر کا گوشت کھانا
٭ ہاتھ کے جو اعمال ''گناہ کبیرہ'' ہیں، وہ یہ ہیں:
۱ ۔ قتل کرنا ۲۔ چوری کرنا ۳۔ رشوت لینا ۴۔ کم تولنا ۵۔ کسی کا مال، جائیداد یا کوئی شے غصب کرنا۔
٭ پائوں کا کبیرہ گناہ، میدان جہاد سے بھاگنا اور جان بچانے کے خیال سے دشمن کو پیٹھ دکھانا۔
انسانی بدن اور کبیرہ گناہ
۱۔ وقت سے پہلے یا وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھنا ۲۔ رمضان المبارک کا روزہ بے وجہ توڑ دینا
۳۔ اپنے رشتے داروں سے تعلقات توڑنا، جب کہ کوئی عذر شرعی نہ ہو ۴۔ علماء دین، اہل صدق و صفا اور اخلاص و تقویٰ کو پسند کرنے والے حضرات کی توہین کرنا اور ان کے دینی علم و کمال کا مذاق اُڑانا۔
یہ یاد رہے کہ اس باب کی احادیث میں تمام کبیرہ گناہوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ وقت، ماحول اور مسائل کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ان میں سے بعض کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمام گناہوں کا یکجا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ مختلف کُتب اور مقامات پر موجود احادیث میں انفرادی صورت میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، جہاں سے اہل علم نے کبیرہ گناہوں کی یہ فہرست مرتب کی ہے۔
کبیرہ گناہوں سے بچنے کا انعام
گناہ میں وقتی لذت، آسانی، عارضی اور ناپائیدار خوشی ہو تی ہے جو چند لمحوں بعد ختم ہو جاتی ہے، مگر اس کی نحوست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور گناہ گار کے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔ جتنا بڑا گناہ ہوتا ہے اس میں ظاہری کشش، خوشی اور لذت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوتی ہے مگر اس کا منطقی انجام انتہائی خطرناک اور ہوش ربا ہوتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو اس نوعیت کی تباہ کاری سے محفوظ رکھنے کے لیے اہل ملت کو انعام اور قانون کی شکل میں یہ حسین و پرکشش وعدہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ اچھی قدروں کو پروان چڑھانے اور نیکی کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرنے میں مدد دینے کے لیے کبیرہ گناہوں سے اجتناب برتیں گے، اور بڑی بڑی گھنائونی حرکتیں نہیں کریں گے، تو اِن کے چھوٹے چھوٹے گناہ انعام کے طور پر ویسے ہی معاف کر دیئے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
'' جن کبیرہ گناہوں سے تمہیں روکا جاتا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہوں کو مٹادیں گے اور عزت و کرامت والی جگہ میں تمہیں داخل کریں گے۔'' ( النساء: 31)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبیرہ گناہوں سے بچنا ہی انعام ربانی اور بہت بڑا اعزاز ہے، جو اسے نہ صرف صغیرہ گناہوں سے پاک کر دیتا ہے بلکہ اس کے لیے قرب و حضور کی راہیں بھی کھول دیتا ہے اور اس طرح ایک گناہ گار بندہ، باطنی آلائشوں اور روحانی بیماروں سے پاک ہو کر باطنی صحت اور پاکیزگی کے مزے لوٹنے لگ جاتا ہے۔
یہ حدیث پاک کا ابتدائی حصہ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ گناہ زندگی کے لیے بہت ہی مہلک اور زہرِ ہلاہل کی طرح ہوتے ہیں، جن سے بچنا اور زندگی کو ان کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب پتا ہو کہ گناہ کسے کہتے ہیں۔ اس کی کتنی قسمیں ہیں اور زندگی پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس لیے ہم پہلے گناہ کی تعریف اور اس کی اقسام تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
گناہ، ان اقوال و افعال اور اعمال و حرکات کو کہتے ہیں، جو خلاف شرع، ناپسندیدہ اور تہذیب و شائستگی سے گرے ہوئے ہوں۔ یہ اپنے بھیانک اور بُرے انجام کی وجہ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ ذی شان انسان ان کا بھی ارتکاب کرے۔ اسی لیے اسلامی شریعت نے انہیں حرام قرار دیا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے سے روکا ہے۔ اس قسم کے گناہوں کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ صغیرہ ۲۔ کبیرہ
