ڈاکٹر محبت برڑو کی یاد میں
محبت کی پہلی ادبی کاوش 1974ء میں لیاقت میڈیکل کالج کے میگزین میں ڈاکٹر کے نام سے کہانی چھپنے سے ہوئی۔
ایک دن اپنے ماضی میں جھانک کر کچھ دوستوں کو یاد کر رہا تھا، بہت سارے ان دوستوں کی یاد آنے لگی جو یہ جہاں چھوڑ چکے ہیں مگر انھوں نے کچھ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے اب بھی لوگ انھیں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایک دوست ڈاکٹر محبت برڑو بھی تھا جسے علم اور ادب کی دنیا سے بے حد پیار تھا اور وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کی سیاسی، سماجی، ادبی اور علمی سطح کو بلند کیا جائے جس کے لیے اس نے بچپن سے ہی کاوشیں شروع کردی تھیں۔
محبت ایک دانشمند، محقق، صحافی، سوشل ورکر، سیاسی ورکر اور روشن خیال تھا، جس سے ملنے والے ہمیشہ کچھ نہ کچھ حاصل کرکے ہی جاتے تھے۔ وہ کئی خوبیوں کا مالک تھا جس نے علم اور ادب کی دنیا میں چھوٹی عمر کے اندر بہت سارا کام کر ڈالا جسے لوگ کئی نسلوں تک یاد رکھیں گے۔ اس کا یہ مشن تھا کہ وہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں جاکر علم کی روشنی پھیلائے، عوام کو ادب کی طرف راغب کرے، اپنے کلچر، ادب و آداب، مہمان نوازی، رسم و رواج کی حفاظت کرے اور سندھ کو ایک بار پھر امن، محبت اور خوشحالی کا گہوارا بنائے اور پھر ایک بار وہاں پر اتحاد اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے۔
اسے کتاب پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور وہ جیسے ہی کتاب خریدتے اسے ایک یا دو دن میں پڑھ کر پورا کردیتے اور اس میں حاصل کی ہوئی انفارمیشن یا نالج پہنچانے میں اپنا کام شروع کردیتا۔ کتاب کی اہم اور خاص باتوں کو Underline کردیتا اور پھر اسے اپنے دوستوں کے ساتھ Share کرتا۔ جو چیزیں اسے بہتر لگتیں اس پر لوگوں میں لیکچر دیتا، آرٹیکل لکھتا، شارٹ اسٹوری لکھ کر عام پڑھنے والے کو سمجھانے کی کوشش کرتا۔ اس نے یہ سلسلہ سب سے پہلے اپنے گھر سے، محلے، پھر شہر اور، اپنی تحریروں کے ذریعے پورے سندھ میں پھیلادیا۔ وہ عملی آدمی تھا جو کچھ سوچتا اسے فوراً کر ڈالتا۔
محبت کی پہلی ادبی کاوش 1974ء میں لیاقت میڈیکل کالج کے میگزین میں ڈاکٹر کے نام سے کہانی چھپنے سے ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے انگریزی اور اردو میں چھپنے والی کتابوں کا سندھی میں ترجمہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ مختلف اردو اور سندھی اخباروں اور میگزین میں مضامین اور کالم بھی لکھنے شروع کیے۔ وہ کئی قلمی ناموں سے مختلف جگہ پر کبھی لطیف، کبھی ساجد، کبھی سجاد، ساجن اور مہران مگسی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں سیاسی، سماجی، ثقافتی، ادبی، علمی، تاریخی، سائنسی مواد شامل ہے۔ بچوں کے ادب پر بھی بہت کچھ لکھا ہے، جو قابل ستائش ہے۔ اس کی ترجمہ کی ہوئی کتاب شعور اور موسیٰ سے مارکس تک پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان کی کافی لکھی ہوئی تحریریں ان کی وفات کے بعد ہر سال ان کی برسی کے موقع پر کتابی صورت میں آجاتی ہیں۔
وہ ایک سندھی اخبار کے رپورٹر بھی تھے جس کے ذریعے انھوں نے غریبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سائنس میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے نوجوانوں کے لیے موئن جو دڑو سائنس کلب بنایا، کیرتھر سائنس اکیڈمی قائم کی اور ایک سلسلے وار سائنسی سوچ کے نام سے مواد چھاپا کرتے تھے۔ لوگوں کو سندھ کی تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے مختلف اخبارات میں کالم لکھتے تھے۔ وہ عقلمند اور باشعور آدمی تھے جو چاہتے تھے کہ سندھ کے لوگ معاشی طور پر مستحکم ہوں جس کے لیے اپنے وسائل کی حفاظت کریں اور انھیں صحیح طریقے سے استعمال کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو بھوک، بیماری اور جھگڑوں سے بچائیں اور تعلیم کے میدان میں ماڈرن تعلیمی ماحول کو اپنائیں۔
وہ اپنے دوستوں کو اپنی ہر بات اور کام سے باخبر رکھتے اور کہتے کہ وہ اس کے ساتھ مل کر نئی نسل کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ان کی ذہنی سطح کو بلند کرنے کے لیے نئی ایجادات، کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی میں تربیت دے کر آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں۔ محبت ایک جینئس آدمی تھا جس کی نظر آنے والے وقت پر ہوتی تھی اور وہ لوگوں کو انگریزی سیکھنے اور نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے پر اسرار کرتے اور کہتے کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوائیں جو بھی ایک بڑا سرمایہ ہے جن کے ٹیلنٹ کو استعمال کرکے ترقی کی راہ میں اضافہ کریں۔
محبت نے تقریباً چالیس کتابیں لکھیں اور ترجمہ کی ہیں اور کافی مواد جو چھوڑ کر گئے تھے، ان کے بھائی ریاضت آہستہ آہستہ چھپواتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کتابوں کی تعداد اور بڑھ جائے گی۔ اس سلسلے میں اس نے محبت ادبی اکیڈمی قائم کی جس کے ذریعے علمی، ادبی، ثقافتی، تاریخی کاموں کو ترقی دینے کے لیے کانفرنس، سیمینارز وغیرہ کروائے جاتے ہیں جس سے عام آدمی کی سوچ میں مثبت تبدیلی آجائے گی۔ مزید عورتوں اور ادبی افراد کے لیے ورکشاپ بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں جس کے ذریعے معاشرے میں آنے والی نسلوں کی راہ متعین کرنے کے لیے جدت کی ضرورت کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔
محبت برڑو 25 مارچ 1952ء کو قمبر شہر میں پیدا ہوئے، پرائمری تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی اور پھر میٹرک کرنے کے بعد انٹر سائنس کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کیا۔ میڈیکل میں سلیکشن ہونے کے بعد انھوں نے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے 1979ء میں ڈگری حاصل کرلی۔ وہ اکثر اپنے کالج سے ادبی اور علمی کتابیں لے کر پڑھتا۔ ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے کمپلسری ملٹری سروس میں کیپٹن کے طور پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے اسے گلگت، اسکردو اور کوئٹہ میں اپنے فرائض انجام دینے پڑے، مگر کچھ سال کے بعد اس نے وہاں سے استعفیٰ دے دیا اور کراچی کی ایک پرائیویٹ اسپتال میں جاب کرنا شروع کردیا۔ لیکن اس کے اندر ایک خلش تھی کہ وہ اپنے علاقے کے غریب لوگوں کی خدمت جس کی وجہ قمبر لوٹ آئے اور وہاں پر لطیف کلینک کے نام سے کام کرنا شروع کردیا۔ وہ بہت کم پیسے لیتے یا پھر مفت علاج کرتے۔
اس دوران محبت نے سندھی شاگرد پبلیکیشن اور ڈاھب کتاب گھر قائم کرکے لوگوں کی ادبی خدمت شروع کردی۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے گلن جھڑا بارڑا سنگت بھی قائم کی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھی شاگرد تحریک کے لیے کام کرنے لگے جس کی وجہ سے اسے پہلا مرکزی صدر چنا گیا۔ اس پلیٹ فارم سے اس نے تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف جگہوں پر جاکر لیکچر دینے لگے۔ اس موقع پر اس نے لوگوں سے اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ انقلابی ادب پڑھیں تاکہ ان میں سیاسی بصیرت پیدا ہو۔ اس پیغام کو عام کرنے کے لیے اس نے تقریباً500 مضامین لکھ ڈالے جو مختلف اخباروں میں چھپتے رہے۔
بے انتہا محنت کرنے سے راتوں کو جاگنے سے اور دن کو لوگوں کی خدمت کرنے کی وجہ سے اور پھر سب سے زیادہ سگریٹ پینے سے اسے قلب کی بیماری ہوگئی کیونکہ سگریٹ کے بھی چین اسموکر عادی تھے۔ دل کی بیماری نے اسے کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی مگر اس کی کام کرنے کی عادت نے اسے ہم سے 9 اپریل 1997ء کے دن چھین لیا جو علم اور ادب کی دنیا کو بڑا دھچکا ہوا۔ اگر اور زندگی اس کا ساتھ دیتی تو وہ مزید خدمت کرتا، پھر بھی اس نے بہت کام کیا ہے جو کئی نسلوں تک چلتا رہے گا۔
محبت ایک دانشمند، محقق، صحافی، سوشل ورکر، سیاسی ورکر اور روشن خیال تھا، جس سے ملنے والے ہمیشہ کچھ نہ کچھ حاصل کرکے ہی جاتے تھے۔ وہ کئی خوبیوں کا مالک تھا جس نے علم اور ادب کی دنیا میں چھوٹی عمر کے اندر بہت سارا کام کر ڈالا جسے لوگ کئی نسلوں تک یاد رکھیں گے۔ اس کا یہ مشن تھا کہ وہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں جاکر علم کی روشنی پھیلائے، عوام کو ادب کی طرف راغب کرے، اپنے کلچر، ادب و آداب، مہمان نوازی، رسم و رواج کی حفاظت کرے اور سندھ کو ایک بار پھر امن، محبت اور خوشحالی کا گہوارا بنائے اور پھر ایک بار وہاں پر اتحاد اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوجائے۔
اسے کتاب پڑھنے کا بڑا شوق تھا اور وہ جیسے ہی کتاب خریدتے اسے ایک یا دو دن میں پڑھ کر پورا کردیتے اور اس میں حاصل کی ہوئی انفارمیشن یا نالج پہنچانے میں اپنا کام شروع کردیتا۔ کتاب کی اہم اور خاص باتوں کو Underline کردیتا اور پھر اسے اپنے دوستوں کے ساتھ Share کرتا۔ جو چیزیں اسے بہتر لگتیں اس پر لوگوں میں لیکچر دیتا، آرٹیکل لکھتا، شارٹ اسٹوری لکھ کر عام پڑھنے والے کو سمجھانے کی کوشش کرتا۔ اس نے یہ سلسلہ سب سے پہلے اپنے گھر سے، محلے، پھر شہر اور، اپنی تحریروں کے ذریعے پورے سندھ میں پھیلادیا۔ وہ عملی آدمی تھا جو کچھ سوچتا اسے فوراً کر ڈالتا۔
محبت کی پہلی ادبی کاوش 1974ء میں لیاقت میڈیکل کالج کے میگزین میں ڈاکٹر کے نام سے کہانی چھپنے سے ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے انگریزی اور اردو میں چھپنے والی کتابوں کا سندھی میں ترجمہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ مختلف اردو اور سندھی اخباروں اور میگزین میں مضامین اور کالم بھی لکھنے شروع کیے۔ وہ کئی قلمی ناموں سے مختلف جگہ پر کبھی لطیف، کبھی ساجد، کبھی سجاد، ساجن اور مہران مگسی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں سیاسی، سماجی، ثقافتی، ادبی، علمی، تاریخی، سائنسی مواد شامل ہے۔ بچوں کے ادب پر بھی بہت کچھ لکھا ہے، جو قابل ستائش ہے۔ اس کی ترجمہ کی ہوئی کتاب شعور اور موسیٰ سے مارکس تک پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان کی کافی لکھی ہوئی تحریریں ان کی وفات کے بعد ہر سال ان کی برسی کے موقع پر کتابی صورت میں آجاتی ہیں۔
وہ ایک سندھی اخبار کے رپورٹر بھی تھے جس کے ذریعے انھوں نے غریبوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ سائنس میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے نوجوانوں کے لیے موئن جو دڑو سائنس کلب بنایا، کیرتھر سائنس اکیڈمی قائم کی اور ایک سلسلے وار سائنسی سوچ کے نام سے مواد چھاپا کرتے تھے۔ لوگوں کو سندھ کی تاریخ سے روشناس کرانے کے لیے مختلف اخبارات میں کالم لکھتے تھے۔ وہ عقلمند اور باشعور آدمی تھے جو چاہتے تھے کہ سندھ کے لوگ معاشی طور پر مستحکم ہوں جس کے لیے اپنے وسائل کی حفاظت کریں اور انھیں صحیح طریقے سے استعمال کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو بھوک، بیماری اور جھگڑوں سے بچائیں اور تعلیم کے میدان میں ماڈرن تعلیمی ماحول کو اپنائیں۔
