سندھی زبان کا تاریخی تناظر…
تہذیب و تمدن میں دیگر رسوم کے ساتھ زبان کی ترقی، معاشرتی ذمے داری ہے ۔
اب سے پہلے میں نے اردو کے حق میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان ''اردو ہے جس کا نام'' تھا، جس کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی، اس ایک تحریک سے میں حوصلہ پا کر سندھی زبان پر لکھنے کے قابل ہوا۔
انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جب سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو انھوں نے بھی سندھ کی تہذیب کی پرورش کرنیوالی سندھی زبان کو برصغیر کی تمام جملہ زبانوں سے زیادہ توانا اور زندگی سے بھرپور زبان قرار دیا، شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ ان حضرات کو دیگر زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان میں دینی اور دنیاوی علوم ملے، مزیدبرآں سندھی میں تیزی سے ترقی کرنے اور حالات و واقعات کے مطابق نئے معاشرے کی تشکیل میں معاون و موثر ادب تخلیق کرنے کی صلاحیتوں کا بھی ادراک ہوا۔ سندھی زبان کو برصغیر کی دیگر زبانوں کی طرح کسی نہ کسی وجہ سے ہر دور میں سرکاری، تعلیمی، علمی اور ادبی سطحوں پر نظرانداز کیا جاتا رہا، اس عمل کو ہر اس نفس نے شدت سے محسوس کیا جو اس زبان کی نمو وپرورش یا اس کی ترقی اور اس سے تشکیل پاتے ہوئے معاشرے پر کچھ کرنا چاہتا رہا۔
دور جدید کی عالمی شہرت یافتہ جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے بھی مذکورہ عدم دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ''سندھی زبان اپنی گرائمر اور وسیع علمی و ادبی سرمائے ہونے کے باوجود عدم توجہی کا شکار ہے'' برصغیر میں رائج مروجہ زبانیں اور ان زبانوں میں (جن کا منبع بھی سنسکرت ہے) سے کوئی بھی زبان سیاسی مفادات کے پیش نظر اس قدر غفلت کا شکار نہیں بنی جتنا سندھی زبان کو بنایا گیا ہے۔ یہ ازل ہی سے اس خطہ ہندوپاک میں بولی و سمجھی جانے والی زبانوں میں سب سے زیادہ حقارت و نفرت کا ہدف بنتی رہی ہے اور اس زبان کے بولنے والوں کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
تہذیب و تمدن میں دیگر رسوم کے ساتھ زبان کی ترقی، معاشرتی ذمے داری ہے ۔ سنسکرت دراصل آریاؤں کی زبان ہے اور اس کی کئی شاخیں ہیں، برصغیر میں آریائی تسلط سے قبل جو مروجہ زبان تھی اسے پراکرت اور آریائی زبان کو سنسکرت کہا جاتا تھا۔ زبانوں کے علم کو علم لسانیات کہتے ہیں،اس علم سے ہر زبان کی اصل، گروہ بندی، امن کی ساخت، تقابلی تحقیق،، تجزیے اور تجربوں سے پتہ لگتا ہے۔ سندھی، ہندوستانی زبانوں کا کوئی غیر ترقی یافتہ نمونہ ہے، بعض لسانی ماہرین کے مطابق ''گرائمر کے اعتبار سے سندھی بہت ہی مالدار زبان ہے اور سنسکرت کی کوئی شاخ ہے جوکہ ترقی کرکے زبان بنی ہے۔''
