سب سے پہلے الیکشن

الیکشن کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں، اس عمل کو چلنے دیں۔

خدا خدا کرکے الیکشن کے دن آئے ہیں، اس انتظار میں قوم نے کیا کیا دکھ اٹھائے ہیں، کیسے کیسے صدمے برداشت کیے ہیں، گھر کے گھر تباہ ہوگئے، شہر ویران ہوگئے، گلیاں سنسان، رہ گزاروں سے اٹھتا دھواں، درودیوار خون آلود، فضاؤں میں گولیوں کی سنسناہٹ، میلوں دور تک سنائی دینے والے بم دھماکے، بکھرتے انسانی اعضاء، چنگھاڑتی ایمبولنسیں، اسپتالوں میں دم توڑتے زخمی، مرنے والوں کے تابوت، انسانی چیخیں، بہتے آنسو، آہ و بکا، اٹھتے جنازے، خالی ہوتے شہر، آباد ہوتے قبرستان، اجڑے سہاگ، بے سہارا بوڑھے ماں باپ، بہنوں کی ڈولیاں کندھا دینے والوں سے محروم،معصوم بچوں کے سروں پر دست شفقت رکھنے والے نظروں سے اوجھل اور دوسری طرف ''موت کے پروانے'' لاکھوں روپوں کا مطالبہ، نتیجہ دکانیں بازار بند، فیکٹریاں کارخانے بند، صنعت کاروں کی سرمایہ سمیت غیر ممالک منتقلی، بجلی بند، گیس بند، ملوں کا پہیہ جام، بے روزگاری، ٹھنڈے چولہے، گھر گھر اگتی بھوک، بھوکے بچے، دوا دارو سے محروم بوڑھے ماں باپ، بچوں سمیت ماؤں کی خودکشیاں، گلیوں بازاروں میں اترتے زیور، چھنتے موبائل پرس، مزاحمت پر گولیاں، دن دہاڑے وکلاء، علماء، ڈاکٹر قتل، مارنے والے ''چھلاوے'' غائب، نہ کوئی نام نہ کوئی نشان، باوردی پولیس، رینجرز ہتھیاروں سمیت لاچار، مجبور، بے بس۔۔۔۔!

شہری خوف زدہ، بے یارومددگار، حالات کے ہاتھوں مجبور، گھروں میں بھی غیر محفوظ۔ چاروں طرف سے نہتے لوگوں پر یلغار، حکمرانوں کے بڑے بڑے ایوان محفوظ،گھر محفوظ، طالبان کے اعلانیہ حملے جاری، فوجی ٹھکانے بھی طالبان کے نشانے پر، یہ جیلیں بھی توڑ کر اپنے ساتھی چھڑا کر لے جاتے ہیں، ان کے خودکش بمبار انسانوں کا شکار کرنے کے مظاہرے اکثر کرتے رہتے ہیں، پتہ نہیں یہ کون ہیں جن کے ہاتھوں، مسجدیں اور نمازی شہید ہورہے ہیں، اسکول تباہ ہورہے ہیں، اور ان کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ رہی سہی کسر ہمارا دوست امریکا بہادر پوری کر رہا ہے، اس کے ڈرون حملوں میں ہمارے ہزاروں معصوم شہری جن میں معصوم بچے، جوان، بوڑھے، عورتیں مرد شامل ہیں لقمہ اجل بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

بلوچستان بری طرح جل رہا ہے، وہاں بغاوت ، علیحدگی کے نعرے بلند ہورہے ہیں، ہزاروں بلوچ ہتھیار لیے، پہاڑوں پر مورچہ بند ہیں، روزانہ دھماکے ہورہے ہیں، لوگ اغواء ہورہے ہیں اور پھر لاشیں ملتی ہیں۔ پورے ملک میں ''خاص اشرافیہ'' کے اپنے اپنے اسلحہ ڈپو ہیں، ضمنی الیکشن جیتنے کی خوشی ہو یا جلسے جلوس، جدید ترین ہتھیاروں کی کھلم کھلا نمائش کی جاتی ہے، اور یہ مناظر گھر بیٹھے عوام کو بذریعہ میڈیا دکھائے جاتے ہیں۔ خوف و ہراس کے یہ تمام مناظر محض اس لیے دکھائے جاتے ہیں کہ عوام کو سر اٹھانے کا خیال بھی نہ آئے اور نہتے، بے بس، لاچار، مجبور عوام ان حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر سر جھکائے، آنکھیں بند کیے، کانوں میں روئی ٹھونسے، ہونٹوں پر چپ کی چیپیاں لگائے زندگی کے دن پورے کریں۔