وہ اپنے دوستوں کو اپنی ہر بات اور کام سے باخبر رکھتے اور کہتے کہ وہ اس کے ساتھ مل کر نئی نسل کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ان کی ذہنی سطح کو بلند کرنے کے لیے نئی ایجادات، کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی میں تربیت دے کر آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں۔ محبت ایک جینئس آدمی تھا جس کی نظر آنے والے وقت پر ہوتی تھی اور وہ لوگوں کو انگریزی سیکھنے اور نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے پر اسرار کرتے اور کہتے کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو بھی تعلیم دلوائیں جو بھی ایک بڑا سرمایہ ہے جن کے ٹیلنٹ کو استعمال کرکے ترقی کی راہ میں اضافہ کریں۔
محبت نے تقریباً چالیس کتابیں لکھیں اور ترجمہ کی ہیں اور کافی مواد جو چھوڑ کر گئے تھے، ان کے بھائی ریاضت آہستہ آہستہ چھپواتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے کتابوں کی تعداد اور بڑھ جائے گی۔ اس سلسلے میں اس نے محبت ادبی اکیڈمی قائم کی جس کے ذریعے علمی، ادبی، ثقافتی، تاریخی کاموں کو ترقی دینے کے لیے کانفرنس، سیمینارز وغیرہ کروائے جاتے ہیں جس سے عام آدمی کی سوچ میں مثبت تبدیلی آجائے گی۔ مزید عورتوں اور ادبی افراد کے لیے ورکشاپ بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں جس کے ذریعے معاشرے میں آنے والی نسلوں کی راہ متعین کرنے کے لیے جدت کی ضرورت کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔
محبت برڑو 25 مارچ 1952ء کو قمبر شہر میں پیدا ہوئے، پرائمری تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی اور پھر میٹرک کرنے کے بعد انٹر سائنس کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے پاس کیا۔ میڈیکل میں سلیکشن ہونے کے بعد انھوں نے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے 1979ء میں ڈگری حاصل کرلی۔ وہ اکثر اپنے کالج سے ادبی اور علمی کتابیں لے کر پڑھتا۔ ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسے کمپلسری ملٹری سروس میں کیپٹن کے طور پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے اسے گلگت، اسکردو اور کوئٹہ میں اپنے فرائض انجام دینے پڑے، مگر کچھ سال کے بعد اس نے وہاں سے استعفیٰ دے دیا اور کراچی کی ایک پرائیویٹ اسپتال میں جاب کرنا شروع کردیا۔ لیکن اس کے اندر ایک خلش تھی کہ وہ اپنے علاقے کے غریب لوگوں کی خدمت جس کی وجہ قمبر لوٹ آئے اور وہاں پر لطیف کلینک کے نام سے کام کرنا شروع کردیا۔ وہ بہت کم پیسے لیتے یا پھر مفت علاج کرتے۔
اس دوران محبت نے سندھی شاگرد پبلیکیشن اور ڈاھب کتاب گھر قائم کرکے لوگوں کی ادبی خدمت شروع کردی۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے گلن جھڑا بارڑا سنگت بھی قائم کی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھی شاگرد تحریک کے لیے کام کرنے لگے جس کی وجہ سے اسے پہلا مرکزی صدر چنا گیا۔ اس پلیٹ فارم سے اس نے تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف جگہوں پر جاکر لیکچر دینے لگے۔ اس موقع پر اس نے لوگوں سے اور خاص طور پر نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ انقلابی ادب پڑھیں تاکہ ان میں سیاسی بصیرت پیدا ہو۔ اس پیغام کو عام کرنے کے لیے اس نے تقریباً500 مضامین لکھ ڈالے جو مختلف اخباروں میں چھپتے رہے۔
بے انتہا محنت کرنے سے راتوں کو جاگنے سے اور دن کو لوگوں کی خدمت کرنے کی وجہ سے اور پھر سب سے زیادہ سگریٹ پینے سے اسے قلب کی بیماری ہوگئی کیونکہ سگریٹ کے بھی چین اسموکر عادی تھے۔ دل کی بیماری نے اسے کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی مگر اس کی کام کرنے کی عادت نے اسے ہم سے 9 اپریل 1997ء کے دن چھین لیا جو علم اور ادب کی دنیا کو بڑا دھچکا ہوا۔ اگر اور زندگی اس کا ساتھ دیتی تو وہ مزید خدمت کرتا، پھر بھی اس نے بہت کام کیا ہے جو کئی نسلوں تک چلتا رہے گا۔