قادری صاحب آپ استعمال ہو گئے

جو لوگ سمجھتے تھے کہ طاہر القادری کی رٹ سماعت کے لیے منظور ہو جاتی تو الیکشن ملتوی ہو سکتے تھے، ایسا ہر گز نہیں تھا

latifch910@yahoo.com

طاہر القادری کے ساتھ سپریم کورٹ میں جو کچھ ہوا، ٹی وی اسکرین پر اسے دیکھ کر مجھے گاؤں کی غریب عورت کے معصوم بچے کی خواہش یاد آ گئی۔ بچے نے ماں سے پوچھا تھا کہ ماں اگر گاؤں کا چوہدری مر جائے تو اس کی جگہ کون لے گا؟ ماں نے جواب دیا، اس کا بیٹا۔ بچے نے دوسرا سوال داغا، اگر وہ بھی مر گیا تو ۔۔۔۔ ماں سمجھدار اور طبقاتی شعور سے آشنا تھی، اس نے کہا، بیٹا سارا گاؤں بھی مر جائے، تب بھی ہم چوہدری نہیں بن سکتے۔ سپریم کورٹ میں طاہر القادری کی جو درگت بنی، اس سے انھیں اپنی اوقات کا بخوبی علم ہو گیا ہو گا۔

اگر ان کا تعلق مقتدر طبقے سے ہوتا تو ان کی درخواست بے شک خارج ہو جاتی لیکن غریب کے بال والا سلوک نہ ہوتا۔ تین بچے کماد کے کھیت سے گنے توڑ رہے تھے۔ اچانک مالک نے انھیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ ایک بچہ نمبردار کا تھا، دوسرا پٹواری کا اور تیسرا مولوی کا۔ مالک نے پہلے دو کو تو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ چلو ان کا تو حق بنتا ہے مگر تیسرے کو کہا کہ تو پیش امام کا بیٹا، تیری جرات کیسے ہوئی کہ تو چوری کرے اور پھر اس کی دھنائی شروع کر دی۔ طاہر القادری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ سمجھدار ہوتے تو طاقتوروں کی شہہ پر کماد کے کھیت میں نہ جاتے۔ اب تو ان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہور چوپو۔

کوئی ماہتڑ (غریب مسکین) جب کسی بھی ذریعے سے شہرت اور دولت حاصل کر لیتا ہے تو وہ اپنے آپ کو رولنگ کلاس کا رکن منوانا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محترم طاہر القادری کے تحت الشعور میں کہیں کوئی حاکم بیٹھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی اقتدار کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلتے۔ انھیں شیخ الاسلام کا جو مقام حاصل ہو گیا تھا، اسی پر قناعت کرتے لیکن شاید وہ رولنگ کلاس کلب کا رکن بننا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری کے پشت پناہوں سے بھی ایک غلطی ہوئی۔ طاہر القادری نے ان کا ایک کام تو کر دیا تھا، وہ تھا عوام کو یہ بتانا کہ رولا نگران سیٹ اپ اور الیکشن کمیشن میں تعیناتیوں کا ہے۔ وفاقی حکومت سے معاہدہ بھی ہو گیا تھا، اگر الیکشن کمیشن کو تحلیل کرنے کی رِٹ طاہر القادری کے بجائے کسی بظاہر غیر جانبدار قانونی یا سیاسی شخصیت سے کرائی جاتی اور کسی شریف الدین پیر زادہ کو عدالت عظمیٰ میں پیش کیا جاتا تو شاید ریلیف ملنے کی امید ہوتی۔ اس پہلو پر کوچ اور کھلاڑی دونوں نے غور نہیں کیا۔

جو لوگ سمجھتے تھے کہ طاہر القادری کی رٹ سماعت کے لیے منظور ہو جاتی تو الیکشن ملتوی ہو سکتے تھے، ایسا ہر گز نہیں تھا، اگلے سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنانے کی خواہش مند قوتوں کا مقصد الیکشن کمیشن کے موجودہ ارکان خصوصاً پنجاب کے رکن کو تبدیل کرانا تھا، ایسی تبدیلی کے لیے لمبے عرصے کی ضرورت نہیں تھی لیکن مسلم لیگ ن کو پتہ تھا کہ اگر ایسا ہوا تو پھر اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا، اسی لیے چوہدری نثار علی خان نے سخت لہجے میں کہا تھا کہ اب نگران سیٹ اپ پر حکومت سے مشاورت کا نتیجہ نہیں نکلے گا اور فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس جائے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کو ریلیف ملے گا۔ جن قوتوں نے طاہر القادری کو لاہور سے اسلام آباد پہنچایا اور پھر وفاقی حکومت سے معاہدہ کرایا، انھیں شکست ہو گئی ہے۔ آیندہ الیکشن کا منظر نامہ بہت حد تک واضح ہو گیا ہے' جو لوگ کسی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی آس لگائے بیٹھے تھے، ان کا معاملہ تمام ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ ق اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور میں داخل ہو گئی ہے' پیپلز پارٹی بھی شاید اسے سہارا نہ دے سکے' گجرات میں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونا مشکل ہو گیا ہے۔


