مافیا کے کسان دشمن اقدامات

زراعت پاکستان کی معیشت کے لیے آب حیات اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے

zb0322-2284142@gmail.com

لاہور:
گزشتہ دنوں کراچی سے تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا جانا ہوا۔ ہر جگہ ٹھیکیداری نظام اور لوٹ مار عروج پر نظر آئی ۔ ریل گاڑی روانہ ہوئی تو چائے پہنچانے والے کو 20 روپے کی چائے میں 2 روپے کمیشن ملتا ہے جب کہ ٹھیکیدار کو 80 فیصد ایسا ہی کھانے میں بھی اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے سامان فروخت کرنے والوں کو بھی۔ ہر جگہ غریبوں کو ہی لوٹا جاتا ہے۔

دوسرے دن جب بھلوال پہنچا تو پنجاب کسان بچاؤ کے صدر راجہ محمد یوسف سے بھلوال میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ شوگر ملز نے کسانوں کو اب تک 15 کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''یہ مسئلہ جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور غربی پنجاب کے کاشتکاروں کے علاوہ دیگر علاقوں کا بھی ہے'' درحقیقت شوگر ملز مافیہ نے گنے کے اصل وزن سے 30 فیصد کٹوتی کرکے کسانوں کے سر پر بم گرایا ہے۔ گندم کی خریداری کا مسئلہ ہو یا گنے کی، دھان کی خریداری ہو یا کپاس کی ہر فصل کے موقعے پر حکومتی اہلکار کاشتکاروں کو لوٹنے پر مامور نظر آئیں گے۔ آج کل گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ شوگر ملوں نے جو ظلم روا رکھا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے حضرات شوگر ملوں کے مالک ہیں۔

حکومت ان سے اپنا تعلق خراب نہیں کرنا چاہتی۔ گنے کے موجودہ کرشنگ سیزن 2012-13 کے آغاز پر شوگر ملز مافیا غریب کسانوں کو انتہائی نامساعد حالات اور بارشوں کے نہ ہونے اور پانی کی شدید کمی کے باوجود پاکستان کو چینی اور دیگر اشیائے خوردنی کی بہتر پیداوار کرنے پر بھی غریب کسانوں کی معیشت کو تباہ کرنے، ان کے چولہے بجھانے، ان کی سال بھر کی محنت پر شب خون مارنے اور ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر ان کو بھکاریوں کی صف میں شامل کرنے کے لیے صف آرا ہے ۔ شوگر ملز مافیا کی جانب سے گنے کے وزن سے 30 فیصد جبری کٹوتی کرکے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ مارا گیا ہے۔ اس کسان دشمن فیصلے میں ایک مل کیکین ایڈوائزر نے کلیدی کردار ادا کیا ، دوران سال 2008-09 گنے میں زیادہ سے زیادہ کٹوتی کرکے ملز انتظامیہ سے بطور انعام 20 لاکھ مالیت کی کار وصول کی۔

زراعت پاکستان کی معیشت کے لیے آب حیات اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ڈیزل، بیج، ادویات، بجلی، کھاد اور دیگر اخراجات میں 300 فیصد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے۔ مگر گنے کی قیمتوں میں محض 20 روپے فی من کا اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر 2010 کے دوران 850 روپے میں دستیاب ہونے والی کھاد کی بوری آج کسانوں کو 2000 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں گنے کی موجودہ قیمت 170 روپے فی من انتہائی کم اور ناکافی ہے۔ کسان اپنے پیداواری اخراجات پورے نہیں کرپاتے اس کے باوجود کسانوں نے چینی اور دیگر اشیائے خوردنی کی پیداوار میں اضافہ کرکے پیداوار کو بڑھاوا دیا ہے۔


شوگر ملز مافیا متواتر کسان دشمن اور عوام دشمن اقدامات میں مصروف ہے اور گنے کے وزن سے 30 فیصد جبری کٹوتی پر متفقہ فیصلہ کرکے کسانوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے ہی فراہم کردہ ورائٹی کے بیج گنا کو نان ورائٹی قرار دے کر زبردستی کٹوتی کی جارہی ہے اور کسانوں کو مسلسل توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شوگر ملز مافیا کے کسان دشمن اقدامات کے نتیجے میں گنے کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ شوگر ملز مافیا اپنا خونخوار اور خوفناک جبڑا کھولے کسانوں کی معیشت کو نگلنے اور ان کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر ان کو مفلوج کرنے پر تلا ہوا ہے۔ شوگر ملز مافیا کے شبستانوں نگار خانوں اور عشرت گاہوں کے علاوہ کارخانوں کی تعداد میں بھی مسلسل اور متواتر اضافہ ہورہا ہے، جن سے کسانوں کے خون کی بو آرہی ہے۔