ڈاکٹر ارنسٹ ٹرومپ اور سندھی مورخ و محقق بھیرومل (Bherumal) کے مطابق سندھی سنسکرت کی بیٹی ہے، یعنی یہ زبان سنسکرت ہی کی پر نمو ڈالی ہے، کیونکہ سنسکرت اور سندھی کو ماں بیٹی کا رشتہ دیا گیا تو اس کے پیچھے ہوسکتا ہے یہ رائے ہوکہ ان دونوں زبانوں کی گرائمر، لغوی اور صوتی خصوصیات یکساں ہیں۔ دراصل دونوں زبانوں میں بعض مشترکہ خوبیوں کی وجہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن کے مطابق آریاؤں کی وادی سندھ میں آمد کا پتہ چلتا ہے جو الگ الگ قبیلوں اور گروہوں کی شکل میں اور مختلف ادوار میں آتے رہے۔
ایسی ہی صورت حال وادی سندھ کی طرف آنیوالے آریائی قبیلوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوئی، ظاہر ہے کہ جب آریاؤں کی آمدورفت کا سلسلہ جرمنی، روس، پولینڈ، وسطی ایشیائی ممالک میں رہا تو رابطوں کے لیے مختلف زبانوں کا ملاپ ہوا، مختلف زمین کے خطوں پر مختلف زبانیں بولی جانے لگیں، جہاں ان کی زبان مقامی طور پر بولی جانیوالی پراکرتوں میں ڈھلتی اور انھیں ڈھالتی رہی۔ بعدازاں ماہرین نے جب سندھی کا حسب نسب معلوم کرنا چاہا تو زیادہ توجہ تقابلی جائزے پر دی، جہاں انھیں مشترکہ رنگ نظر آئے وہاں ایک ہی طرح کا فیصلہ صادر کردیا۔ لہٰذا جن محققین کو سندھی، کشمیری، ہندی، پنجابی، سنسکرت کی خوبیاں نظر آئیں تو انھوں نے مفروضہ قائم کرلیا کہ یہ سب سنسکرت سے نکلنے والی زبانیں ہیں، بعض ماہرین نے یونانی، لاطینی، اطالوی، اسپینی کا انھی بنیادوں پر تجربہ کیا اور اسی طرح انھیں بھی سنسکرت سے جنم لینے والی شاخیں ثابت کرنے کی کوشش کی۔
بدھ مت اور براہمنوں کی سندھ پر مدتوں تک حکمرانی رہی، یہی وجہ تھی کہ ماہرین کو سندھی اور سرائیکی میں سنسکرت کا بہت گہرا آہنگ نظر آنے لگا اور اس رنگ کو دیکھ کر انھوں نے سندھی اور سنسکرت کے درمیان مفروضے تراشے، ورنہ اس بحث سے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں کی پراکرت ہی سنسکرت کی بنیاد بنتی ہے۔ سندھ اب پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ اس نے خود یہ ملک بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کی تعمیر کے لیے تاریخی نوعیت کی قربانیاں دی ہیں۔ سندھ اگرچہ آج سکڑ کر چھوٹا ہی حصہ رہ گیا ہے لیکن ماضی میں سندھ کی سرحدیں اس خطہ زمین سے بھی زیادہ وسیع تھیں۔
جہاں ماضی میں سندھ، سندھی زبان اور سندھی ثقافت سے ان علاقوں کی قربت زیادہ تھی لیکن اب وہاں کی زبانیں اور ثقافت میں قدرے تبدیلیاں آنے لگیں، بلوچستان کے علاقے قلات میں تو 1941 میں بھی سندھی بولنے والوں کا حصہ25 فیصد تھا، قلات کے قریب ہی گنداوا کا علاقہ ہے جس میں بستی اور کچھی بھی شامل ہے۔ یہ سارا علاقہ نہ صرف ماضی بعید بلکہ ماضی قریب میں بھی سندھ کا ہی حصہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ سندھی سے برسوں کی جدائی کے باوجود اب بھی پیار کرتے ہیں اور سندھی بولتے ہیں، بلوچستان کے ہر کیچ، مکران اور لسبیلہ کے لوگ آج بھی سندھی بولتے ہیں۔ سندھ کے مشرقی علاقے مثلاً راجستھان، کچھ، کاٹھیاواڑ، گجرات اور سورت سے لے کر چولستان تک سندھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