پیپلز پارٹی کے لیے بھی خاصی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں' پنجاب کو تقسیم کرنے کے انتخابی نعرے نے پیپلز پارٹی کو وسطی اور شمالی پنجاب میں بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو توقع کے مطابق کامیابی نہ ملی تو مستقبل میں اسے پنجاب میں اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سوچنا چاہیے تھا کہ 2008ء کے الیکشن میں جنوبی پنجاب سے اس نے اکثریتی نشتیں جیتی تھیں حالانکہ سرائیکی صوبے کا نعرہ بھی نہیں تھا، اب بھی وہ جنوبی پنجاب کا نعرہ نہ لگاتی تو اسے اپنی نشتیں جیتنے میں مشکل پیش نہ آتی، اس کا فائدہ یہ ہونا تھا کہ وہ شمالی اور وسطی پنجاب میں بھرپور طریقے سے ن لیگ کا مقابلہ کر سکتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ طاہر القادری فیکٹر کے غائب ہونے کے بعد سیاسی منظر نامہ مسلم لیگ ن کے حق میں ہو گیا ہے۔ اب پنجاب میں نگران سیٹ اپ وہی ہو گا جو مسلم لیگ ن چاہے گی اور الیکشن کے نتائج پر بھی کسی کو شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے۔

طاہر القادری کے لیے اب بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ خاموشی سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں' انھیں اب سمجھ آ گئی ہو گی کہ رولنگ کلاس موقع پرستی اور دغا بازی کا دوسرا نام ہے' انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ جو مطالبات کر رہے ہیں' اس کا عوام کی حالت بدلنے سے کوئی تعلق نہیں تھا' اگر بالفرض ان کا مطالبہ مان کر الیکشن کمیشن میں تبدیلیاں کر لی جاتیں اور نگران سیٹ اپ میں بھی من پسند چہرے آ جاتے تو کیا ایسا ہونے سے طاہر القادری کی عوامی تحریک کامیابی حاصل کر سکتی تھی؟ ایسا ہر گز نہیں ہونا تھا' ان تبدیلیوں کا فائدہ ق لیگ' ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی نے اٹھانا تھا اور نقصان مسلم لیگ ن کا ہونا تھا۔ جیت اور ہار دونوں میں قادری صاحب کا کوئی حصہ نہیں تھا' ایسا جوا کھیلنے کا کیا فائدہ جس میں جیت بھی کسی اور کی ہار بھی بیگانی ۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ اپنے سے طاقتوروں کے ساتھ دوستی اور دشمنی دونوں خطر ناک ہوتی ہیں۔

بھارت میں انا ہزارے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے' اسے بی جے پی نے کانگریس کے خلاف استعمال کیا' اب کون انا ہزارے اور کونسی بی جے پی۔ مقتدر اشرافیہ کا کیا ہے' انھیں تو پارٹی تبدیلی کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی' اپنی سیاسی شخصیات کا ایک ایک کر کے جائزہ لے لیں' پتہ چل جائے گا کہ جو آج پیپلز پارٹی کا لیڈر ہے' وہ کل مسلم لیگ کا لیڈر ہوا کرتا تھا۔ جو ن لیگ میں ہیں' وہ کبھی ضیاء الحق کی لیگ کے ممتاز رہنما تھے اور جو تحریک انصاف میں ہیں' وہ بھی کسی کے رہنما ہوا کرتے تھے' ان کا کیا ہے' یہ تو کہیں بھی چلے جائیں' حکمران ہی رہیں گے۔ طاہر القادری جیسے نچلے طبقے کے لوگ اوپر آ بھی جائیں تو ان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی' پنجاب کے کلچر میں مولوی کا درجہ صرف مسجد کے پیش امام تک سمجھا جاتا ہے۔

چوہدری اس کی امامت میں نماز پڑھتا ہے' اسے عزت سے بلاتا ہے' نذر نیاز بھی کرتا ہے لیکن کبھی اپنے برابر کھڑا نہیں کرتا' اسے کبھی سر پنچ نہیں بناتا، بھلا اسے ملک کا بادشاہ گر کیسے تسلیم کر لے گا۔ طاہر القادری پنجاب کے رہنے والے ہیں' افسوس پنجاب کے کلچر اور سیاست کو نہ سمجھ سکے۔ مجھے طاہر القادری سے دلی ہمدردی ہے کیونکہ میں بھی عامی ہوں اور کسی عامی کے ساتھ طاقتوروں کا کھلواڑ مجھے دکھی کر دیتا ہے لیکن کیا کریں' ہم عامی چور دروازے سے مقتدر کلاس میں جانا چاہتے ہیں۔ باقی رہ گئے وہ ہاتھ جو قادری صاحب کی ڈور ہلا رہے تھے، ان کے لیے عرض ہے کہ اگر ان میں اپنے پیادے کی جان بچانے کی ہمت نہیں ہے تو ہار تسلیم کر لیں کیونکہ قادری کے انجام کے بعد کوئی آپ پر اعتبار نہیں کرے گا۔
Load Next Story