جب کہ ملک بھر کو چینی، آٹا، چاول، گوشت اور دیگر تمام اشیائے خوردنی کی فراہمی کا ذمے دار مفلوک الحال کسان اب بھی مٹی کے کچے گھروندوں میں مویشیوں اور گوبر کی بدبو کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔ وہ اپنی شدید غربت کے سبب بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتا اور اب حکومت معیشت کو تباہ کرنے کے درپے لگی ہوئی ہے۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ کسانوں سے گنا سرکاری ریٹ پر خریدا جائے، اس میں سے کسی بھی قسم کی کٹوتی کو ختم کیا جائے، گنے کے وزن کی صحت کی مکمل تسلی اور فول پروف بندوبست کرنا ہوگی، گنے کے وزن میں گڑبڑ کرنے والے ملز اہلکاروں کو نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے، کسانوں کو گنا فیکٹری گیٹ یا ڈپو پر لانے سے قبل اپنی مرضی کے کنڈے سے وزن کرانے کی اجازت دینی چاہیے۔

گنے کی قیمت کی فوری ادائیگی کا بندوبست کیا جائے، کسانوں کو سی پی آر کی بجائے کراسڈ چیک دیا جائے تاکہ پندرہ روز کی مقررہ مدت کے اندر کسانوں کو گنے کی قیمت کی ادائیگی ممکن ہوسکے، شوگر ملز مافیا کی چیرہ دستیاں اور وزن سے غیر قانونی کٹوتیاں جاری رہیں تو مستقبل قریب میں گنے کی فصل ناپید ہوجائے گی۔ مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ہر سطح پر استحصال تو ہوتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو اس استحصال کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے ہیں، بھلوال کے بااثر شخص کے حکم پر اس کے غنڈوں نے ناظم راجہ بشیر کے گن مین کی 14 سالہ بیٹی کو اغوا کیا۔ جب یہ خبر سماجی کارکن راجہ ایم یوسف کو پہنچی تو وہ فوراً اس بااثر شخص کے گھر پہنچ گئے اور اپنی ایمانداری، جرأت اور بہادری سے اس لڑکی کو بازیاب کرکے اس کے والد کے حوالے کیا۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ اسی بھلوال میں چوہدری نے ایک غریب کسان کی پکی ہوئی گندم ہتھیانے کی ٹھانی مگر راجہ یوسف نے جرأت مندی سے اپنے سامنے کھڑے ہوکر جس کی زمین کی گندم تھی اسے اسی کے ذریعے کٹوایا۔ اگر یہ کام سب نے شروع کردیا تو جبر و ظلم کے خلاف لڑنے کی لوگوں میں ہمت بڑھے گی۔ اسی بھلوال کی ایک مسجد کے امام خلیل احمد کی اہلیہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ خلیل نے بیوی کے زیورات، اپنی موٹرسائیکل اور دو بھینسیں فروخت کرکے بیوی کا علاج کروایا۔ مگر اب اس کی معاشی حالت جواب دے چکی ہے۔ میری اعلی حکام سے گزارش ہے کہ اس کی مدد کریں۔ یہاں کے کچھ کسانوں نے بتایا کہ مخصوص ٹھیکیدار ان سے 660 روپے من کینو خرید کر اپنی من مانی قیمتوں میں اندرون ملک اور بیرون ملک ترسیل کرتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل ایک غیرطبقاتی نظام ہے۔

جس پر سرگودھا کے رانا طارق نے خوب کہا کہ ''ہوتو سب کے پاس، نہ ہو تو کسی کے پاس نہیں''۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ چند لوگ دوسروں کی محنت پر پلیں اور باقی بھوکے مریں؟ اس کے لیے تمام پارٹیوں، ریاست اور روایتی اداروں کو ختم کرکے ساری ملکیت سارے لوگوں کے حوالے کرنا ہوگی۔ انھوں نے ایک اچھی مثال دی کہ کوّے اپنا رہنما طوطے کو کیوں بنائیں گے؟ انھوں نے مزید کہا کہ کوئی اگر میری گاڑی پر پتھر مارتا ہے تو یہ اس کا حق ہے، اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے پاس گاڑی ہے، میرے پاس کیوں نہیں؟ درحقیقت مسائل کسانوں کے ہوں یا شہریوں کے، مسائل کا واحد حل امداد باہمی کا نظام ہے۔ جہاں ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ نہ امیر ہوگا اور نہ غریب۔ ہر جانب محبت اور پیار کے پھول کھلیں گے۔
Load Next Story