۱۔ کبیرہ ان گناہوں کو کہتے ہیں جن کے لیے قانون الٰہی یعنی شریعت خداوندی اور دین مصطفویؐ میں '' حدِ شرعی'' یعنی باقاعدہ سزا مقرر ہے، اور بتا دیا گیا ہے کہ جو شخص ان گناہوں میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے گا تو اسے ضابطے کے مطابق مجرم قرار دے کر سزا دی جائے گی۔
۲۔ گناہ صغیرہ، ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو کبیرہ گناہوں کی طرح سنگین نہیں ہوتے اور ان کے لیے حد شرعی بھی مقرر نہیں، البتہ معصیت ہونے کے حوالے سے ان کی سخت مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان سے بچیں، کیوں کہ وہ بہر حال نافرمانی کے زمرے میں آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کسی طور بھی درست نہیں، خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ۔
گناہ کبیرہ و صغیرہ کے حوالے سے اہل فکر و نظر کے مختلف طبقات کی مختلف رائے ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ کہتا ہے کہ، گناہ شرعی نصوص و ہدایات کی خلاف ورزی اور حکم عدولی کا نام ہے، اور یہ حکم عدولی کسی معمولی حاکم کی نہیں بلکہ اُس ''احکم الحاکمین'' کی ہے جو ساری کائنات کا بادشاہ اور جہانوں کا رب ہے۔ اس لیے اس کی حکم عدولی اور نافرمانی خواہ کسی بھی درجے میں ہو وہ اس کی عظمت و جلالت کو دیکھتے ہوئے گناہ صغیرہ نہیں رہتی بلکہ گناہ کبیرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں: '' عظمت خداوندی کو دیکھتے ہوئے ہر معصیت کبیرہ گناہ ہے، صغیرہ نہیں۔''
ایک دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ، صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی حدود متعین نہیں ہیں بلکہ دو خارجی عوامل ایسے ہیں جو انہیں صغیرہ یا کبیرہ بناتے ہیں، اور وہ دو عوامل استغفار اور اصرار ہیں۔
( الف) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص چھوٹا سا گناہ بھی تکرار کے ساتھ کرتا ہے اور اسے کرتا ہی رہتا ہے تو اس تکرار و اصرار سے وہ گناہ صغیرہ اور چھوٹا نہیں رہتا بلکہ کبیرہ بن جاتا ہے۔
(ب) اس کے برعکس اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے مگر استغفار کا عمل بھی جاری رکھتا ہے اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ نہیں رہتا بلکہ صغیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف فرما دیتے ہیں۔
ایک گروہ گناہوں کے سلسلے میں گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے مقام و مرتبے اور ان کے علمی و سماجی حیثیت کو اہم اور فیصلہ کن قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی میں گناہوں کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا متعین کرتا ہے۔ چناں چہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا اگر بحیثیت، صاحب تقویٰ و سجادہ، مقبولِ عوام اور دانا و بینا عالم ہو تو اس سے سرزد ہونے والا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ جیسے عام شہری جرم کرے تو اسے اتنا قبیح نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر وہی جرم کوئی قانون کا محافظ اور پولیس والا کرے تو انتہائی سنگین تصور کیا جاتا ہے۔
