خلع ‘ایک تلخ منظر نامہ…

یہاں ممکن ہے کہ بعض افراد کا اعتراض قائم ہوکہ آسان نکاح تو سنت کا اہتمام اور شرعی حکم ہے۔


Zahida Javaid February 15, 2013

ناکام شادیوں کے تناسب میں اضافے کی وجہ خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں اضافے کو قرار دیا جائے تو یہ تصویر کا وہ رخ ہوگا جو تصویر کو الٹا (نیچے سے اوپر کی جانب) کرکے دیکھنے پر نظر آتا ہے جب کہ تصویر کی سچائی یہ ہے کہ شادی کا بندھن نکاح کی جس بنیاد سے قائم ہوتا ہے معاہدے کا وہ قانون اتنا سادہ ہے کہ وہ فرد کو برائی سے تحفظ اور ازدواجی زندگی کی سہولت تو عطا کرتا ہے لیکن مرد کی بہ حیثیت شوہر کے حوالے سے فرائض اور ذمے داریوں کی پاسداری کی بابت اسے قانونی حدود وقیود سے اس طرح پاک صاف اور شفاف رکھا گیا ہے کہ اگر مرد ظلم اور زیادتی پر اترا ہو تو بڑے سے بڑا قانون دان بھی اس کی اس مردانہ طاقت کو محض قانونی ''داؤ پیچ'' سے گرفت کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، اصلاً قانون کا تحفظ اور طاقت مجروح فریق یعنی بیوی کو حاصل نہیں ہوتی۔

یہاں ممکن ہے کہ بعض افراد کا اعتراض قائم ہوکہ آسان نکاح تو سنت کا اہتمام اور شرعی حکم ہے، دراصل ابہام کا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب دین کا حکم ایک خاص حد تک تو قانون سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور بعد کے مرحلے قانون کی پہنچ سے بچا لیے جاتے ہیں اور یقینا یہ صورت حال توازن کے بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ نکاح کے انعقاد سے فرد معاہدے کے جس دائرے میں داخل ہوتا ہے آیا اس کی حرمت کی پاسداری فرد کا ذاتی معاملہ ہے؟ گھر ٹوٹنے کے انتہائی اقدام سے قبل (خلع کی صورت میں) اس عہد کی پاسداری کی جانچ پڑتال کے لیے کیا اصول متعین ہیں؟ جواب دہی کا مرحلہ ہونا چاہیے یا نہیں؟ معاشرے کی بنیادی اکائی کا انہدام ریاستی جرم اور سنگین سماجی مسئلے کے زمرے میں آنا چاہیے، اور اگر یہ فرد کا ذاتی معاملہ بلکہ ''دل کا معاملہ'' ہے تو کیا فرد کو دی جانے والی یہ قانونی آزادی اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کی راہ ہموار نہیں کرتی؟

شعوری اعتبار سے اس معاملے میں ہمارا معاشرہ تضاد فکری کا شکار ہے، ایک جانب ہمارا عقیدہ ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، دوسری جانب یہ جوڑے بکھر رہے ہیں، ٹوٹ رہے ہیں اور ہمارا نظام قانون سمیت مدہوشی کی اونگھ میں ہے، ہم خاندانی نظام کو اپنے معاشرے کی امتیازی خصوصیت، رحمت اور اقدار کے تحفظ کا امین مانتے ہیں، لیکن اس نظام کو مضبوط بنانے، استوار کرنے اور اس کے نقائص دور کرنے کے موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں عملی اعتبار سے ہم اپنی ہچکی روک کر بیٹھے ہوئے ہیں، ایک طرف مردانہ غیرت جوش میں آ جاتی ہے اگر اس کے تسلط پر قانون یا حقوق کا حرف آنے لگتا ہے لیکن وہیں دوسری جانب بیوی اور بچوں کے حوالے سے مرد کی ذمے داریوں اور ان کے حقوق کی بات آتی ہے تو یہ مردانہ غیرت کوسوں دور چلی جاتی ہے۔

ہم اپنے روایتی تصورات کی روشنی میں عورت کو کمزور، نازک اور ناقص العقل گردانتے ہیں، لیکن گھر جیسی بنیادی اور ٹھوس اکائی کا تمام تر بوجھ ہم اس ناتواں عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور گھر کی خرابی کی اولین اور بیشتر لعنت کی مستحق یہ عورت ٹھہرتی ہے۔ گھر کا حاکم اور سربراہ ہونے کی حیثیت سے مرد کو کسی لحاظ سے مجرم اور ظالم نہیں کہا جاتا۔ ایک مرد جو فراست کے اعتبار سے اپنے خاندان اور عیال میں توازن کے قیام میں ناکام اور نااہل ثابت ہوتا ہے اس کی اس کمزوری اور کم ظرفی کا سارا الزام بھی عورت کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے اور اسے بہو اور سسرال کی روایتی چپقلش کا نام دے کر یہ مرد مظلوم اور بے چارہ بنا دُبکا نظر آتا ہے۔

ہمارے عائلی فلسفے اور فرسودہ پنچایتی نظام میں اس معصوم مرد کو سرزنش کے نام کی ہلکی سی چپت بھی نہیں لگائی جاتی بلکہ اس تصور سے ہی ہمارے سماج کے مردانہ وقار کو کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں، مذکورہ ساری صورت حال کا سب سے دل گیر پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے سماجی رویوں کی اس غلاظت اور گمراہی کا جواز اپنے دین سے گھڑتے ہیں اس حوالے سے شعوری ستھراؤ اور نتھار کی کوئی مہم دین و دانش کے حلقوں کی جانب سے نظر نہیں آتی۔ جب ہماری عورت اپنے حقوق کو لے کر ان رویوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو ہماری دینی اور معاشرتی اقدار سے متصادم ہیں تو پھر بے سمت واویلے ڈالے جاتے ہیں لیکن تریاق کا کوئی گر پھر بھی نہیں نکالا جاتا۔