چنانچہ جس وقت سندھی لہجے کی بات کی جاتی ہے تو ان سب علاقوں کے تاریخی تسلسل کی بات بھی کرنی چاہیے۔ سندھی زبان کے دو لہجے زیر تذکرہ آتے ہیں۔ فطری لہجہ، طبعی لہجہ۔ فطری لہجہ وہ ہے جس کے ساتھ ماضی میں سندھی کا فطری رشتہ رہا اور آج تک برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھی لہجہ، کاٹھیاواڑی لہجہ، راجستھانی لہجہ جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں سندھی بولی جاتی ہے وہ علاقے محل و قوع کے لحاط سے الگ الگ ہی تھے لیکن وہاں سندھی بول چال کیونکہ عام تھی لہٰذا مقامی لوگوں کے لہجے بھی الگ الگ ہی ہوئے، چونکہ سندھ کے زیریں حصے کو ''لاڑ'' کہتے ہیں لہٰذا وہاں سندھی زبان کا لہجہ بھی ''لاڑی'' کہلاتا ہے، لیکن جو شہرت ''وچولی'' لہجے کو ملی وہ کسی کے حصے میں نہ آئی۔ وچ کے معنی مرکز کے ہیں اور اسی نسبت سے اسے ''وچ'' کہا جاتا ہے۔ وچولی ہر سندھی شخص کا معیاری لہجہ ہے۔
1843 میں انگریزی تسلط کے دوران اسی لہجے کو ہی رائج کیا گیا جو شعروشاعری، دفتری کام، عام بول چال میں کام آنے لگی۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سومر ادوار میں کئی عشقیہ داستانیں بھی پروان چڑھی تھیں۔ اگرچہ ان داستانوں میں قصہ ''سسی پنوں'' نمایاں، منفرد اور موثر ترین ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک بہت مقبول و مشہور، سندھی ادب میں بنیادی حیثیت کا حامل اور عقیہ داستانوں میں سرفہرست ہے لیکن سندھ کی قدیم تاریخوں کے مطابق قصہ سسی پنوں کا زمانہ سومرا عہد سے پہلے کا ہے۔ سندھی زبان کو غیر آریائی تسلیم کرتے ہوئے اس کا مقابلہ ان ممالک کی زبانوں سے بھی کیا گیا ہے جن کے ساتھ ماضی بعید میں سندھ کے باہمی تعلقات رہے، ایسے ممالک میں مصر، عراق، شام، بابل وغیرہ شامل ہیں جہاں پہلے ہی سے سریانی، عربی، عبرانی، حبشی اور دیگر زبانیں رائج تھیں۔
سندھ میں رہنے کی وجہ سے میں خود کو سندھی ہی کہتا ہوں اور سندھی ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ہم سب کی پہچان پاکستان سے ہے اور پاکستان میں رائج ہر زبان بڑی زبان ہے۔ ہم کو ایک قوم ہونے کی حثیت سے ہر علاقائی زبان کے عملی نفاذ کی کوششیں کرنی چاہئیں اور اس معاملے کو پھر غیر سندھی، غیر بلوچی کا راگ نہیں الاپنا چاہیے، ہم سب پاکستانی ہیں۔1955 سے لے کر 1970 یعنی 15 سال ''یون یونٹ'' کی ولادت سے اس کے عنفوان شباب تک کا عرصہ ہے، اسی عرصے میں بے سکونی، بے یقینی اور بے عملی کا عرصہ ہے، لیکن سندھی ادبی سنگت کے معرض وجود میں آنے سے کچھ تلافی ممکن ہوپائی، ون ہونٹ کے انہدام میں کسانوں، مزدوروں، علمی و ادبی تنظیموں کا جتنا حصہ ہے۔
اتنا ہی حصہ ان ہزاروں طلباء و طالبات کا ہے جنہوں نے مجموعی طور پر ون یونٹ کو گرانے میں عملی حصہ لیا بلکہ سندھی کلچر و ثقافت کو پروان چڑھایا اور آج سندھ نے ادیب، دانشور، شاعر، اساتذہ سندھ کے مسائل اور مستقبل کے بارے میں سوچتے اور عملی کارنامے انجام دے رہے ہیں، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ سندھ کی ثقافت لازوال ہے۔جہاں تک سندھی اور سنسکرت کے درمیان مذکورہ ''ماں بیٹی'' کے رشتے کا تعلق ہے اس کے لیے یہ جواب منطقی معلوم ہوتا ہے اگر سندھی سنسکرت کے الفاظ کی مرہون منت ہے تو سنسکرت اس سے کہیں زیادہ سندھی کی مقروض ہے۔ لہٰذا جس بنیاد پر سندھی کو اس کی بیٹی بنایا گیا ہے اسی بنیاد پر سنسکرت کو سندھی کی بیٹی بھی بنایا جاسکتا ہے۔
انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جب سندھ پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو انھوں نے بھی سندھ کی تہذیب کی پرورش کرنیوالی سندھی زبان کو برصغیر کی تمام جملہ زبانوں سے زیادہ توانا اور زندگی سے بھرپور زبان قرار دیا، شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ ان حضرات کو دیگر زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان میں دینی اور دنیاوی علوم ملے، مزیدبرآں سندھی میں تیزی سے ترقی کرنے اور حالات و واقعات کے مطابق نئے معاشرے کی تشکیل میں معاون و موثر ادب تخلیق کرنے کی صلاحیتوں کا بھی ادراک ہوا۔ سندھی زبان کو برصغیر کی دیگر زبانوں کی طرح کسی نہ کسی وجہ سے ہر دور میں سرکاری، تعلیمی، علمی اور ادبی سطحوں پر نظرانداز کیا جاتا رہا، اس عمل کو ہر اس نفس نے شدت سے محسوس کیا جو اس زبان کی نمو وپرورش یا اس کی ترقی اور اس سے تشکیل پاتے ہوئے معاشرے پر کچھ کرنا چاہتا رہا۔
دور جدید کی عالمی شہرت یافتہ جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے بھی مذکورہ عدم دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ''سندھی زبان اپنی گرائمر اور وسیع علمی و ادبی سرمائے ہونے کے باوجود عدم توجہی کا شکار ہے'' برصغیر میں رائج مروجہ زبانیں اور ان زبانوں میں (جن کا منبع بھی سنسکرت ہے) سے کوئی بھی زبان سیاسی مفادات کے پیش نظر اس قدر غفلت کا شکار نہیں بنی جتنا سندھی زبان کو بنایا گیا ہے۔ یہ ازل ہی سے اس خطہ ہندوپاک میں بولی و سمجھی جانے والی زبانوں میں سب سے زیادہ حقارت و نفرت کا ہدف بنتی رہی ہے اور اس زبان کے بولنے والوں کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔
تہذیب و تمدن میں دیگر رسوم کے ساتھ زبان کی ترقی، معاشرتی ذمے داری ہے ۔ سنسکرت دراصل آریاؤں کی زبان ہے اور اس کی کئی شاخیں ہیں، برصغیر میں آریائی تسلط سے قبل جو مروجہ زبان تھی اسے پراکرت اور آریائی زبان کو سنسکرت کہا جاتا تھا۔ زبانوں کے علم کو علم لسانیات کہتے ہیں،اس علم سے ہر زبان کی اصل، گروہ بندی، امن کی ساخت، تقابلی تحقیق،، تجزیے اور تجربوں سے پتہ لگتا ہے۔ سندھی، ہندوستانی زبانوں کا کوئی غیر ترقی یافتہ نمونہ ہے، بعض لسانی ماہرین کے مطابق ''گرائمر کے اعتبار سے سندھی بہت ہی مالدار زبان ہے اور سنسکرت کی کوئی شاخ ہے جوکہ ترقی کرکے زبان بنی ہے۔''
ڈاکٹر ارنسٹ ٹرومپ اور سندھی مورخ و محقق بھیرومل (Bherumal) کے مطابق سندھی سنسکرت کی بیٹی ہے، یعنی یہ زبان سنسکرت ہی کی پر نمو ڈالی ہے، کیونکہ سنسکرت اور سندھی کو ماں بیٹی کا رشتہ دیا گیا تو اس کے پیچھے ہوسکتا ہے یہ رائے ہوکہ ان دونوں زبانوں کی گرائمر، لغوی اور صوتی خصوصیات یکساں ہیں۔ دراصل دونوں زبانوں میں بعض مشترکہ خوبیوں کی وجہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن کے مطابق آریاؤں کی وادی سندھ میں آمد کا پتہ چلتا ہے جو الگ الگ قبیلوں اور گروہوں کی شکل میں اور مختلف ادوار میں آتے رہے۔