صوفیائے کرام کا ایک گروہ کہتا ہے کہ کمزور دشمن کو کبھی بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ گناہ انسان کے جانی دشمن ہیں، اس لیے اگر وہ چھوٹے اور حقیر ہوں تو تب بھی انہیں حقیر تصور نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں حقیر اور چھوٹا تصور کرنا، تباہی و بربادی، ہلاکت اور خطرات و مصائب کو دعوت دینا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ آہستہ آہستہ ایک بڑے گناہ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نبوت کے پروانے اپنے محبوبؐ کے ہم راہ سفر کر رہے تھے کہ وقت آنے پر انہوں نے ایک بیاباں میں قیام کیا۔ حضور نبی اکرمؐؐ نے حکم دیا کہ اردگرد سے لکڑیاں جمع کر کے لائو۔ حاضرین نے عرض کی: یارسول اللہ! یہاں تو لکڑیوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: جو تنکا، شاخ، گھاس پھونس غرض جو چیز بھی ملتی ہے، لے آئو! صحابہ کرامؓ بکھر گئے۔ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں ایسی ہی چیزیں تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ان چیزوں کا ڈھیر لگ گیا۔ آپؐ نے فرمایا: نیکیوں اور برائیوں کا بھی یہی حال ہے، چھوٹی چھوٹی نیکیاں ملتی رہیں تو نیکیوں کا انبار لگ جاتا ہے اور اگر برائیاں جمع ہوتی رہیں تو ان کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس لیے نیکی اور برائی میں سے کسی کو بھی حقیر، صغیر اور چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے۔
حکماء اور اہلِ دانش کا کہنا ہے کہ گناہ کی کوئی واضح تعریف نہیں ہے۔ گناہ بس گناہ ہے۔ یہ محتاط انداز اور سہمی سہمی سی تعریف اس لیے ہے تاکہ انسان گناہ کو صغیرہ و کبیرہ کے پیمانے پر ماپنے کی بجائے، صرف گناہ سمجھے اور اس سے دامن بچائے تاکہ فرماں برداری ہی کے زمرے میں شمار ہوتا رہے۔
گناہ صغیر اور گناہ کبیرہ کی پہچان کے سلسلے میں ایک اور بڑی وقیع اور علمی رائے پائی جاتی ہے، جو اہل علم نے پیش کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی گناہ کا صغیرہ یا کبیرہ ہونا ایک اضافی چیز ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک گناہ صغیرہ ہو لیکن وہ کبیرہ گناہوں کے زمرے میں بھی آتا ہو۔ مثلاً ہر گناہ شدت و سنگینی کے لحاظ سے دوسرے گناہ سے مختلف ہو تا ہے۔ چناں چہ وہ اس گناہ کے اعتبار سے جو خطرناکی اور سنگینی میں اس سے بڑھ کر ہے، گناہ صغیرہ کہلائے گا، مگر دوسرے گناہ کے اعتبار سے جو اس سے کم خطرناک ہے اور یہ خود اس سے بڑا گناہ ہے، گناہ کبیرہ کہلائے گا۔ اس لیے گناہ کبیرہ کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے۔ تاہم انسان کے مختلف اعضاء مثلاً دل، زبان، پیٹ، ہاتھ، پائوں اور تمام بدن انسانی سے سرزد ہونے والے بعض گناہوں کو، ان کی سنگین نوعیت اور تباہ کاری کی وجہ سے گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے، جن کی تفصیل یہ ہے۔
اعضاء انسانی اور کبیرہ گناہ: انسانی جسم میں سب سے اشرف و قابل ذکر عضو دل ہے۔ اس کے جو افعال کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ شرک ۲۔ رحمت خداوندی سے مایوسی ۳۔ عتاب و سزا اور خدا کی گرفت سے بے خوفی
۱۔ شرک یہ ہے کہ انسان کے دل میں یہ بات سما جائے کہ کائنات کے بہت سے خدا ہیں اور اپنی جگہ مطلق العنان، خود مختار اور وصف الوہیت میں برابر کے شریک ہیں۔ عقیدے کی یہ کجی اور دل کی یہ حالت بڑی ہی خوف ناک اور انتہائی خطر ناک ہے۔
۲۔ دل میں پیدا ہونے والی ایک اور کیفیت مایوسی ہے۔ وہ یہ کہ انسان سمجھنے لگے کہ اس کے گناہ اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ ان کا معاف ہو نا ناممکن ہی نہیں، ان گناہوں کی پاداش میں اسے بہر حال ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا، گناہوں کی سنگینی اور کثرت نے اسے بخشش و رحمت کا مستحق نہیں رہنے دیا۔ اس سوچ کے ساتھ اس کے ذہن میں یہ خیال اُ بھرے کے مرنے کے بعد تو ڈوبنا ہے ہی، کیوں نہ دنیا میں دل کے ارماں پورے کرلوں اور جو حسرتیں ہیں، وہ نکال لوں، خواہ اس کے لیے دوسروں کے حقوق غصب کرنا پڑیں، ان کی عزتیں لوٹنا پڑیں، ان کے اموال و املاک پہ ڈاکہ ڈالنا پڑے۔ یہ سوچ کر وہ میدان میں آجائے اور مخلوق خدا کے لیے عذاب بن جائے۔
