کراچی جل رہا ہے‘ بچائے گا کون…
خراب امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہورہی ہے
GUJRANWALA:
کیا کراچی کے مقدر میں اب ہر روز ہڑتال اور دھرنے ہی رہ گئے ہیں، ویسے ہی پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچی ہوئی ہے، روزکی ہڑتالوں اور دھرنوں نے پاکستان کی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آیندہ دو ماہ کے لیے اگرچہ 9.5 فیصد کی شرح سود کو برقرار رکھا ہے، مگر ملکی معیشت کے مختلف اشاریوں سے صورت حال کسی طرح بھی ایسی نظر نہیں آتی جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے، گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور نے دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس میں جو تفصیلات بتائیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس چوری کے تسلسل، ٹیکسوں کی بنیاد میں توسیع نہ ہونے، سرکاری اداروں کے گھاٹے میں چلنے اور توانائی کے شعبے کے لیے دی گئی سبسڈی کے باعث مالی خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کے ختم ہونے کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔ بجلی اور امن وامان کی خراب صورت حال ہے ۔
مالی سال 2012-13 کے بقیہ پانچ ماہ کے دوران مزید 6 ارب ڈالر اور بعدازاں2013-14 میں 3,2ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جس کے باعث معاشی صورت حال دباؤ کا شکار رہے گی، 2 ماہ میں مہنگائی بڑھ گئی ہے جو جنوری 2013 میں 8.1 فیصد ہوگئی، مالی سال 2013 کی پہلی ششماہی کے دوران معاشی حالات مزید خراب ہوئے، حکومت اپنے خسارے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے بے تحاشہ قرضے لے چکی ہے جن کی مالیت پچھلے چار برسوں کے دوران ماضی کی تمام حکومتوں کے قرضوں سے بھی زیادہ ہے اور جون 2012 کے اختتام پر پاکستان کا ہر شہری 72 ہزار روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔
اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے، خراب امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہورہی ہے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ ہمارے حکمرانوں نے پوری کردی، اس صورت حال میں پاکستان ترقی نہیں تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ جمہوریت کے ہوتے ہوئے ملک ترقی نہیں بلکہ تباہی سے ہمکنار ہورہا ہے، آخر کیوں حکمران اتنے اطمینان سے بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں، کراچی جسے منی پاکستان کہا جاتا ہے وہاں اب ہر روز آٹھ دس لاشیں اٹھائی جارہی ہیں ۔
اہل اقتدار یہ تو جانتے ہیں کہ کراچی شہر میں فروری میں بہت بڑی دہشت گردی کا خطرہ ہے اور انھوں نے یہاں تک بتایا کہ اگر کراچی چھن گیا تو حکومت اور خفیہ ادارے اس کے ذمے دار ہوں گے، اہل اقتدار کو دہشت گردی کی تو بہت تیزی سے خبر مل جاتی ہے، مگر پھر بھی وہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکام کیوں رہے؟ اہل اقتدار کے اس موقف پر جہاں عام سیاسی کارکن اور عام شہری تڑپ اٹھا ہے وہاں ملک کے اہم سیاستدان اور خود میڈیا نے اس غیرملکی سازش کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کراچی میں بدامنی کا مطلب پاکستان کی معیشت کی تباہی ہے اور اہل اقتدار کے اس بیان سے عوام میں تشویش پھیل گئی اور اس بیان سے معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے، کراچی کا ہر شخص خوفزدہ نظر آرہا ہے، مجھے تو حیرت اس بات کی ہے کہ وزیر صاحب کو ساری دہشت گردیوں کی اطلاع ہوتی ہے، مگر افسوس صد افسوس پھر بھی وہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکام کیوں رہے؟