ایسی ہی صورت حال وادی سندھ کی طرف آنیوالے آریائی قبیلوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوئی، ظاہر ہے کہ جب آریاؤں کی آمدورفت کا سلسلہ جرمنی، روس، پولینڈ، وسطی ایشیائی ممالک میں رہا تو رابطوں کے لیے مختلف زبانوں کا ملاپ ہوا، مختلف زمین کے خطوں پر مختلف زبانیں بولی جانے لگیں، جہاں ان کی زبان مقامی طور پر بولی جانیوالی پراکرتوں میں ڈھلتی اور انھیں ڈھالتی رہی۔ بعدازاں ماہرین نے جب سندھی کا حسب نسب معلوم کرنا چاہا تو زیادہ توجہ تقابلی جائزے پر دی، جہاں انھیں مشترکہ رنگ نظر آئے وہاں ایک ہی طرح کا فیصلہ صادر کردیا۔ لہٰذا جن محققین کو سندھی، کشمیری، ہندی، پنجابی، سنسکرت کی خوبیاں نظر آئیں تو انھوں نے مفروضہ قائم کرلیا کہ یہ سب سنسکرت سے نکلنے والی زبانیں ہیں، بعض ماہرین نے یونانی، لاطینی، اطالوی، اسپینی کا انھی بنیادوں پر تجربہ کیا اور اسی طرح انھیں بھی سنسکرت سے جنم لینے والی شاخیں ثابت کرنے کی کوشش کی۔
بدھ مت اور براہمنوں کی سندھ پر مدتوں تک حکمرانی رہی، یہی وجہ تھی کہ ماہرین کو سندھی اور سرائیکی میں سنسکرت کا بہت گہرا آہنگ نظر آنے لگا اور اس رنگ کو دیکھ کر انھوں نے سندھی اور سنسکرت کے درمیان مفروضے تراشے، ورنہ اس بحث سے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں کی پراکرت ہی سنسکرت کی بنیاد بنتی ہے۔ سندھ اب پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ اس نے خود یہ ملک بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کی تعمیر کے لیے تاریخی نوعیت کی قربانیاں دی ہیں۔ سندھ اگرچہ آج سکڑ کر چھوٹا ہی حصہ رہ گیا ہے لیکن ماضی میں سندھ کی سرحدیں اس خطہ زمین سے بھی زیادہ وسیع تھیں۔
جہاں ماضی میں سندھ، سندھی زبان اور سندھی ثقافت سے ان علاقوں کی قربت زیادہ تھی لیکن اب وہاں کی زبانیں اور ثقافت میں قدرے تبدیلیاں آنے لگیں، بلوچستان کے علاقے قلات میں تو 1941 میں بھی سندھی بولنے والوں کا حصہ25 فیصد تھا، قلات کے قریب ہی گنداوا کا علاقہ ہے جس میں بستی اور کچھی بھی شامل ہے۔ یہ سارا علاقہ نہ صرف ماضی بعید بلکہ ماضی قریب میں بھی سندھ کا ہی حصہ رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ سندھی سے برسوں کی جدائی کے باوجود اب بھی پیار کرتے ہیں اور سندھی بولتے ہیں، بلوچستان کے ہر کیچ، مکران اور لسبیلہ کے لوگ آج بھی سندھی بولتے ہیں۔ سندھ کے مشرقی علاقے مثلاً راجستھان، کچھ، کاٹھیاواڑ، گجرات اور سورت سے لے کر چولستان تک سندھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
چنانچہ جس وقت سندھی لہجے کی بات کی جاتی ہے تو ان سب علاقوں کے تاریخی تسلسل کی بات بھی کرنی چاہیے۔ سندھی زبان کے دو لہجے زیر تذکرہ آتے ہیں۔ فطری لہجہ، طبعی لہجہ۔ فطری لہجہ وہ ہے جس کے ساتھ ماضی میں سندھی کا فطری رشتہ رہا اور آج تک برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھی لہجہ، کاٹھیاواڑی لہجہ، راجستھانی لہجہ جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جن علاقوں میں سندھی بولی جاتی ہے وہ علاقے محل و قوع کے لحاط سے الگ الگ ہی تھے لیکن وہاں سندھی بول چال کیونکہ عام تھی لہٰذا مقامی لوگوں کے لہجے بھی الگ الگ ہی ہوئے، چونکہ سندھ کے زیریں حصے کو ''لاڑ'' کہتے ہیں لہٰذا وہاں سندھی زبان کا لہجہ بھی ''لاڑی'' کہلاتا ہے، لیکن جو شہرت ''وچولی'' لہجے کو ملی وہ کسی کے حصے میں نہ آئی۔ وچ کے معنی مرکز کے ہیں اور اسی نسبت سے اسے ''وچ'' کہا جاتا ہے۔ وچولی ہر سندھی شخص کا معیاری لہجہ ہے۔
1843 میں انگریزی تسلط کے دوران اسی لہجے کو ہی رائج کیا گیا جو شعروشاعری، دفتری کام، عام بول چال میں کام آنے لگی۔تاریخ کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سومر ادوار میں کئی عشقیہ داستانیں بھی پروان چڑھی تھیں۔ اگرچہ ان داستانوں میں قصہ ''سسی پنوں'' نمایاں، منفرد اور موثر ترین ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بیرون ملک بہت مقبول و مشہور، سندھی ادب میں بنیادی حیثیت کا حامل اور عقیہ داستانوں میں سرفہرست ہے لیکن سندھ کی قدیم تاریخوں کے مطابق قصہ سسی پنوں کا زمانہ سومرا عہد سے پہلے کا ہے۔ سندھی زبان کو غیر آریائی تسلیم کرتے ہوئے اس کا مقابلہ ان ممالک کی زبانوں سے بھی کیا گیا ہے جن کے ساتھ ماضی بعید میں سندھ کے باہمی تعلقات رہے، ایسے ممالک میں مصر، عراق، شام، بابل وغیرہ شامل ہیں جہاں پہلے ہی سے سریانی، عربی، عبرانی، حبشی اور دیگر زبانیں رائج تھیں۔
سندھ میں رہنے کی وجہ سے میں خود کو سندھی ہی کہتا ہوں اور سندھی ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ہم سب کی پہچان پاکستان سے ہے اور پاکستان میں رائج ہر زبان بڑی زبان ہے۔ ہم کو ایک قوم ہونے کی حثیت سے ہر علاقائی زبان کے عملی نفاذ کی کوششیں کرنی چاہئیں اور اس معاملے کو پھر غیر سندھی، غیر بلوچی کا راگ نہیں الاپنا چاہیے، ہم سب پاکستانی ہیں۔1955 سے لے کر 1970 یعنی 15 سال ''یون یونٹ'' کی ولادت سے اس کے عنفوان شباب تک کا عرصہ ہے، اسی عرصے میں بے سکونی، بے یقینی اور بے عملی کا عرصہ ہے، لیکن سندھی ادبی سنگت کے معرض وجود میں آنے سے کچھ تلافی ممکن ہوپائی، ون ہونٹ کے انہدام میں کسانوں، مزدوروں، علمی و ادبی تنظیموں کا جتنا حصہ ہے۔
اتنا ہی حصہ ان ہزاروں طلباء و طالبات کا ہے جنہوں نے مجموعی طور پر ون یونٹ کو گرانے میں عملی حصہ لیا بلکہ سندھی کلچر و ثقافت کو پروان چڑھایا اور آج سندھ نے ادیب، دانشور، شاعر، اساتذہ سندھ کے مسائل اور مستقبل کے بارے میں سوچتے اور عملی کارنامے انجام دے رہے ہیں، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ سندھ کی ثقافت لازوال ہے۔جہاں تک سندھی اور سنسکرت کے درمیان مذکورہ ''ماں بیٹی'' کے رشتے کا تعلق ہے اس کے لیے یہ جواب منطقی معلوم ہوتا ہے اگر سندھی سنسکرت کے الفاظ کی مرہون منت ہے تو سنسکرت اس سے کہیں زیادہ سندھی کی مقروض ہے۔ لہٰذا جس بنیاد پر سندھی کو اس کی بیٹی بنایا گیا ہے اسی بنیاد پر سنسکرت کو سندھی کی بیٹی بھی بنایا جاسکتا ہے۔