دل کی ایک اور کیفیت عقبیٰ سے بے خوفی ہے۔ مثلاً آخرت کا خوف دل سے نکل جائے اور یہ خیال ذہن نشین ہو جائے کہ اعمال کا کوئی محاسبہ و مواخذہ نہیں ہو گا ۔ انسان جو کچھ مرضی کرتا رہے، مرنے کے بعد کوئی باز پرس یا گرفت نہیں ہو گی۔ یہ سوچ کر وہ بھیڑیا بن جائے اور مخلوق خدا کو ستانے لگے۔
چوں کہ شرک، مایوسی اور بے خوفی ایسے گناہ ہیں جو انسان کو مقام انسانیت سے گرا دیتے ہیں، اس لیے ان کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔
٭ زبان کے یہ اعمال ''گناہ کبیرہ'' ہیں:
۱۔ جھوٹی گواہی دینا ۲۔ سچی گواہی چھپانا ۳۔ جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال غصب کرنا ۴۔ چغلی کھانا ۵۔ کسی بے گناہ پارسا پر تہمت لگانا ۶۔ جادو کرنا ۷۔ ضرورت کے وقت کسی کو نیکی کی ترغیب نہ دینا اور برائیوں سے نہ روکنا
٭ پیٹ کے ان افعال کو ''گناہ کبیرہ'' شمار کیا گیاہے:
۱۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال ۲۔ سود کھانا ۳۔ یتیم کا مال کھانا ۴۔ خنزیر کا گوشت کھانا
٭ ہاتھ کے جو اعمال ''گناہ کبیرہ'' ہیں، وہ یہ ہیں:
۱ ۔ قتل کرنا ۲۔ چوری کرنا ۳۔ رشوت لینا ۴۔ کم تولنا ۵۔ کسی کا مال، جائیداد یا کوئی شے غصب کرنا۔
٭ پائوں کا کبیرہ گناہ، میدان جہاد سے بھاگنا اور جان بچانے کے خیال سے دشمن کو پیٹھ دکھانا۔
انسانی بدن اور کبیرہ گناہ
۱۔ وقت سے پہلے یا وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھنا ۲۔ رمضان المبارک کا روزہ بے وجہ توڑ دینا
۳۔ اپنے رشتے داروں سے تعلقات توڑنا، جب کہ کوئی عذر شرعی نہ ہو ۴۔ علماء دین، اہل صدق و صفا اور اخلاص و تقویٰ کو پسند کرنے والے حضرات کی توہین کرنا اور ان کے دینی علم و کمال کا مذاق اُڑانا۔
یہ یاد رہے کہ اس باب کی احادیث میں تمام کبیرہ گناہوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ وقت، ماحول اور مسائل کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ان میں سے بعض کا ذکر کیا گیا ہے۔ تمام گناہوں کا یکجا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا۔ مختلف کُتب اور مقامات پر موجود احادیث میں انفرادی صورت میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، جہاں سے اہل علم نے کبیرہ گناہوں کی یہ فہرست مرتب کی ہے۔
کبیرہ گناہوں سے بچنے کا انعام
گناہ میں وقتی لذت، آسانی، عارضی اور ناپائیدار خوشی ہو تی ہے جو چند لمحوں بعد ختم ہو جاتی ہے، مگر اس کی نحوست ہمیشہ قائم رہتی ہے اور گناہ گار کے گلے کا طوق بن جاتی ہے۔ جتنا بڑا گناہ ہوتا ہے اس میں ظاہری کشش، خوشی اور لذت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہوتی ہے مگر اس کا منطقی انجام انتہائی خطرناک اور ہوش ربا ہوتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو اس نوعیت کی تباہ کاری سے محفوظ رکھنے کے لیے اہل ملت کو انعام اور قانون کی شکل میں یہ حسین و پرکشش وعدہ دیا گیا ہے کہ جو لوگ اچھی قدروں کو پروان چڑھانے اور نیکی کی بنیاد پر معاشرہ قائم کرنے میں مدد دینے کے لیے کبیرہ گناہوں سے اجتناب برتیں گے، اور بڑی بڑی گھنائونی حرکتیں نہیں کریں گے، تو اِن کے چھوٹے چھوٹے گناہ انعام کے طور پر ویسے ہی معاف کر دیئے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
'' جن کبیرہ گناہوں سے تمہیں روکا جاتا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہوں کو مٹادیں گے اور عزت و کرامت والی جگہ میں تمہیں داخل کریں گے۔'' ( النساء: 31)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبیرہ گناہوں سے بچنا ہی انعام ربانی اور بہت بڑا اعزاز ہے، جو اسے نہ صرف صغیرہ گناہوں سے پاک کر دیتا ہے بلکہ اس کے لیے قرب و حضور کی راہیں بھی کھول دیتا ہے اور اس طرح ایک گناہ گار بندہ، باطنی آلائشوں اور روحانی بیماروں سے پاک ہو کر باطنی صحت اور پاکیزگی کے مزے لوٹنے لگ جاتا ہے۔