برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ
ایسی صورت حال میں یہ عطیہ کے لیے آسان نسخہ تھا کہ وہ پاکستان کا رخ کریں اور یہاں کی اشرافیہ کا حصہ بن جائیں۔
HYDERABAD:
1947ء میں دیوانگی کا ایک ایسا طوفان ہندوستان بھر میں اٹھا، جس کے دوران انسان کسی کونے میں منہ چھپائے روتا رہا اور بھوکے بھیڑیئے گھومتے رہے۔ یہ اگست کا مہینہ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کو 70 برس مکمل ہوئے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں میں بہت دھوم دھڑکا ہوا۔ جشن منایا گیا۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں ، دی گئیں۔ ترک وطن کے قصے میں بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے ہندوستان او ر پاکستان دونوں سے کنارہ کیا اور خاموشی سے کسی دوسری سرزمین میں رہنے لگے۔ ان ہی میں سے ایک عطیہ حسین تھیں۔
ایک ذہین، حسین اور حساس لڑکی۔ لکھنو کے ایک مشہور تعلقہ دار گھرانے اور کاکوری کے علمی اور ادبی علوی خاندان کی بیٹی۔ جس زمانے میں مسلمان لڑکوں کی اکثریت علی گڑھ میں پڑھتی تھی، عطیہ حسین نے اس زمانے کے مشہور انگریزی تعلیمی ادارے ازابلا تھوبرن کالج لکھنو میں پڑھا۔ وہ تعلقہ داروں میں سے پہلی لڑکی تھیں جس نے بی اے پاس کیا۔ کالج کے زمانے سے ہی کہانیاں لکھتی تھیں۔ ان کی 12 کہانیوں کا مجموعہ '' Phoneix Fled'' 1953 میں لندن سے کتابی شکل میں سامنے آیا۔
ان کے بارے میں کسی نے کہا کہ وہ سجاد ظہیر، ڈاکٹر رشید جہاں اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئیں۔ اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ان لوگوں نے میری تحریروں پر کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے میری سیاسی سوچ پر کچھ اثرات مرتب کیے۔ اسے تقدیر کہیے کہ جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو ان کے شوہر علی بہادر لندن میں تعینات تھے۔ عطیہ حسین کا خاندان مسلم لیگ کی سیاست میں گلے گلے ڈوبا ہوا تھا اور راجا صاحب محمود آباد سے تعلقات تھے، جن کی خاندانی دولت سے مسلم لیگ کی سیاست پروان چڑھ رہی تھی۔ ان کے خاندان کے متعدد افراد پاکستان کا رخ کرچکے تھے یا کرنے والے تھے۔
ایسی صورت حال میں یہ عطیہ کے لیے آسان نسخہ تھا کہ وہ پاکستان کا رخ کریں اور یہاں کی اشرافیہ کا حصہ بن جائیں۔ وہ اگر ہندوستان میں رہتیں تب بھی تعلقہ داری چھن جانے کے باوجود ان کا خاندانی پس منظر انھیں زندگی کی بہت سی سہولتیں فراہم کرتا۔ لیکن انھوں نے ان دونوں ملکوں میں رہنے کے بجائے اس تیسرے ملک کا انتخاب کیا جس نے ہندوستان پر لگ بھگ 2 صدی حکومت کی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ''لندن ایک نیوٹرل گراؤنڈ تھا۔ مجھے اپنی قومیت ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
1947 میں برصغیر کے تمام لوگوں کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہوتا تھا۔'' دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ انھوں نے رہنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کا انتخاب نہیں کیا اور اپنی آخری سانس تک برطانوی شہری رہیں۔ انھوں نے ایک مختصر گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے دونوں بچوں نے متوسط وضع کے بورڈنگ ہاؤس میں زندگی گزاری۔ عطیہ حسین نے لکھا ہے کہ انھوں نے ایک نیم تاریک دو چھتی میں لکھنے پڑھنے کا اپنا سامان جمایا اور پھر لکھتی رہیں۔
کہانیاں، مضامین، ہندوستانی کھانوں کی تراکیب پر مشتمل انگریزی میں ایک کتاب اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسی زمانے میں انھوں نے اپنا ناول ''Sunlight on a Broken Column'' لکھنا شروع کیا۔ اسے انھوں نے خون جگر سے لکھا۔ اس کے بعد انھوں نے کوئی اور ناول تحریر نہیں کیا لیکن اس کی انگریزی ادب پڑھنے والے طبقے میں دھوم مچ گئی۔ ان کا یہ ناول دوبارہ ''وراگو ماڈرن کلاسک'' نے شائع کیا۔ اس ادارے کی کرتا دھرتا الکرنڈرا پرنگل نے کہا کہ اس کی اشاعت میرے لیے ایک دل خوش کن تجربہ تھا۔
عطیہ نے روز مرہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بی بی سی میں کام کیا۔ وہ ایک اعلیٰ براڈ کاسٹر تھیں اور وہاں سے انھیں کام کا معاوضہ بھی ملتا تھا لیکن جب بی بی سی والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اردو سروس صرف پاکستان کے لیے نشر کی جائے گی تو انھوں نے خاموشی کے ساتھ بی بی سی سے کنارہ کرلیا۔
ماسکو کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں ایشیائی ادب کی سربراہ انا سووروا نے 2011 میں یہ بات مجھ سے کہی تھی کہ ''عطیہ کا یہ ناول مجھے بے حد محبوب ہے، میں دس برس پہلے اس کا روسی میں ترجمہ کرنا چاہتی تھی لیکن کوئی پبلشر نہیں ملا۔'' ہم ماسکو کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں بیٹھے تھے۔ ان سے یہ سن کر میں مسکرائی تھی اور میں نے ان کی دل دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ زمانے رخصت ہوئے جب سوویت یونین ہوتا تھا اور برصغیر کے ادیب ذوق شوق سے ترجمہ کیے جاتے اور شائع ہوتے تھے۔ ہر کتاب کم سے کم بھی دس پندرہ ہزار تو چھپ ہی جاتی تھی۔ انا مسکرائی تھیں اور بس۔ ہوسکتا ہے اب بھی دیواروں کے کان ہوتے ہوں۔
قرۃالعین حیدر نے عطیہ حسین کے بارے میں اپنے فیملی ساگا ''کارِ جہاں دراز ہے'' میں لکھا ہے:
''چند سال قبل اردو اکیڈمی یوپی کے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے لکھنو گئی، تب پہلی بار اکیڈمی کی عمارت دیکھی جو رانی صاحب بلہیرا کی ملکیت تھی۔ اٹھارہویں صدی کے جارجین طرز تعمیر کی یہ عمارت کافی خستہ حالت میں ہے اور شاید روشن الدولہ کی کچہری کی طرح انتہائی بے حسی کے ساتھ اسے بھی گرا دیا جائے۔ اکیڈمی کی بلڈنگ کی اصل مالکہ تو اب لندن میں رہتی ہیں۔ برآمدے کے نیم شکستہ پیل پایوں پر سے دھوپ سرکتی جارہی تھی تب مجھے اچانک عطیہ حبیب اللہ کے ناول ''Sunlight on a Broken Column'' کا خیال آیا جو چند سال قبل لندن سے چھپا تھا اور اسی ماحول اور اس کی موجودہ اداسی کے بارے میں تھا۔عطیہ کی ساس یعنی بیگم حبیب اللہ، اماں ( بیگم نذر سجاد حیدر) کی بہت پرانی سہیلی تھیں۔ 1947 میں ان کی بہو عطیہ نے لندن ہجرت کی۔ ان کی بیٹی تزئین اپنے شوہر فریدی کے ساتھ کراچی گئیں لیکن بیگم حبیب اللہ ایک اور لیڈر خاتون بیگم اعزاز رسول کی مانند لکھنؤ میں رہیں۔ پاکستان جانے یا نہ جانے کا فیصلہ عموماً لوگوں کے ذاتی حالات پر مبنی تھا۔ بہت سے کنبے زمین داری کے خاتمے کے بعد روانہ ہوئے۔ متعدد حضرات سرکاری نوکریوں سے ریٹائر ہونے کے منتظر رہے لیکن اپنے لڑکوں کو پاکستان بھیج دیا۔ یہی منظر میں نے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں دیکھا جہاں ہندو گھرانوں کے نوجوان تلاش معاش اور بہتر مستقبل کی امید میں کلکتہ چلے گئے تھے اور ان کے بزرگ اپنے اپنے قدیم مکانات میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ عطیہ حبیب اللہ مرحومہ کا ناول Emigre ادب کا ایک قابل قدر حصہ ہے اور عطیہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ Sunlight on a Broken Column کا اردو ترجمہ شائع کیا جائے۔''
قرۃالعین حیدر جب یہ جملے لکھ رہی تھیں، اس وقت انتظار حسین ''مشعل'' کی طرف سے اس ناول کا اردو میں ترجمہ کررہے تھے۔ یہ ناول ''شکستہ ستون پر دھوپ'' کے عنوان سے اس وقت شائع ہوا جب عطیہ حسین کی زندگی فنا کی ردا اوڑھ چکی تھی۔
ہماری منیزہ شمسی جو پاکستان میں انگریزی کے اولین ادیبوں میں سے ہیں، عطیہ حسین ان کی سگی خالہ تھیں اور کاملہ شمسی جو خاندانی روایت کو بڑھاتے ہوئے ہر دوسرے چوتھے برس انگریزی میں ایک ''بیسٹ سیلر'' ناول لکھ دیتی ہیں، وہ عطیہ کی نواسی ہیں۔ انگلستان میں مقیم انگریزی کے ادیب، نقاد اور ادبی کالمسٹ عامر حسین جس محبت سے اپنی ''عطیہ خالہ'' کا ذکر کرتے ہیں، وہ سننے کی چیز ہوتا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ ان سے ہی یہ سنا تھا کہ ایک زمانے میں لوگ ہندوستان جانے والوں سے کہتے تھے کہ وہاں اگر تم نے تاج محل اور عطیہ حسین کو نہیں دیکھا، تو کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے یہ بات بعد میں زیبا علوی کی یاد داشتوں میں پڑھی۔
زیبا نے حضرت گنج کی اس کوٹھی کو یاد کیا ہے جس کا شمار طبقہ اعلیٰ کے گھروں میں ہوتا تھا اور جہاں عطیہ حسین رہتی تھیں۔ ''ان کا حسن و جمال، ان کا رکھ رکھاؤ، تعلیم، کپڑے اور زیورات کے بارے میں امی ہمیں بتاتیں تو گمان ہوتا کہ وہ کسی پرستان کے بارے میں بتارہی ہیں اور ہم کسی پری کی کہانی سن رہے ہیں۔ یہی عطیہ شاہد حسین بعد میں اردو ادب میں عطیہ حسین کے نام سے پہچانی گئیں۔''
زیبا علوی کی ان سے ملاقات 1981 کے لکھنو میں ہوئی۔ زیبا لکھتی ہیں کہ ان کے انتقال کی خبر ''ڈان'' میں پڑھی تو ان کی تصویر بھی تھی اس کے ساتھ ہی کسی نے ان کے لیے یہ تعریفی کلمات بھی لکھے تھے کہ ''اگر آپ ہندوستان گئے اور آپ نے تاج محل اور عطیہ حسین کو نہیں دیکھا تو آپ نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔''
عطیہ حسین اب اپنے برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ روانہ ہوچکی ہیں۔ آسمان کے امیگریشن ڈیسک پر شاید کسی نے ان سے کچھ نہ پوچھا ہو۔
1947ء میں دیوانگی کا ایک ایسا طوفان ہندوستان بھر میں اٹھا، جس کے دوران انسان کسی کونے میں منہ چھپائے روتا رہا اور بھوکے بھیڑیئے گھومتے رہے۔ یہ اگست کا مہینہ ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کو 70 برس مکمل ہوئے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں میں بہت دھوم دھڑکا ہوا۔ جشن منایا گیا۔ ایک دوسرے کو مبارکبادیں ، دی گئیں۔ ترک وطن کے قصے میں بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے ہندوستان او ر پاکستان دونوں سے کنارہ کیا اور خاموشی سے کسی دوسری سرزمین میں رہنے لگے۔ ان ہی میں سے ایک عطیہ حسین تھیں۔
ایک ذہین، حسین اور حساس لڑکی۔ لکھنو کے ایک مشہور تعلقہ دار گھرانے اور کاکوری کے علمی اور ادبی علوی خاندان کی بیٹی۔ جس زمانے میں مسلمان لڑکوں کی اکثریت علی گڑھ میں پڑھتی تھی، عطیہ حسین نے اس زمانے کے مشہور انگریزی تعلیمی ادارے ازابلا تھوبرن کالج لکھنو میں پڑھا۔ وہ تعلقہ داروں میں سے پہلی لڑکی تھیں جس نے بی اے پاس کیا۔ کالج کے زمانے سے ہی کہانیاں لکھتی تھیں۔ ان کی 12 کہانیوں کا مجموعہ '' Phoneix Fled'' 1953 میں لندن سے کتابی شکل میں سامنے آیا۔
ان کے بارے میں کسی نے کہا کہ وہ سجاد ظہیر، ڈاکٹر رشید جہاں اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئیں۔ اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ان لوگوں نے میری تحریروں پر کوئی اثر نہیں چھوڑا۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے میری سیاسی سوچ پر کچھ اثرات مرتب کیے۔ اسے تقدیر کہیے کہ جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو ان کے شوہر علی بہادر لندن میں تعینات تھے۔ عطیہ حسین کا خاندان مسلم لیگ کی سیاست میں گلے گلے ڈوبا ہوا تھا اور راجا صاحب محمود آباد سے تعلقات تھے، جن کی خاندانی دولت سے مسلم لیگ کی سیاست پروان چڑھ رہی تھی۔ ان کے خاندان کے متعدد افراد پاکستان کا رخ کرچکے تھے یا کرنے والے تھے۔
ایسی صورت حال میں یہ عطیہ کے لیے آسان نسخہ تھا کہ وہ پاکستان کا رخ کریں اور یہاں کی اشرافیہ کا حصہ بن جائیں۔ وہ اگر ہندوستان میں رہتیں تب بھی تعلقہ داری چھن جانے کے باوجود ان کا خاندانی پس منظر انھیں زندگی کی بہت سی سہولتیں فراہم کرتا۔ لیکن انھوں نے ان دونوں ملکوں میں رہنے کے بجائے اس تیسرے ملک کا انتخاب کیا جس نے ہندوستان پر لگ بھگ 2 صدی حکومت کی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ''لندن ایک نیوٹرل گراؤنڈ تھا۔ مجھے اپنی قومیت ترک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
1947 میں برصغیر کے تمام لوگوں کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہوتا تھا۔'' دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ انھوں نے رہنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کا انتخاب نہیں کیا اور اپنی آخری سانس تک برطانوی شہری رہیں۔ انھوں نے ایک مختصر گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے دونوں بچوں نے متوسط وضع کے بورڈنگ ہاؤس میں زندگی گزاری۔ عطیہ حسین نے لکھا ہے کہ انھوں نے ایک نیم تاریک دو چھتی میں لکھنے پڑھنے کا اپنا سامان جمایا اور پھر لکھتی رہیں۔
کہانیاں، مضامین، ہندوستانی کھانوں کی تراکیب پر مشتمل انگریزی میں ایک کتاب اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسی زمانے میں انھوں نے اپنا ناول ''Sunlight on a Broken Column'' لکھنا شروع کیا۔ اسے انھوں نے خون جگر سے لکھا۔ اس کے بعد انھوں نے کوئی اور ناول تحریر نہیں کیا لیکن اس کی انگریزی ادب پڑھنے والے طبقے میں دھوم مچ گئی۔ ان کا یہ ناول دوبارہ ''وراگو ماڈرن کلاسک'' نے شائع کیا۔ اس ادارے کی کرتا دھرتا الکرنڈرا پرنگل نے کہا کہ اس کی اشاعت میرے لیے ایک دل خوش کن تجربہ تھا۔
عطیہ نے روز مرہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بی بی سی میں کام کیا۔ وہ ایک اعلیٰ براڈ کاسٹر تھیں اور وہاں سے انھیں کام کا معاوضہ بھی ملتا تھا لیکن جب بی بی سی والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اردو سروس صرف پاکستان کے لیے نشر کی جائے گی تو انھوں نے خاموشی کے ساتھ بی بی سی سے کنارہ کرلیا۔
ماسکو کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں ایشیائی ادب کی سربراہ انا سووروا نے 2011 میں یہ بات مجھ سے کہی تھی کہ ''عطیہ کا یہ ناول مجھے بے حد محبوب ہے، میں دس برس پہلے اس کا روسی میں ترجمہ کرنا چاہتی تھی لیکن کوئی پبلشر نہیں ملا۔'' ہم ماسکو کے انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز میں بیٹھے تھے۔ ان سے یہ سن کر میں مسکرائی تھی اور میں نے ان کی دل دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ زمانے رخصت ہوئے جب سوویت یونین ہوتا تھا اور برصغیر کے ادیب ذوق شوق سے ترجمہ کیے جاتے اور شائع ہوتے تھے۔ ہر کتاب کم سے کم بھی دس پندرہ ہزار تو چھپ ہی جاتی تھی۔ انا مسکرائی تھیں اور بس۔ ہوسکتا ہے اب بھی دیواروں کے کان ہوتے ہوں۔
قرۃالعین حیدر نے عطیہ حسین کے بارے میں اپنے فیملی ساگا ''کارِ جہاں دراز ہے'' میں لکھا ہے:
''چند سال قبل اردو اکیڈمی یوپی کے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے لکھنو گئی، تب پہلی بار اکیڈمی کی عمارت دیکھی جو رانی صاحب بلہیرا کی ملکیت تھی۔ اٹھارہویں صدی کے جارجین طرز تعمیر کی یہ عمارت کافی خستہ حالت میں ہے اور شاید روشن الدولہ کی کچہری کی طرح انتہائی بے حسی کے ساتھ اسے بھی گرا دیا جائے۔ اکیڈمی کی بلڈنگ کی اصل مالکہ تو اب لندن میں رہتی ہیں۔ برآمدے کے نیم شکستہ پیل پایوں پر سے دھوپ سرکتی جارہی تھی تب مجھے اچانک عطیہ حبیب اللہ کے ناول ''Sunlight on a Broken Column'' کا خیال آیا جو چند سال قبل لندن سے چھپا تھا اور اسی ماحول اور اس کی موجودہ اداسی کے بارے میں تھا۔عطیہ کی ساس یعنی بیگم حبیب اللہ، اماں ( بیگم نذر سجاد حیدر) کی بہت پرانی سہیلی تھیں۔ 1947 میں ان کی بہو عطیہ نے لندن ہجرت کی۔ ان کی بیٹی تزئین اپنے شوہر فریدی کے ساتھ کراچی گئیں لیکن بیگم حبیب اللہ ایک اور لیڈر خاتون بیگم اعزاز رسول کی مانند لکھنؤ میں رہیں۔ پاکستان جانے یا نہ جانے کا فیصلہ عموماً لوگوں کے ذاتی حالات پر مبنی تھا۔ بہت سے کنبے زمین داری کے خاتمے کے بعد روانہ ہوئے۔ متعدد حضرات سرکاری نوکریوں سے ریٹائر ہونے کے منتظر رہے لیکن اپنے لڑکوں کو پاکستان بھیج دیا۔ یہی منظر میں نے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں دیکھا جہاں ہندو گھرانوں کے نوجوان تلاش معاش اور بہتر مستقبل کی امید میں کلکتہ چلے گئے تھے اور ان کے بزرگ اپنے اپنے قدیم مکانات میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ عطیہ حبیب اللہ مرحومہ کا ناول Emigre ادب کا ایک قابل قدر حصہ ہے اور عطیہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ Sunlight on a Broken Column کا اردو ترجمہ شائع کیا جائے۔''
قرۃالعین حیدر جب یہ جملے لکھ رہی تھیں، اس وقت انتظار حسین ''مشعل'' کی طرف سے اس ناول کا اردو میں ترجمہ کررہے تھے۔ یہ ناول ''شکستہ ستون پر دھوپ'' کے عنوان سے اس وقت شائع ہوا جب عطیہ حسین کی زندگی فنا کی ردا اوڑھ چکی تھی۔
ہماری منیزہ شمسی جو پاکستان میں انگریزی کے اولین ادیبوں میں سے ہیں، عطیہ حسین ان کی سگی خالہ تھیں اور کاملہ شمسی جو خاندانی روایت کو بڑھاتے ہوئے ہر دوسرے چوتھے برس انگریزی میں ایک ''بیسٹ سیلر'' ناول لکھ دیتی ہیں، وہ عطیہ کی نواسی ہیں۔ انگلستان میں مقیم انگریزی کے ادیب، نقاد اور ادبی کالمسٹ عامر حسین جس محبت سے اپنی ''عطیہ خالہ'' کا ذکر کرتے ہیں، وہ سننے کی چیز ہوتا ہے۔ میں نے پہلی مرتبہ ان سے ہی یہ سنا تھا کہ ایک زمانے میں لوگ ہندوستان جانے والوں سے کہتے تھے کہ وہاں اگر تم نے تاج محل اور عطیہ حسین کو نہیں دیکھا، تو کچھ نہیں دیکھا۔ میں نے یہ بات بعد میں زیبا علوی کی یاد داشتوں میں پڑھی۔
زیبا نے حضرت گنج کی اس کوٹھی کو یاد کیا ہے جس کا شمار طبقہ اعلیٰ کے گھروں میں ہوتا تھا اور جہاں عطیہ حسین رہتی تھیں۔ ''ان کا حسن و جمال، ان کا رکھ رکھاؤ، تعلیم، کپڑے اور زیورات کے بارے میں امی ہمیں بتاتیں تو گمان ہوتا کہ وہ کسی پرستان کے بارے میں بتارہی ہیں اور ہم کسی پری کی کہانی سن رہے ہیں۔ یہی عطیہ شاہد حسین بعد میں اردو ادب میں عطیہ حسین کے نام سے پہچانی گئیں۔''
زیبا علوی کی ان سے ملاقات 1981 کے لکھنو میں ہوئی۔ زیبا لکھتی ہیں کہ ان کے انتقال کی خبر ''ڈان'' میں پڑھی تو ان کی تصویر بھی تھی اس کے ساتھ ہی کسی نے ان کے لیے یہ تعریفی کلمات بھی لکھے تھے کہ ''اگر آپ ہندوستان گئے اور آپ نے تاج محل اور عطیہ حسین کو نہیں دیکھا تو آپ نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔''
عطیہ حسین اب اپنے برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ روانہ ہوچکی ہیں۔ آسمان کے امیگریشن ڈیسک پر شاید کسی نے ان سے کچھ نہ پوچھا ہو۔