آئین و قانون کی عملداری
عوام جمہوری عمل میں ٹھہراؤ کے متمنی ہیں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے، حکومت اور کسی بھی ادارے کے درمیان محاذ آرائی ہے نہ ہوگی، گورنر ہاؤس کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا کام عوام کے مسائل حل کرنا ہے، قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صدر ممنون حسین نے کراچی میں مزار قائد اعظم پر حاضری دیتے اور پھولوں کی چادر چڑھاتے ہوئے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے قوم کو یاد دلایا کہ ملک میں آئین اور قانون کی عمل داری سیاسی بے راہ روی کے دروازے بند کر سکتی ہے جس سے جمہوری استحکام اور قومی ترقی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم نے اداروں کے مابین تصادم گریز رویہ ، گہری مفاہمت ، ہم آہنگی اور خیرسگالی پر مبنی تعلقات کار اور مثبت و تعمیری اشتراک عمل کی بات خطے کے ایسے تناظر میں کی ہے، جب ملک کو داخلی اور خارجی محاذ پر اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف افغان پالیسی کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اسے حتمی شکل دے دی ہے اور اس پر عملدرآمد کی بس اب دیر ہے۔
ادھر امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدرٹرمپ پاکستان کودی جانے والی تمام تر عسکری امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ''پاکستان امریکا کو لوٹ رہا ہے'' امریکی عسکری ذرایع کی جانب سے یہ بیان غالباً آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے جمعہ کو دیے جانے والے بیان کے سیاق وسباق میں ہے جس میں جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان امریکا کی مالی اور مادی امداد سے زیادہ دہشتگردی کے خلاف پیش کی جانے والی قربانیوں کو تسلیم کیے جانے کو اہم سمجھتا ہے، یاد رہے کہ پینٹاگان نے پہلے ہی کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد روک دی ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ ہمارا ملک اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثرہوا ہے، امریکا کی طرف سے جنوبی ایشیا کے جائزے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور افغانستان کے امن و سلامتی کے لیے اس کے عزم کو بھی شامل کیا جائے۔ کمانڈر امریکی سینٹرل کمانڈ جنرل جوزف ایل ووٹیل سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان افغان عوام کے لیے اپنے تعاون کے بارے میں پرعزم ہے اور 3 دہائیوں سے زائد عرصہ سے50 لاکھ افغان مہاجرین کی یہاں موجودگی سمیت دہائیوں سے جاری تعاون اس کا ثبوت ہے۔
وزیراعظم نے اپنے کوئٹہ دورے میں ملکی سیاست میں کشیدگی اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کے حوالہ سے اہم گفتگو کی ہے۔ حقیقت میں میڈیا کی فعالیت اور آزاد عدلیہ کے نئے مظاہر کے تجربات اور سیاسی تناؤ میں کمی وقت کی اہم ضرورت ہے، ارباب اختیار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ افغانستان اور کشمیر سمیت کنٹرول لائن پر بھارتی کشیدگی اور جارحیت کے خطرات ملکی سالمیت کے لیے ہمہ وقت چوکس اور مستعد رہنے اور دہشتگردی کی ہر کوشش کو کچلنے کے لیے غیرمعمولی طور پر الرٹ رہنا اسٹرٹیجیکل ناگزیریت ہے۔
سیاسی اختلاف رائے، سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ، فارورڈ بلاک کی تشکیل اور سیاسی جوڑ توڑ سیاسی تودہ گرنے کے مترادف ہے، یہ عندیہ ہے اس بات کا کہ سیاسی پیش رفت کو اوپن سیکرٹ سمجھا جائے، اور اپنی توانائیاں ملکی سلامتی ، معیشت کے استحکام اور قومی یکجہتی پر مرکوز رکھی جائیں، حکومت اور اپوزیشن میں کشمکش بھی جمہوریت کا لازمہ ہے ، وزیراعظم نے درست کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر مختلف ایشوز پر بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے، وزیراعظم کے مطابق 2013 کی نسبت آج بلوچستان میں حالات بہتر ہیں، بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال پر اجلاس ہواجس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے، حکومت نے صوبوں کا ترقیاتی فنڈ 1200ارب روپے سے بڑھا کر 1900ارب روپے کردیا ہے، ابھی صوبے میں مزید کام باقی ہیں۔ غربت دور کرنی ہے۔
عوام جمہوری عمل میں ٹھہراؤ کے متمنی ہیں، امن ہوگا تو جمہوریت ثمرات بھی دے سکے گی جب کہ جمہوری تسلسل ہی سے حکمران دنیا کو ملکی سلامتی اور عالمی سطح پر پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے قائل کرنے میں کامیابی دلا سکتے ہیں۔ اس لیے میڈیا پر بحث و مباحثہ اور سربراہان حکومت یا اپوزیشن رہنماؤں کے تند وتیز بیانات اور شعلہ نوائی کو جمہوری حدود سے باہر نکلنا نہیں چاہیے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں گروپنگ ہونا کوئی نئی بات نہیں۔