آئیے ان ''قیامت کی نشانیوں'' کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی رو سے عورتیں اپنی گھر بسانے کی فطری لگن سے برسر پیکار ہیں، وہ عورت جس کا اپنی پیدائش سے ہی رنگوں، نزاکت، گڑیاں پٹولوں اور گھر گرہستی سے ان دیکھا تعلق جڑ جاتا ہے، وہ خود اپنے اس تصور کو اپنے ہاتھوں سے مسمار کر رہی ہے اور اپنی ان خواب زدہ آنکھوں کو پھوڑ رہی ہے جو ایک مرکز کی جستجو اور کشش میں ازل سے گرفتار ہیں، اس سوال کی کھوج میں جب ہم ماضی اور حال کے تقابل میں الجھتے ہیں تو سرا یہ پکڑتے ہیں کہ چونکہ ماضی کی عورت صبر، سمجھوتے اور رضاجوئی کا مجسم ہوتی تھی، لہٰذا اس کی خاموش سمجھداری گھر کی بازی جیتنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی، لیکن آج چونکہ تعلیم نے نہ صرف عورت کے منہ میں زبان ڈال دی ہے بلکہ زمانے اور علم کی ہوا نے اس کے شعور کو بھی آسمانوں میں اڑا دیا ہے۔

اس لیے وہ چاردیواری کے جھنجھٹ میں اپنی زندگی دان نہیں کرتی اور اپنی چادر کا تقدس ایسے مرد سے وابستہ نہیں کرتی جو اندرون خانہ امین اور محافظت کے تقاضے پورے نہیں کرتا، خود انحصاری کا سودا اس ساری جنگ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سبب قانون ایسی خودسر عورتوں کے لیے خلع کے نظام کو سہولت کے ساتھ پیش کرتا ہے اور قانون کی زبان میں اس صورت حال کا احاطہ ''ہم آہنگی نہ ہونا'' کے لطیف پیرائے میں کیا جاتا ہے۔ یعنی عورت اپنے خاوند اور اس کے گھرانے کے ساتھ گزارہ کرنے میں ناکام ہے تو وہ اپنے حق مہر کی قربانی ادا کرکے شادی کے معاہدے سے باہر آسکتی ہے۔

اس تناظر میں ماحول کا وہ پس منظر دھیان میں رکھیے جو ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی اور عورتوں کے مسائل اور معاملات کا ہے اور پھر اس تلخ منظر نامے کی طرف آئیے کہ جہاں عورت اپنے حق مہر کے عوض ایک ناآسودہ اور کٹھن زندگی کا انتخاب کرتی ہے، کیا ہمارے معاشرے کے کامیاب شادی شدہ جوڑوں کی ازدواجی زندگی سو فیصد ہم آہنگی سے مزین ہے؟ دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے گریبانوں میں لکھے سچ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت کے گھر بسانے کی قیمت اس کی عزت نفس، خودداری اور انفرادیت کو سلب کرکے اسے مجبور اور محدود کرکے طے نہیں کی جائے گی۔ عورت اپنا گھر بسائے رکھنا چاہتی ہے، کتنی ایسی نام نہاد سہاگنیں ہیں جو اب نہ کنواری رہیں نہ وہ مطلقہ ہیں نہ بیوہ۔

گھر بسنے اور اجڑنے کے بیچ یہ مظلوم عورتیں اپنے شوہروں سے اس مردانہ جرأت کے فیصلے کی منتظر اور متقاضی ہیں جو ان میں ہے ہی نہیں۔ ہماری مائیں غیرت اور آبرو مندی کے تقاضوں کے لحاظ سے بیٹوں کی اس تربیت میں ناکام ہیں جو انھیں مثالی شوہر کا درجہ دلاسکے۔ ایسے ناخواندہ اور ابتر معاشرے میں گھر کی اکائی کو مضبوط بنانے، تحفظ دینے اور نکاح کے معاہدے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے قانون کی گرفت لازمی ہے۔

ضروری ہے کہ نکاح نامے میں وہ شرائط داخل کی جائیں جو شادی شدہ زندگی میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں تاکہ جب عورت اپنے خلع کے حق کے استعمال پر مجبور ہو تو اسے عورت کی طرف سے سمجھوتے کی کمی پر محمول نہ کیا جائے بلکہ شوہر کے رویے کو بھی قانون کی کڑی نگاہ سے پرکھا جائے تاکہ ایسا مرد جو اپنی ذمے داریوں کے لحاظ سے کوتاہی کا مرتکب پایا جائے یا جو مرد حق مہر کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر اپنی مکار اور مجرمانہ ذہنیت کے سبب عورت کے پاس خلع کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ چھوڑے تو ایسے مرد کے غلط رویے کے مطابق اس پر جرمانہ، سزا اور حق مہر کی مکمل یا کچھ ادائیگی کی اصلاحات لاگو کی جاسکیں۔ نکاح کے معاہدے کو توازن اور تقاضوں کے لحاظ سے جامع بناکر گھر ٹوٹنے اور گھر توڑنے کے رجحان کی بیخ کنی ممکن ہے۔ بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ نکاح کے معاہدے کو ریاست قانون کے ذریعے نجی سطح سے اٹھاکر اپنے ہاتھ میں رکھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں