اوباما کا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب

صدر اوباما نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ امریکا خود مختار افغانستان چاہتا ہے۔


February 15, 2013
صدر اوباما نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ امریکا خود مختار افغانستان چاہتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD: امریکی صدر بارک اوباما نے جمعرات کی رات اپنی دوسری صدارتی مدت کے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں افغان جنگ ختم کرنے اور آیندہ سال تک وہاں سے اپنی فوجوں کے انخلاکا عندیہ دیتے ہوئے ابتدائی طور 34 ہزار امریکی فوجیوں کی فوری واپسی کا اعلان کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی کمین گاہوں پر براہ راست حملے بدستور جاری رہیں گے اور ان دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائی جاری رکھیں گے جن سے امریکی عوام یا ان کی سر زمین کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔

بادی النظر میں صدر اوباما کا افغانستان سے انخلا اور عسکریت پسندوں پر حملے جاری رکھنے کا دو رُخا اعلان دراصل اس خجالت سے بچنے کی ایک کوشش ہے جو دنیا کی موجودہ وقت کی اکلوتی سپر پاور کو دنیا کے کمزور ترین اور پسماندہ ترین ملک کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی تمام تر حربی قوت کے استعمال کے باوجود زیر نہ کر سکنے کی بنا پر محسوس ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اب امریکا کو دنیا کے کسی بھی خطے میں فوجی کارروائی کے لیے اپنی فوجیں اتارنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب دنیا بھر میں کسی بھی جگہ بغیر پائلٹ کے اڑنے والے پریڈیٹر ڈرون طیاروں کے ذریعے بمباری کی جا سکتی ہے' میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ یوں افغانستان بھی امریکی ڈرونز کی مکمل زد میں ہے اور آیندہ بھی اس وقت تک رہے گا جب جدید ٹیکنالوجی سے نابلدافغان اپنا کوئی میزائل دفاعی نظام وضع نہیں کر لیتے۔

صدر اوباما نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ امریکا خود مختار افغانستان چاہتا ہے، افغان حکومت کے ساتھ معاہدے پر مذاکرات کر رہے ہیں، جس کا اہم نکتہ افغان فورسز کی تربیت ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ امریکا کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کے خلاف براہ راست کارروائی اور القاعدہ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اتحادیوں کی مدد کرتے رہیں گے۔ انھوں نے امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنیوالوں کو خراج تحسین پیش کیا اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ جوہری ہتھیاروں کے تجربے پر شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایران کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کا معاملہ سفارتی طریقے سے حل کرنے کا وقت ہے۔

ملکی معیشت کا تذکرہ کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ معیشت میں متوسط طبقے کا اہم کردار ہے، اسے روزگار کے مواقع فراہم کریں گے، اسٹاک مارکیٹ بحال ہو رہی ہے، عوام سے کیے وعدے پورے کیے ہیں، معاشی مشکلات کے باوجود 60 لاکھ افراد کو نوکریاں دیں۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات کے لیے یہ مناسب وقت ہے، اس کے ذریعے بجٹ خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اوباما نے مواصلات کے نظام، تعلیم اور صاف توانائی میں سرمایہ کاری کے لیے کہا اور وعدے کے مطابق10 لاکھ صنعتی ملازمتیں پیدا کرنے کا اعلان کیا۔

ادھر افغانستان نے امریکی اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان جنرل ظاہر عظمی نے کہا ہے کہ ہماری فوج واپس جانے والے غیر ملکی فوجیوں کی جگہ لینے کے لیے تیار ہے، وہ طالبان کے خطرے سے نمٹنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف طالبان نے امریکی افواج کے انخلا کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے اعلانات دوسروں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ واپس جانے والے غیر ملکی دستوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے، مکمل انخلا تک مسئلہ برقرار رہے گا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بارے میں خاصی کنفیوژن پائی جاتی ہے' امریکی انتظامیہ کے بعض اہلکار اس انخلا کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے امریکی فوجوں کی مکمل واپسی سے تشبیہہ نہ دی جائے' اسے زیادہ بہتر الفاظ میں تبادلہ کہا جا سکتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں موجود رہے گا' افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی ایسے ہی ہو گی جیسے عراق سے ہوئی ہے۔عراق آج بھی امریکا کے زیر اثر ہے۔ وہاں کوئی خود کش حملہ ہو یا کسی اور قسم کا واقعہ مرنے والے عراقی ہوتے ہیں تاہم افغانستان کا معاملہ ذرا مختلف اس لیے ہے کہ یہاں نیٹو افواج بھی موجود رہیں گی' امریکا کے فوجی دستے بھی موجود رہیں گے' فرق صرف اتنا پڑے گا کہ جو فوجیں واپس جائیں گی' ان کی کمی افغان فوجیوں سے پوری کی جائے گی' اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے افغانستان میں ایسی فورس تیار کر دی ہے جو مکمل طور پر اس کے تابع ہو گی' بالکل ایسے ہی جیسے ہندوستان میں برٹش راج کے دوران مقامی فوج موجود تھی لیکن وہ انگریزوں کے ماتحت تھی۔

یوں دیکھا جائے تو 2014 افغانستان کے لیے ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے' پاکستان کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکا نے افغانستان ، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے لیے طویل منصوبہ بندی کررکھی ہے۔پاکستان کو اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔طالبان امریکا سے مذاکرات کررہے ہیں، اگر یہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو افغانستان میں مستقبل کا حکومتی سیٹ اپ تبدیل ہوجائے گا،بھارت اور ترکی بھی اس علاقے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر اپنا کردار طے کرنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں