پاک و ہند کی اقلیتیں
مودی حکومت مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا چکی ہے جس پر خود ہندو تاریخ داں محو احتجاج ہیں۔
گیارہ اگست کو پاکستان میں حسب معمول اقلیتوں کا دن منایا گیا اور اقلیتی برادریوں نے وطن عزیز میں تسلی بخش حالات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کئی دیگر قومیں آباد ہیں جن میں ہندو، عیسائی، سکھ، پارسی، بودھ، قادیانی اور بہائی شامل ہیں۔ گویا یہ مختلف قومیتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔
اقلیتوں کو یہاں ہر قسم کی آزادی سے نوازا گیا۔ ابھی پاکستان کے قیام کو تین دن باقی تھے یعنی یہ 11 اگست 1947ء کا دن تھا کہ ہمارے محبوب قائد اعظم محمد علی جناح نے دشمنوں کے اس پروپیگنڈے کو ناکام بنادیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی وہاں مسلمان اکثریت ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرے گی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں بہ بانگ دہل فرمایا تھا پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اکثریت آبادی اور اقلیتوں کے درمیان کبھی کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ البتہ چند بہکے ہوئے لوگوں نے ناموس رسالتؐ پر رکیک حملے کیے ہیں پھر ہمارے لوگوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں نقصان پہنچایا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان نازیبا حرکات کا جو بھی محرک ہوتا ہے وہ خود ایسا نہیں کرتا بلکہ ہمارے دشمن اسے لالچ اور ترغیب دے کر ایسا کرواتے ہیں تاکہ ہنگامہ برپا ہو اور پاکستان کا نام بدنام ہو۔ پاکستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کو عالمی میڈیا بڑی دلچسپی سے پیش کرتا ہے۔ اقلیتوں کو شکایت تھی کہ ان کے مسائل کو اسمبلیوں میں نہیں اٹھایا جاتا۔
اس صورتحال کے تدارک کے لیے بھی اقدامات کیے گئے۔ پہلے اقلیتی صرف اپنی کمیونٹی کے نمایندوں کو منتخب کرکے صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھیج سکتی تھیں مگر اب وہ ہر عام انتخابات میں اپنے حلقوں کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران کو بھی ووٹ دے کر منتخب کرسکتے ہیں۔
اس طرح اب ان کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں جب کہ عام لوگوں کے پاس صرف ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔ پہلے ہندوؤں کی شادیوں کو ان کی پنچایت رجسٹر کرتی تھی مگر اب ہندوؤں کے مطالبے پر انھیں رجسٹرکرنے کا باقاعدہ قانون بنادیا گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہیں برتا جاتا، انھیں سرکاری اسکولوں کے علاوہ نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اسکولوں میں ان کے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے بجائے مطالعہ پاکستان اور اخلاقیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔
اقلیتوں کی عبادت گاہوں، مقدس مقامات اور قبرستانوں و شمشان گھاٹوں کی باقاعدہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں اقلیتوں کی آبادی کل آبادی کا چار سے پانچ فیصد ہے جب کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں اقلیتوں کی آبادی 23 فیصد کے قریب تھی۔ اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے۔ وہ 16 لاکھ کے لگ بھگ ہیں جب کہ عیسائی دوسرے نمبر پر ہیں جن کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ تمام اقلیتوں کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے کچھ اضلاع میں ہندوؤں کی لڑکیوں کی مسلمان نوجوانوں سے شادیاں ہوئی ہیں۔
ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو ورغلا کر زبردستی شادیاں کی گئی ہیں جب کہ لڑکوں کا استدلال ہے کہ لڑکیاں پڑھی لکھی سمجھدار ہیں وہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی ہیں اگر شادیاں زبردستی کی گئی ہوتیں تو یہ لڑکیاں اپنے شوہروں کے گھر جانے کے بجائے ماں باپ کے گھر چلی جاتیں۔ بہرحال اس بات کا بھارتی میڈیا نے بہت پروپیگنڈا کیا جس سے متاثر ہوکر چند ہندو خاندان بھارت چلے گئے ہیں مگر ان کی وہاں بہت بری حالت بتائی جاتی ہے وہ وہاں کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں انھیں شہریت دینے کا جھانسہ دیا گیا تھا۔ وہ اب تک اس سے محروم چلے آرہے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں خصوصاً ہندوؤں کے لیے حالات مناسب ہیں جب کہ دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے۔ بھارتی مسلمانوں پر ویسے تو آزادی کے بعد سے ہی آفتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر جب سے بی جے پی کی مذہبی جنونی حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا ہوگئی ہے۔ گائے کا ذبیحہ کرنا اور اس کے گوشت کو گھروں میں رکھنے کے بہانے کتنے ہی مسلمانوں کو بے دریغ قتل کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ گائے کی خرید و فروخت کیا اسے ساتھ لے جانا بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اب آزادی کے ستر سال بعد بھی ملک کا غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان سے وفاداری کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کی ایک وجہ وندے ماترم ترانہ تھا جو خاص ہندو مذہبی گیت ہے اسے اب اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش کی حکومت نے ریاستی تعلیمی محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسلمان مدرسوں کو حکم جاری کریں کہ وہاں کے طلبا و طالبات صبح قومی ترانے کے ساتھ وندے ماترم گیت گائیں اور اس کی باقاعدہ ویڈیو بناکر حکومت کو بھیجی جائے۔ اس طرح مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد کے خلاف خرافات پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ادھر مسلمانوں کی ملازمت پر غیر اعلانیہ پابندی جاری ہے۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ سے زیادہ ہے مگر اسے حکومتی ریکارڈ میں صرف 14 کروڑ دکھایا جاتا ہے مسلمانوں کا ملازمتوں میں جو کوٹہ بنتا ہے اس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کے کاروبار پر بھی بھاری غنڈہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ متمول مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو آگ لگانا معمول بن چکا ہے۔
مودی کی حکومت میں گجرات میں مسلمانوں کا جس بھیانک انداز میں قتل عام کیا گیا ہے اس پر پوری دنیا محو احتجاج تھی خود امریکا نے مودی کا اپنے ہاں داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اس وقت بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے قتل عام سے متاثر ہوکر سلجھے ہوئے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سابق فوجیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور مودی حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے بھارت کو کیوں نازی جرمنی کی صف میں کھڑا کرنا چاہتی ہے؟
مسلمانوں کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا بی جے پی حکومت کی پالیسی بن چکا ہے۔ بابری مسجد کو تو پہلے ہی تباہ کیا جاچکا ہے اب وہ اس وقت تاج محل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔ بی جے پی کے کچھ لوگوں نے ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے کہ تاج محل کو شاہجہان نے ایک قدیم مندر کو توڑ کر تعمیر کرایا تھا چنانچہ تاج محل کو مسمار کرا کے اس کی جگہ پرانے مندر کو بحال کرایا جائے۔ ان عقل کے اندھوں اور تاریخ کے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمام مغل بادشاہوں کے ہندوؤں سے نہایت خوشگوار تعلقات قائم تھے حکومت کے اکثر وزیر ہندو تھے پھر ان کی کئی بیویاں ہندو تھیں چنانچہ ہندوؤں سے رشتے داریاں رکھتے ہوئے شاہجہان کسی پرانی ہندو عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کیونکر حمایت کر سکتا تھا۔
مودی حکومت مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا چکی ہے جس پر خود ہندو تاریخ داں محو احتجاج ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ہندو بھائیوں کو بھارتی مسلمانوں جیسے حالات کا نہ ماضی میں کبھی سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ آیندہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستانی مسلمان ہمیشہ اپنے نبیؐ کے فرمان کے مطابق اقلیتوں سے رواداری اور محبت کا برتاؤ جاری رکھیں گے۔
اقلیتوں کو یہاں ہر قسم کی آزادی سے نوازا گیا۔ ابھی پاکستان کے قیام کو تین دن باقی تھے یعنی یہ 11 اگست 1947ء کا دن تھا کہ ہمارے محبوب قائد اعظم محمد علی جناح نے دشمنوں کے اس پروپیگنڈے کو ناکام بنادیا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی وہاں مسلمان اکثریت ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرے گی۔ قائد اعظم نے اپنی تقریر میں بہ بانگ دہل فرمایا تھا پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اکثریت آبادی اور اقلیتوں کے درمیان کبھی کوئی بڑا فساد نہیں ہوا۔ البتہ چند بہکے ہوئے لوگوں نے ناموس رسالتؐ پر رکیک حملے کیے ہیں پھر ہمارے لوگوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں نقصان پہنچایا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ان نازیبا حرکات کا جو بھی محرک ہوتا ہے وہ خود ایسا نہیں کرتا بلکہ ہمارے دشمن اسے لالچ اور ترغیب دے کر ایسا کرواتے ہیں تاکہ ہنگامہ برپا ہو اور پاکستان کا نام بدنام ہو۔ پاکستان میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کو عالمی میڈیا بڑی دلچسپی سے پیش کرتا ہے۔ اقلیتوں کو شکایت تھی کہ ان کے مسائل کو اسمبلیوں میں نہیں اٹھایا جاتا۔
اس صورتحال کے تدارک کے لیے بھی اقدامات کیے گئے۔ پہلے اقلیتی صرف اپنی کمیونٹی کے نمایندوں کو منتخب کرکے صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھیج سکتی تھیں مگر اب وہ ہر عام انتخابات میں اپنے حلقوں کے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران کو بھی ووٹ دے کر منتخب کرسکتے ہیں۔
اس طرح اب ان کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں جب کہ عام لوگوں کے پاس صرف ایک ہی ووٹ ہوتا ہے۔ پہلے ہندوؤں کی شادیوں کو ان کی پنچایت رجسٹر کرتی تھی مگر اب ہندوؤں کے مطالبے پر انھیں رجسٹرکرنے کا باقاعدہ قانون بنادیا گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں ان کے ساتھ کوئی تعصب نہیں برتا جاتا، انھیں سرکاری اسکولوں کے علاوہ نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اسکولوں میں ان کے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے بجائے مطالعہ پاکستان اور اخلاقیات کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔
اقلیتوں کی عبادت گاہوں، مقدس مقامات اور قبرستانوں و شمشان گھاٹوں کی باقاعدہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں اقلیتوں کی آبادی کل آبادی کا چار سے پانچ فیصد ہے جب کہ قیام پاکستان کے وقت ملک میں اقلیتوں کی آبادی 23 فیصد کے قریب تھی۔ اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے۔ وہ 16 لاکھ کے لگ بھگ ہیں جب کہ عیسائی دوسرے نمبر پر ہیں جن کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ تمام اقلیتوں کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے کچھ اضلاع میں ہندوؤں کی لڑکیوں کی مسلمان نوجوانوں سے شادیاں ہوئی ہیں۔
ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو ورغلا کر زبردستی شادیاں کی گئی ہیں جب کہ لڑکوں کا استدلال ہے کہ لڑکیاں پڑھی لکھی سمجھدار ہیں وہ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی ہیں اگر شادیاں زبردستی کی گئی ہوتیں تو یہ لڑکیاں اپنے شوہروں کے گھر جانے کے بجائے ماں باپ کے گھر چلی جاتیں۔ بہرحال اس بات کا بھارتی میڈیا نے بہت پروپیگنڈا کیا جس سے متاثر ہوکر چند ہندو خاندان بھارت چلے گئے ہیں مگر ان کی وہاں بہت بری حالت بتائی جاتی ہے وہ وہاں کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں انھیں شہریت دینے کا جھانسہ دیا گیا تھا۔ وہ اب تک اس سے محروم چلے آرہے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں خصوصاً ہندوؤں کے لیے حالات مناسب ہیں جب کہ دوسری جانب بھارت میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے۔ بھارتی مسلمانوں پر ویسے تو آزادی کے بعد سے ہی آفتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں مگر جب سے بی جے پی کی مذہبی جنونی حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا ہوگئی ہے۔ گائے کا ذبیحہ کرنا اور اس کے گوشت کو گھروں میں رکھنے کے بہانے کتنے ہی مسلمانوں کو بے دریغ قتل کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔ گائے کی خرید و فروخت کیا اسے ساتھ لے جانا بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اب آزادی کے ستر سال بعد بھی ملک کا غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان سے وفاداری کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کی ایک وجہ وندے ماترم ترانہ تھا جو خاص ہندو مذہبی گیت ہے اسے اب اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان طلبا و طالبات کو پڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اتر پردیش کی حکومت نے ریاستی تعلیمی محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسلمان مدرسوں کو حکم جاری کریں کہ وہاں کے طلبا و طالبات صبح قومی ترانے کے ساتھ وندے ماترم گیت گائیں اور اس کی باقاعدہ ویڈیو بناکر حکومت کو بھیجی جائے۔ اس طرح مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد کے خلاف خرافات پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ادھر مسلمانوں کی ملازمت پر غیر اعلانیہ پابندی جاری ہے۔ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ سے زیادہ ہے مگر اسے حکومتی ریکارڈ میں صرف 14 کروڑ دکھایا جاتا ہے مسلمانوں کا ملازمتوں میں جو کوٹہ بنتا ہے اس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کے کاروبار پر بھی بھاری غنڈہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ متمول مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو آگ لگانا معمول بن چکا ہے۔
مودی کی حکومت میں گجرات میں مسلمانوں کا جس بھیانک انداز میں قتل عام کیا گیا ہے اس پر پوری دنیا محو احتجاج تھی خود امریکا نے مودی کا اپنے ہاں داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اس وقت بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے قتل عام سے متاثر ہوکر سلجھے ہوئے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سابق فوجیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور مودی حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے بھارت کو کیوں نازی جرمنی کی صف میں کھڑا کرنا چاہتی ہے؟
مسلمانوں کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا بی جے پی حکومت کی پالیسی بن چکا ہے۔ بابری مسجد کو تو پہلے ہی تباہ کیا جاچکا ہے اب وہ اس وقت تاج محل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔ بی جے پی کے کچھ لوگوں نے ایک عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے کہ تاج محل کو شاہجہان نے ایک قدیم مندر کو توڑ کر تعمیر کرایا تھا چنانچہ تاج محل کو مسمار کرا کے اس کی جگہ پرانے مندر کو بحال کرایا جائے۔ ان عقل کے اندھوں اور تاریخ کے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تمام مغل بادشاہوں کے ہندوؤں سے نہایت خوشگوار تعلقات قائم تھے حکومت کے اکثر وزیر ہندو تھے پھر ان کی کئی بیویاں ہندو تھیں چنانچہ ہندوؤں سے رشتے داریاں رکھتے ہوئے شاہجہان کسی پرانی ہندو عبادت گاہ کو تباہ کرنے کی کیونکر حمایت کر سکتا تھا۔
مودی حکومت مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرکے اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا چکی ہے جس پر خود ہندو تاریخ داں محو احتجاج ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ہندو بھائیوں کو بھارتی مسلمانوں جیسے حالات کا نہ ماضی میں کبھی سامنا کرنا پڑا ہے اور نہ آیندہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستانی مسلمان ہمیشہ اپنے نبیؐ کے فرمان کے مطابق اقلیتوں سے رواداری اور محبت کا برتاؤ جاری رکھیں گے۔