سیاسی اتحاد اور مخلوط حکومتوں کی تشکیل جمہوری عمل کی عملی جہتیں ہیں۔ البتہ خطے کے تیزی سے تبدیل ہوتے حقائق پر ارباب اختیار کی نظریں مرکوز رہنی چاہئیں، خاقان انتظامیہ سیاسی و معاشی بریک تھرو کے لیے غیر روایتی اقدامات کرے تو عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات مزید واضح ہونگے، نان ایشوز سے ہٹ کر حکومت ان منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے جن کا اس نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم نے ''اپنا دفاع ہر شخص اور ادارے کا حق ہے'' کا بلیغ اشارہ دے کر فہمیدہ سیاسی حلقوں کو سوچنے کا پیغام دیا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم نے اداروں کے مابین تصادم گریز رویہ ، گہری مفاہمت ، ہم آہنگی اور خیرسگالی پر مبنی تعلقات کار اور مثبت و تعمیری اشتراک عمل کی بات خطے کے ایسے تناظر میں کی ہے، جب ملک کو داخلی اور خارجی محاذ پر اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف افغان پالیسی کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں ٹرمپ نے کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اسے حتمی شکل دے دی ہے اور اس پر عملدرآمد کی بس اب دیر ہے۔
ادھر امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدرٹرمپ پاکستان کودی جانے والی تمام تر عسکری امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ''پاکستان امریکا کو لوٹ رہا ہے'' امریکی عسکری ذرایع کی جانب سے یہ بیان غالباً آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے جمعہ کو دیے جانے والے بیان کے سیاق وسباق میں ہے جس میں جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان امریکا کی مالی اور مادی امداد سے زیادہ دہشتگردی کے خلاف پیش کی جانے والی قربانیوں کو تسلیم کیے جانے کو اہم سمجھتا ہے، یاد رہے کہ پینٹاگان نے پہلے ہی کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد روک دی ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ ہمارا ملک اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثرہوا ہے، امریکا کی طرف سے جنوبی ایشیا کے جائزے میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور افغانستان کے امن و سلامتی کے لیے اس کے عزم کو بھی شامل کیا جائے۔ کمانڈر امریکی سینٹرل کمانڈ جنرل جوزف ایل ووٹیل سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان افغان عوام کے لیے اپنے تعاون کے بارے میں پرعزم ہے اور 3 دہائیوں سے زائد عرصہ سے50 لاکھ افغان مہاجرین کی یہاں موجودگی سمیت دہائیوں سے جاری تعاون اس کا ثبوت ہے۔
وزیراعظم نے اپنے کوئٹہ دورے میں ملکی سیاست میں کشیدگی اور ادارہ جاتی ٹکراؤ کے حوالہ سے اہم گفتگو کی ہے۔ حقیقت میں میڈیا کی فعالیت اور آزاد عدلیہ کے نئے مظاہر کے تجربات اور سیاسی تناؤ میں کمی وقت کی اہم ضرورت ہے، ارباب اختیار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ افغانستان اور کشمیر سمیت کنٹرول لائن پر بھارتی کشیدگی اور جارحیت کے خطرات ملکی سالمیت کے لیے ہمہ وقت چوکس اور مستعد رہنے اور دہشتگردی کی ہر کوشش کو کچلنے کے لیے غیرمعمولی طور پر الرٹ رہنا اسٹرٹیجیکل ناگزیریت ہے۔
سیاسی اختلاف رائے، سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ، فارورڈ بلاک کی تشکیل اور سیاسی جوڑ توڑ سیاسی تودہ گرنے کے مترادف ہے، یہ عندیہ ہے اس بات کا کہ سیاسی پیش رفت کو اوپن سیکرٹ سمجھا جائے، اور اپنی توانائیاں ملکی سلامتی ، معیشت کے استحکام اور قومی یکجہتی پر مرکوز رکھی جائیں، حکومت اور اپوزیشن میں کشمکش بھی جمہوریت کا لازمہ ہے ، وزیراعظم نے درست کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر مختلف ایشوز پر بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے، وزیراعظم کے مطابق 2013 کی نسبت آج بلوچستان میں حالات بہتر ہیں، بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال پر اجلاس ہواجس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے، حکومت نے صوبوں کا ترقیاتی فنڈ 1200ارب روپے سے بڑھا کر 1900ارب روپے کردیا ہے، ابھی صوبے میں مزید کام باقی ہیں۔ غربت دور کرنی ہے۔
عوام جمہوری عمل میں ٹھہراؤ کے متمنی ہیں، امن ہوگا تو جمہوریت ثمرات بھی دے سکے گی جب کہ جمہوری تسلسل ہی سے حکمران دنیا کو ملکی سلامتی اور عالمی سطح پر پاکستان کو اپنے اصولی موقف سے قائل کرنے میں کامیابی دلا سکتے ہیں۔ اس لیے میڈیا پر بحث و مباحثہ اور سربراہان حکومت یا اپوزیشن رہنماؤں کے تند وتیز بیانات اور شعلہ نوائی کو جمہوری حدود سے باہر نکلنا نہیں چاہیے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں گروپنگ ہونا کوئی نئی بات نہیں۔
سیاسی اتحاد اور مخلوط حکومتوں کی تشکیل جمہوری عمل کی عملی جہتیں ہیں۔ البتہ خطے کے تیزی سے تبدیل ہوتے حقائق پر ارباب اختیار کی نظریں مرکوز رہنی چاہئیں، خاقان انتظامیہ سیاسی و معاشی بریک تھرو کے لیے غیر روایتی اقدامات کرے تو عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات مزید واضح ہونگے، نان ایشوز سے ہٹ کر حکومت ان منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دے جن کا اس نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے۔ وزیراعظم نے ''اپنا دفاع ہر شخص اور ادارے کا حق ہے'' کا بلیغ اشارہ دے کر فہمیدہ سیاسی حلقوں کو سوچنے کا پیغام دیا ہے۔