ایسے میں پانچ سال بعد الیکشن کے دن پھر آئے ہیں۔ دکھوں کے مارے عوام آس کی پتوار تھامے طوفانوں میں گھری اپنی کشتی کو ساحل مراد تک لانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، عوام نے اتنے دکھ، اتنے صدموں کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور الیکشن کے ذریعے حالات بدلنے کا عزم لے کر میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ گو ''وہ منزل'' ابھی بہت دور ہے، مگر چلیں گے تو ہی ''وہ منزل'' قریب آئے گی۔

ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما رحم کریں، ہوش سے کام لیں، جوش سے نہیں، اور دکھی عوام کو الیکشن کی پرچی کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں، الیکشن کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں، اس عمل کو چلنے دیں۔ کیونکہ یہی راستہ ''اس منزل'' کی طرف جاتا ہے کہ جہاں ہم اپنے وطن پاکستان کو خوشحال دیکھیں گے، عوام خوب جانتے ہیں، وہ اپنے ملک کے چپے چپے سے خوب آشنا ہیں، پاکستان سورہ رحمٰن کی کھلی تفسیر ہے، وہ جانتے ہیں کہ:

یہ زمیں تو حسین ہے بے حد

حکمرانوں کی نیتیں ہیں بد

حکمراں جب تلک ہیں یہ بے درد

اس زمیں کا رہے گا چہرہ زرد


یہ زمیں جب تلک نہ لیں گے ہم

اس سے اگتے رہیں گے یوں ہی غم

اور عوام یہ بھی خوب جان چکے ہیں کہ انھی کے ووٹ کی طاقت سے ''اچھے لوگ'' منتخب ہوسکتے ہیں۔ ''وہ لوگ'' جو دکھی، غریب ، محروم، مقہور، مجبور، عوام کے چہروں کو خوشیوں سے جگمگا دیں گے۔ ''وہ لوگ'' جو عوام کی زبان ہوں گے، عوام کے ہاتھ ہوں گے، عوام کے پاؤں ہوں گے، عوام کے دلوں کی دھڑکن ہوں گے۔ ''وہ لوگ'' جو بولیں گے تو لگے گا عوام بول رہے ہیں، چلیں گے تو لگے گا عوام چل رہے ہیں۔ یہی ''لوگ'' جب الیکشن میں جیت کر آئیں گے تبھی حالات بدلیں گے۔ دیکھو، سنو! غور سے سنو! عوام کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ اپنا اقتدار چاہتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ:

بے گھری کو کریں گے ہم ہی دور

ہم ہی دیں گے دلوں کو پیار کا نور

خلق صدیوں کے ظلم کی ماری

یوں نہ حیراں پھرے گی بے چاری

اس خزاں کو مٹائیں گے ہم ہی

فصل گل لے کے آئیں گے ہم ہی

اور یہ ''فصل گل'' مسلسل الیکشنوں کے عمل سے گزرنے کے بعد ہی آئے گی، الیکشن ہوگا تو رستہ کٹے گا، اور اہل وفا کا قافلہ آگے بڑھے گا۔ فیض نے بھی تو یہی سبق دیا ہے ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی'' اور جالب بھی یہی کہتا ہے کہ ''ہم کو چلنا ہے یونہی رات بسر ہونے تک''۔ لہٰذا کارگل کی باتیں فی الحال چھوڑو اور الیکشن ، بس الیکشن کی بابت سوچو۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھنے پائے کہ جس سے الیکشن میں رخنہ پڑے۔ باقی کام بعد میں ہوجائیں گے۔ کام تو ابھی بہت کرنے ہیں، جن آفات میں عوام اور ملک گھرا ہوا ہے، ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے الیکشن کے بعد اصل کام شروع ہوگا۔ الیکشن خوب سے خوب تر ہوجائیں، یہ دباؤ ڈالے رکھو۔
Load Next Story