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا اور مذہبی رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا گیا، کراچی میں بنوری ٹاؤن مدرسے سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کی شاہراہ فیصل پر ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ رونما ہوا اور اس واقعے میں 3 علماء کرام شہید ہوئے، اے اہل اقتدار! آپ تو جانتے تھے پھر یہ دہشت گردی کے واقعات کیوں اور کیسے رونما ہوئے؟ آپ حکمران کیسے اطمینان سے بیٹھ گئے، کیوں نہیں عام شہری کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے؟ کیوں عام شہریوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا؟ آخر کیا بات ہے کہ ہماری رینجرز، پولیس اور حکمران اتنے بے بس ہیں کہ کراچی میں کھلے عام دہشت گردی ہو رہی ہے، لوگ شہید ہو رہے ہیں، مگر دہشت گردوں کو کوئی پکڑنے والا نہیں۔کوئی لیاری میں بابا لاڈلا،راشد ریکھا،جینگو، شیراز کمانڈو، شکیل کمانڈو ، سجاد ،امین بلوچ اور عزیر بلوچ اور ان کے قاتلوں کو نہیں پکڑتا جب کہ یہ دندناتے پھرتے ہیں ۔پورے شہر میں بھتے لیتے ہیں شہر کا کوئی دہشت گرد پولیس کی گولی کا نشانہ نہیں بنتا،بنتا ہے تو صرف غریب و بیگناہ۔
سپریم کورٹ نے کراچی کے امن و امان کے حوالے سے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے قیام پر وفاقی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ بے حسی کا عالم ہے انسانی جانوں سے مذاق بند کردیں، سرکاری حکام عدالت میں سچائی بیان کریں اور جو حقیقت ہے اسے تسلیم کرلیں کہ وہ امن وامان کی بحالی میں ناکام ہوچکے ہیں، چھ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ممبر انسپکشن کی ٹیم کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ پولیس کے 400 اہلکار جرائم میں ملوث ہیں تو امن کیسے ہو؟
جس شہر کی پولیس خود جرائم میں ملوث ہو اس شہر میں امن و امان قائم ہو،یہ محض ایک مذاق لگتا ہے، جس گھر کے گھر والے خود اپنے گھر کو تباہ و برباد کرنے میں لگے ہوں، پھر اس گھر کو کوئی بھی نہیں بچاسکتا، کراچی کی ہولناک صورت حال خاصی اعصاب شکن ہوتی جارہی ہے، تمام اداروں میں اس وقت کرپشن اپنے عروج پر ہے، عوام کس کے پاس جائےؒ اور کہاں سے انصاف طلب کریں؟ ایک سپریم کورٹ کی ساری ذمے داری نہیں ہے، اور اداروں کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کا خیال کریں، مگر بدقسمتی سے ہمارا ہر ادارہ غفلت اور کرپشن کا شکار ہے، اب آپ نیب کے ادارے کو ہی لے لیجیے، وہ ادارہ جو کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے آج خود مسائل کا شکار ہوچکا ہے، اس کی مثال کامران فیصل کی پراسرار موت ہے، کامران فیصل نیب کا افسر خود دہشت گردی اور ظالم لوگوں کا شکار ہوگئے اور ابھی تک ان کی موت کا معمہ حل نہیں ہوسکا ۔
کراچی کے حالات کی وجہ سے اب عوام میں خوف و ہراس، بے چینی کی سی کیفیت طاری ہوگئی ہے، لوگوں نے دوسرے ملکوں میں آباد ہونے کی کوشش شروع کردی ہے کیونکہ اب ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے ملک میں کسی بھی شخص کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، لوگ پاکستان چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور جو باہر پاکستانی آباد ہیں وہ جب نیوز سنتے ہیں تو ہم سے سوال کرتے ہیں آخر آپ لوگ کیسے پاکستان میں رہتے ہیں، پاکستان تو اب عراق اور افغانستان کے حالات کی تصویر پیش کرتا ہے، اب لگتا ہی نہیں ہے ہم پاکستان کی خبریں سن رہے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان میں جنگ چل رہی ہو اور غیر ملکیوں کا حملہ ہوا ہو۔ پاکستان کو کوئی غیر نہیں افسوس کہ اپنے ہی لوگ مل کر گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔
شہر کراچی جل رہا ہے، جو اس کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ اب حالت یہ ہے کہ سیاسی، جمہوری اور اتحادی جماعتوں کی ناقابل فہم بے بسی، آزاد میڈیا کی مصروفیت میں ڈوبی ہوئی فریادوں کی بے اثری، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ناقابل یقین ناکامی پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔کراچی کو اب خطرناک شہروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے، ہمارے سارے حکمران بے بس ہوچکے ہیں، کراچی میں امن قائم کرنے کے معاملے میں موجودہ حکومت سے عوام بہت مایوس نظر آتے ہیں، لوگوں کو موجودہ حکومت سے اب کوئی توقع بھی نہیں رہی ہے۔ ابھی بھی دنیا میں نیک لوگ آباد ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک دنیا قائم ہے ایسے ہی نیک لوگوں کی دعاؤں سے کیا معلوم کراچی میں امن و امان ہوجائے، اب بس اعتبار دعاؤں پر ہی ہے، کیا معلوم معجزہ ہوجائے ۔