افضل گورو کی پھانسی اور اس کا ردعمل
کشمیر کے بیشتر شہروں میں پہلے ہی کرفیو نافذ ہے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ نوجوانوں کی جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں۔
لاہور:
میں پارلیمنٹ ہائوس میں تھا، جب افضل گورو اور چند دیگر افراد نے دسمبر2001ء میں اس پر حملہ کیا۔ میری طرح کے اراکین پارلیمنٹ اس حملے پر بے حد طیش میں تھے اور سب سے پہلا شک پاکستان پر کیا گیا' تین حملہ آور فرار ہو گئے تھے، گورو کا تعلق کشمیر سے تھا۔ گویا یہ اسی دیرینہ مسئلہ کشمیر کا شاخسانہ تھا۔
مسئلہ کشمیر کو کس طرح حل کیا جائے؟ یہ مسئلہ پاکستان کے ساتھ اتنے طویل عرصے سے ابھی تک آخر کیوں لٹکتا چلا آ رہا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جوابدہ حکمرانوں کو ہونا چاہیے، سرینگر اور نئی دہلی دونوں کے حکمرانوں کو جواب دینا چاہیے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اپنے کندھے اچکا کر کہتے ہیں کہ ''یہ بہت بڑا مسئلہ ہے'' گویا ان کا ایسا کہہ دینے سے اس مسئلے کی سنگینی کم ہو جائے گی۔ مزید فرماتے ہیں کہ انھوں نے گورو کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والے امن و امان اور سیکیورٹی کے مسئلہ پر کم مدتی حکمت عملی سے قابو پا لیا ہے۔
لیکن کیا عمر عبداللہ نے واقعی ایسا کر لیا ہے؟ کشمیر کے بیشتر شہروں میں پہلے ہی کرفیو نافذ ہے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ نوجوانوں کی جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخبارات کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ حالات کے گڑ بڑ ہونے پر کوئی خبر نہ چھاپی جائے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے لیے تلقین تھی کہ ہنگاموں کا مکمل بلیک آئوٹ کیا جائے۔ یہ تمام باتیں اصل صورتحال پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ کشمیری نوجوان جن حالات میں گرفتار ہے وہ اس کے پیدا کردہ نہیں ہیں۔ اس کی نفسیاتی کیفیت سب پر عیاں ہے۔ وہ بے چین ہے کیونکہ آنے والے کل میں اسے اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ 66 سال سے غیر یقینی کی صورتحال ہے۔
جس دوران پاکستان اور بھارت میں تین جنگیں ہو چکی ہیں حالانکہ اتنے طویل عرصہ میں مسئلہ کشمیر کا کوئی مستقل حل خواہ نہ بھی نکلتا یہ وقت اختلافات کو کم کرنے کے لیے یقیناً استعمال ہو سکتا تھا۔ جب کشمیریوں کو پورے ملک میں ایک مسئلہ سمجھا جائے تو وہ آخر کیا کریں؟ ان کو ایسے شہری سمجھا جاتا ہے جنہوں نے اپنی ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بھارت کی طرف سے مسلسل یہ رٹ لگانے سے کہ ریاست جموں کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، ریاست فی الواقعی اٹوٹ انگ نہیں بن جاتی۔
درست کہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے نمایندے ہی ریاست پر حکمرانی کر رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی نگاہیں ہر دم نئی دہلی پر لگی رہتی ہیں کہ مرکزی حکومت انھیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔ شیخ عبداللہ، جنہوں نے 12 سال بھارت کی حراست میں گزارے، وہ ایک ایسا سمجھوتہ قبول کرنے پر مجبور تھے جس سے ان کی ریاست کو کسی قسم کی خود مختاری حاصل ہو سکے۔ لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا۔ میں یہ بات تو مان سکتا ہوں کہ مرکزی حکومت اس بارے میں کچھ کرنا چاہتی ہے مگر مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ جو مرکزی حکومت چاہتی ہے اپوزیشن بھی رضا مندی سے اس کی اجازت دیدے گی۔
پاکستان اس صورتحال کو آسان بنا سکتا تھا، لیکن آخر اسے دہلی کے ساتھ کوئی نیکی کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ دشمن بھی ایک میز کے گرد بیٹھ کر گفتگو کر سکتے ہیں لیکن جب تک شکوک و شبہات اور عدم اعتماد ترک نہیں کیا جاتا جامع مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ لیکن جامع طریق کار سے یقیناً کسی مفاہمت پر پہنچا جا سکتا ہے۔ پورے ایک سال تک اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے فوجیں سرحد پر لگائے رکھیں لیکن پھر بزدلی سے انخلا کرنا پڑا۔
اس کے باوجود یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ افضل گورو کو بے شک سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیدیا تھا اور ملک کے آئینی سربراہ صدر پرناب مکھرجی نے اس کی سزائے موت میں تخفیف کرنے سے انکار کر دیا تھا مگر اسے پھانسی پر لٹکانے سے قبل ضابطے کی کارروائیاں کیوں مکمل نہ کی گئیں اور نہ ہی اس کے اہل خانہ کو اس کے ساتھ آخری ملاقات کرنے کی اجازت دی گئی حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق جیسے ڈکٹیٹر نے ذوالفقار علی بھٹو کی فیملی کو ان کی پھانسی سے ایک دن قبل ملاقات کی اجازت دیدی تھی۔ آخر گورو کی فیملی کو کیوں نہیں ملنے دیا گیا۔ اگر بھارتی حکومت کسی قسم کا کوئی شبہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی تو گورو کی فیملی کو کسی ''اہم مقصد'' کے بہانے دہلی طلب کیا جا سکتا تھا۔ جیل مینوئل میں باقاعدہ درج ہے کہ قیدی کی پھانسی سے قبل اس کی فیملی سے ملاقات کرائی جائے۔ لیکن اب سری نگر میں ایک اور شہادت گاہ کے قیام کو نہیں روکا جا سکے گا۔ اسے پھانسی دے کر دہلی کی تہاڑ جیل میں ہی دفن کر دیا گیا ہے۔ اس کی فیملی کو اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہی دیدی جاتی۔
جب سپریم کورٹ اپنے فیصلے کی بنیاد محض واقعاتی شہادتوں پر رکھتا ہے تب سزائے موت کی تخفیف کر کے اسے عمر قید میں بدلنا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسا کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں تو ویسے ہی سزائے موت کے خلاف ہوں لیکن زندگی کی آخری سانس تک قید سے بھی تو انصاف کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔
اگر گورو کی پھانسی سے کشمیر کے بارے میں کوئی سنجیدہ بحث شروع ہوتی ہے تو اس سے اس سارے ہنگامے کی کوئی مثبت صورت پیدا ہو سکتی ہے لیکن اگر حکومت کی نظر میں یہ بات ہوتی تو وہ حریت کانفرنس کے لیڈروں کو گرفتار نہ کرتی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ اس سارے معاملے کو محض امن و امان کے عارضی مسئلے کی طرح ہی سمجھا جا رہا ہے حالانکہ عمر عبداللہ خود بھی ان لوگوں سے بات چیت شروع کر سکتے تھے جس میں بعدازاں نئی دہلی کو بھی شامل کر لیا جاتا۔
خواہ ایک ڈائیلاگ شروع ہوتا یا نہ ہوتا لیکن پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کا تلخ تجربہ جب کہ میں خود بھی اندر موجود تھا، عمر بھر میرے ساتھ رہے گا۔ مجھے یاد ہے کہ مرکزی ہال میں موجود لوگوں کا پارہ کس قدر چڑھ گیا تھا۔ پہلی گولی کی آواز سنائی دینے کے ٹھیک دو گھنٹے بعد اس وقت کے وزیر پارلیمانی امور پرمود مہاجن ایک میز پر چڑھ کر کھڑے ہو گئے اور اعلان کیا کہ اراکین پارلیمنٹ اب عمارت سے نکل سکتے ہیں، لیکن پہلے عورتیں۔ اراکین اسمبلی میں سراسیمگی تو پہلے بھی نہیں تھی لیکن قصہ ختم ہونے کا سن کر وہ کچھ زیادہ ہی مطمئن ہو گئے۔
وزیر اطلاعات و نشریات سشما سوراج نے عورتوں کے قافلے کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے یہ کہتے سنا ''مجھے پتہ تو چلا لینے دو کہ حقیقت میں ہوا کیا تھا''۔ اس وقت تک آرمی پہنچ چکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بعض اراکین مہاجن کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل تھے جو اس کے استعفے کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔ یہ ایک عجیب قسم کی وابستگی تھی، ایک ایسی یکجہتی کا اظہار جو کسی ملک کو بیرونی حملے کے خطرے کے موقع پر درپیش ہوتی ہے۔
جمہوریت ایک تصور کا نام ہے اور ایک قوم کے پختہ عزم کا نام جسے انتہا پسند عناصر کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس یقین کی واحد طاقت یہ اعتقاد ہے کہ آزادی اور جمہوریت کے لیے جو قیمت بھی ادا کرنی پڑے وہ کم ہے۔ میں اگلے ہی دن حسب معمول پارلیمنٹ میں پہنچ گیا، جیسا کہ دوسروں نے بھی کیا تا کہ ہم اس ادارے پر اپنے اعتماد کا اعادہ کر سکیں اور حملہ آوروں کو خبردار کر سکیں کہ وہ اپنے ہاتھ پرے رکھیں۔
اس کے باوجود ہر رکن اسمبلی پاکستان کے خلاف ناراضی کا اظہار کر رہا تھا۔ مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے کہ آیا پاکستان اس مسئلے کا حل ہے یا خود ایک مسئلہ ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)